یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عائلی زندگی انسانی
معاشرے کا وہ بنیادی پتھر ہے جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت کھڑی ہو جاتی ہے۔
اگر معاشرے میں خاندانی نظام کا ڈھانچہ توڑ پھوڑ ، تتر بتر ، انتشار و
اضطراب اور افرا تفری کا شکار ہو، تو خواہ زمیں سونا اگل رہی ہوں، لہلہاتے
کھیت جنت عارضی کا منظر پیش کر رہے ہوں، فلک بوس پہاڑ معدنی ذخائر کے منہ
کھول رہے ہوں ۔ گلاب اور چنبیلی اپنی لازوال خوشبوئوں سے فضا ء معطر کر رہی
ہوں ، دریا اور سمند اپنی لہروں سے انسانی جذبات کو ابھار رہے ہوں، علم و
دانش کے علمبردار اپنی قوت بیانی و حکمت و دانش کے موتے بکھیر رہے ہوں ،
جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آسائش و آرائش کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہوں یا
مشینوں سے لعل و جواہر بر آمد ہو رہے ہوں، زندگی سکون سے محروم ہوجاتی
ہے۔محبت نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ اقدار مٹتی ہیں۔ جذبات ناپید ہوتے ہیں۔
خواہشات دم توڑتی ہیںحوصلے شکست خوردہ ہو جاتے ہیں۔ امیدیں ٹوٹ کر بکھر
جاتی ہیں۔خوشبوئیں متعفن ہو جاتی ہیں۔دلکشیاں ویرانیاں سی لگتی ہیں۔ ترقی
تنزلی کا منظر پیش کر تی ہیں دوست دشمن سے لگتے ہیں،زندگی عذاب سی ہوتی ہے
، دل کی حالت کباب کی سی ہوتی ہے، انسانی معاشرہ کی حالت خانہ خراب کی سے
ہوتی ہے۔ چہروں پر منافقت کے دبیز پردے اوڑھ کر محبت و دوستی اور اقدار و
اطوار اور تعلق و رشتہ کی دور ر سی کڑیاں ملانے والوں کی کیفیت کھلی کتاب
کی سی ہوتی ہے ، بس دوست یہ سمجھ لیںکہ زندگی ایک مشکل نصاب کی سی لگتی ہے۔
میرے اکثر قاری مجھ سے یہی امید اور مطالبہ کرتے ہیں کہ میںمعاشرے میں رستے
ہوئے ناسوروں کے خلاف آواز حق بلند کروں مگر میرا ایک ہی جواب ہوتاہے کہ
نقارے میں طوطی کا کون سنتاہے؟ یہ بات کس سے مخفی ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی
نظام روز بروز تباہ ہوتا جارہا ہے ۔ شادی جیسے مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے
کتنی کڑی شرائط و رسم ورواج کے آہنی طوق کو گلے کا ہار بنایا جاتا ہے مگر
آقائے مدنی، سردار کل جہاں، نبی آخرالزمان حضر ت محمد ۖ نے کتنا خوبصورت
ارشاد فرمایا کہ سب سے برکت والی شادی (نکاح) جس میں زیر باری کم سے کم ہو
یعنی جس میں انسان نہ مالی طور پر زیر بار ہو، اور نہ رسم و رواج اور ذات
پات اور قوم و خاندان کی لت میں جھکڑا ہوا ہو۔
ہمارے معاشرے میں روز بروز اقدار مٹتی جا رہی ہیں ایک زمانہ تھالوگ اپنی
بیٹیوں کا رشتہ شریف گھرانوں میں کرنا پسند کرتے تھے۔ لڑکے کی دینداری اور
تعلیم و کردار کو دیکھا جاتا تھا۔مگر بد قسمتی سے رفتہ رفتہ یہ ساری چیزیں
بھولی بسری کہانیاں بنتی جارہی ہیں۔ آج لڑگی کے لیے رشتہ کا معیار مالداری
اور سرکاری ملازمت میں محدود ہو کر رہ گیا اگر چہ گریڈ ون کا ملازم ہی کیوں
نہ ہو۔ لڑکے کی عادات و اطوار ، قول و عمل ، حسن صورت و سیرت ، اخلاق و
تعلیم اور اس جیسی دیگر اوصاف حسنہ کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ لڑکے والوں کے
پاس وافر مقدار میں مال و زر ہو اور لش پش گاڑی ہو، چاہے لڑکا شرابی و
کبابی یا لوفر لفنگا ہو عام طور پر یہ بات سنائی دیتی ہے کہ ایک اچھی سی
گاڑی ہو اور سرکاری ملازمت ہو تو پھر کہیں بھی رشتہ کرنا کوئی مشکل نہیں
اگر ان تلخ حقائق کو تسلیم کر کے ان کی بیخ کنی نہ کی جائے تو آنے والا کل
مزید بگڑا ہو ا ہوگا۔
اسلام ایک دین فطرت ہے ۔ اسلام کے آفاقی اور لازوال قوانین کا عمیق مطالعہ
کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کے کسی قانو
ن اور آوامرو نواھی میں کوئی سقم نہیں ۔ اسلام نے شادی ، بیاہ او ر بالخصوص
نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے ہمارے موجودہ معاشرے کے ڈھانچے نے اس اتنا مشکل
اور پیچ درخم بنایا ہے ۔ نکاح کے بابرکت اور مسنون معاہدے پر ہم نے
لامتناہی رسموں ، غیر اخلاقی شرطوں ، غیر مسنون تقریبات اور بے جا اخراجات
، مصارف کا ایسا بوجھ اپنے کندھوں لاد رکھا ہے کہ ایک غریب بلکہ مڈل کلاس
آمدنی والے شخص کے لیے بھی وہ ایک ناقابل عبور پہاڑ بلکہ جیتا جاگتا "ننگا
پربت "بن کر رہ گیا۔ جو خون آشام پہاڑ کے نام سے معروف ہے ۔ ہم نے بھی نکاح
جیسے مقدس فریضہ کو خون آشامی کا عادی بنایاہے۔
ہمارے ملک عزیز پاکستان میں مختلف ثقافت اور رہن سہن کے لوگ رہتے ہیں۔
اکثریت مسلمانوں کی ہے اور بزعم خویش خود کو نیک اور پارسا بھی سمجھتے ہیں
مگر دینی احکام کی بات آتی ہے تو وہاں ساری دینداری پائوں تلے روندھی جاتی
ہے۔نہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی طرف متوجہ ہوتے ہیںنہ مشرقی روایات
اور اعلیٰ اقدار و کردار کا پاس رکھا جاتا، صرف اور صرف اپنی انا اور اپنی
رسم و رواج اور ثقافت کو پرموٹ کیا جا رہاہے اگرچہ وہ اسلام اور اعلیٰ
اقدار کے منافی و متصادم ہی ہو۔
یہ بات بھی ہم سے چھپی ہوئی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو محض خادمہ یا
شئی مستعملہ سمجھا جاتاہے جب اس کے رشتے کی بات آتی ہے تو اسے اسکی مرضی تک
معلوم نہیں کی جاتی حالانکہ اس کی مرضی اور اجازت لینا سنت نبویۖ ہے مگر
ہمارے معاشرے میں اس کو عار بلکہ بے غیرتی سے تعبیر کیا جاتاہے اور شادی کے
بعد بھی عورت کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہوتاہے میاں بیوی کا تعلق بہت گہرا
اور انمٹ ہو تاہے ۔ایک دوسرے کے دم دم کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اور ان کی زندگی
میں بے شمار نشیب و فراز آتے ہیں بہت سی ناگواریاں اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں
اور بعض دفعہ ایسے مواقع بھی آتے ہیںکہ انسان ناگواریوں کے ردعمل میں ظلم و
ستم پر اتر آتاہے ۔ ایسے وقت میں آدمی کو اپنی عورت کو اپنی بہن کا درجہ
دیکر سوچنا چاہیے کہ اگر اس کی جگہ میری بہن ہوتی تو میں اس کے لیے کون سا
فیصلہ پسند کرتا؟اور دھیان بھی ہونا چاہیے کہ میرے عمل کو اللہ دیکھ رہا
ہے۔کہیں میں زیادتی اور ناانصافی تو نہیں کر رہاہوں ہمارے لیے اسوہ حسنہ کے
طور پر ہمارے نبی ۖ ہی کافی ہیں۔آپ ۖ نے اپنی تمام عمر کبھی اپنی ازواج
مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین کے ساتھ طبعی غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ
نہیں فرمایا۔ عورت اور مرد کے نشیب و فراز اور اتارو چڑھائو میں اللہ کے
احکامات اور سنت نبویۖ کی طرف توجہ نہ دی جائیں تو عموماً اس کا نتیجہ حق
تلفی، ظلم و ستم ،تشدد اور ناانصافی کی صورت میں نمودار ہوتاہے جو دونوں کے
لیے دو جہانوں میں نقصان و خسران کا سبب بنتا ہے۔
میں اپنے قریبی احباب کے نکاح کی ایک تقریب میں مدعو تھا۔ عین وقت نکاح
فریقین میں دنگا شروع ہوا، سینکڑو ں لوگوں کی موجودگی میں نکاح خواں اور
ایک فریق کا جھگڑا ہوا۔ لڑکی والے ایک ایسی فاسد شرط پر مصر تھے جو منگنی
میں طے ہوئی تھی۔ اب وہ الفاظ نکاح کے درمیان اس شرط کا اقرار بھی چاہتے
تھے اور نکاح خوان (مفتی صاحب) کا ارشاد تھا کہ یہ شرط فاسد ہے مگر اس کی
بات کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آرہی تھی۔ نوبت ہاتھاپائی تک پہنچنے والی تھی
کہ میں درمیان میں آیا، نکاح خواں سے عرض کیا کہ آپ خاموش رہیں، پھر فریقین
کے درمیان صلح کرائی اور ایک مختصر سی تحریر ہرجانہ کے نام سے لکھ کر
جانبین کے دستخط لیے پھر مفتی صاحب سے عرض کیا کہ اب آپ کا اشکال بھی
دور۔بسم اللہ کیجیئے ۔ یوں عقد نکاح کی بابرکت محفل بغیر دنگا فساد کے پایہ
تکمیل کو پہنچی۔قارئین! یقین جانیں! یہ ایک خالص دینی گھرانے کی روئیداد ہے
۔ آپ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ ہم رسم و رواج کے قصر مذلت میں کس طرح گرے
ہوئے ہیں۔یہی صورت حال منگنی ، دعوت ولیمہ ، مایو، ابٹن ، مہندی اور شب
زفاف ، دیگر مواقع پر دیکھی جارہی ہے جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا
ہے ۔
اسلام ایک معتدل تعلیمات پر مبنی دین ہے ۔جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی، جس کا
ماخذ و منبع وحی الہٰی ہے ۔اسلامی تعلیمات و احکامات ایک ایسی ذات کی وضع
کردہ ہیںجو ہر دور کے معاشرتی ضروریات و حوائج سے مکمل طور پر باخبر
ہے۔لہٰذا ہمارا کام جدید دور کی بگڑی ہوئی رسومات اور فیشن کی پیروی کرنا
نہیں بلکہ آج کے تمام رسومات ،کلچراور فیشنوں اور دیگر لوازمات کو قرآن
وحدیث اور فقہ اسلامی کی کسوٹی پرکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ہمارے مزاج
کے مطابق ہے یا نہیں؟ جب تک ہمارے اندر یہ جرا ء ت اور بصیرت پیدا نہ ہوگی
ہم مغربی ، ہندوستانی اور خود اپنی ناجائز ثقافتی و تمدنی یلغار کے لیے ایک
ترنوالہ بنتے رہیں گے اور ہماری اجتماعی زندگی کی رہی سہی دینداری و اقدار
بھی رفتہ رفتہ غیروں کی جلائی ہوئی آگ اور اپنوں کی بے حسی بلکہ بے بہرہ
تقلید کی وجہ سے مٹتی چلی جائیں گی آج ہمارے ہاں جہیز نام کی ایک اور لعنت
نے جڑیں پکڑ لی ہے معاشرے میں یہ لعنت ایسی چھا گئی ہے کہ اس کا خاتمہ
دکھائی نہیں دیتاہے ۔ متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے یہ عذاب الیم سے کم نہیں
ہے ۔ اگر آپ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو دیکھیں گے تو ان کے زلف سیاہ میں
چاندنی کی سفیدی نظر آئے گی۔ جب ان کے والدین سے پوچھا جاتا ہے تو ایک ہی
جواب ہوتاہے کہ جہیز تیار نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہورہی ہے ۔ یہاں بھی
ہمیں رہنمائی کے لیے کائنات کے سردار جناب رسول اللہ ۖ اور ابو بکر صدیق کی
طرف رجوع کرنا چاہیے ، جب رسول ۖنے فاطمةالزھراکا نکاح شیر خدا حضرت علی سے
اور حضرت ابو بکر نے ام المومنین حضرت عائشہ کا عقد رسول اللہ ۖ سے کیا
تھا۔تو انہوں نے اپنی لخت جگروں کو کتنا سامان جہیز کے نام پر دیا تھا۔
یقیناً ہم اگر سنت رسول ۖ اور صحابہ پر عمل کریں گے تو ہماری بچیاں بھی
شادی کے خواب و انتظار میں اپنے شباب کے حسین ایام یاس و حسرت میں نہیں
گزاریں گی۔ اور ہمیں ایک لعنت سے چھٹکارہ مل جائے گا۔
شادی بیاہ اور رشتے ناطے کے معاملے میں بھی لوگ ابھی تک اپنے خود ساختہ
خیالات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور اس معاملے میں اسلامی تعلیمات سے
غفلت ، کوتاہی اور ناواقفیت عام ہو چکی ہے ۔ شریعت نے نکاح کے معاملے پر
ایک حد تک کفو کی رعایت رکھی ہے ۔ لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ نکاح چونکہ
زندگی بھر کا ساتھ ہوتاہے اس لیے میاں بیوی اور دونوں خاندانوں کے درمیان
طبعی ہم آہنگی ہو۔ ان کے رہن سہن اور مزاج میں اتنا دوری نہ ہو کہ بقیہ
زندگی گزارنے میں مشکلات پیش آئے۔مگر ہمارے ہاں ان تمام احکام کو یکسر نظر
انداز کیے جاتے ہیں اور ایسے ایسے خرافات کا ڈھول پیٹا جارہا ہے جس میں
نکاح جیسا مقدس فعل شطرنج کا کھیل بن جاتا ہے ، رشتے ناطے اور نکاح کے لیے
ایسی کڑی شرائط اور ناز برداریوں سے گزرنا پڑتاہے کہ ایک شریف انسان عش عش
کر جاتاہے جب کہ آقائے نامدار ، تاجدار انبیاء سید الرسل سرور کونین ۖ کا
کتنا مبارک ارشاد ہے کہ "اذا جاء کم من ترضون دینہ و خلقہ فزوجوہ الا تفعلو
ا تکن فتنتہ فی الارض و فساداً کبیرا" ترجمہ : جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص
رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (اپنی لڑکی
کا) نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فساد برپا ہوگا۔اس
جیسے بیشمار احکامات قرآن و حدیث میں موجود ہیں مگر دل پر ہاتھ رکھ کر
سوچیئے کہ ہم ان قدسی احکامات کی کتنی تعمیل کرتے ہیں۔ ہم تو ذات پات، غریب
امیر، کالا، گورا، عربی وعجمی، سید غیر سید، صدیقی ، فاروقی ،عثمانی ، علوی
،مشرقی ، مغربی، پٹھان ، بلوچ ، سندھی ، پنجابی ،بلتی ، شینا، شین، یشکن ،
ڈوم ، کمین اور قوم و قبیلہ کے چکروں میں جکٹرے ہوئے ہیں۔اور ساتھ ہی اس کو
کفو کا نام بھی دے رہے ہیں۔جو سراسر غلط اور زیادتی ہے ۔ احادیث و روایات
میں ضرور ترغیب دی گئی ہے کہ نکاح کفو میں کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ دونوں
خاندانوں کے مزاج آپس میں میل کھا سکیں لیکن یہ سمجھنا اور کہنا قطعاً غلط
ہے کہ کفو سے باہر نکاح شرعاً بالکل ناجائز ہے آج اگر علمائے کرام، شیوخ،
واعظین اور معاشرے کے سرکردہ اور با اثر حضرات اپنی بہنوں ، بیٹیوں،
پوتیوںاور اپنے بھائیوں، بیٹوں اور پوتوں کے رشتے ناتے، منگنی تقریب ولیمہ،
نکاح اور شادی بیاہ کے دوسرے علاقائی رسم و رواج کو ترک کر کے اسلامی طریقہ
کار کو اپنائیں تو مجھے اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان
کی تقلید کریں گے۔ یہی اپر کلاس لوگ اگر اپنے بیٹے ، بیٹیوں کا رشتہ اوصاف
حسنہ کو بنیاد بنا کر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے گھرانوں میں کریں تو
معاشرے سے بے شمار برائیوں کا خاتمہ ہو سکتاہے اور یہ لوگ "الدال علی الخیر
کفاعلہ" کا مصداق بن جائیں گے ۔بہر صورت ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں
بالخصوص شادی بیاہ ، نکاح،ولیمہ ، اور طلاق وغیرہ میں اسلام کے ابدی و
سرمدی احکام پر مکمل عمل کرنا چاہیے تاکہ شادی خانہ بربادی کا سبب نہ بنے۔
اللہ ہمار حامی و ناصر ہو۔ آمین |