ہاں میں اِنسانوں کے ہی جنگل میں رہتا ہوں...؟

 اپنی اِسی سرزمینِ پاکستان پرمیں اپنی زندگی کی ساڑھے چاردہایاں گزارچکاہوں، مگرآج مجھے اِس بات کا شدت سے احساس ہواکہ میں اِنسان تو ضرورہوں مگر اِنسانوں کے جنگل میں رہتاہوں، اور جنگل میں کون ہوتے ہیں ،آپ یہ بھی جانتے ہیں،شاید مجھے یہ احساس کبھی بھی نہ ہوتامگرپچھلے پیش آئے صرف ایک واقعے نے یہ احساس پیداکردیاکہ تب مجھے خود پر اور اپنے گردونواں میں چلتے پھرتے اور اپنے مفادات کا خیال کرتے اِنسانوں پر بہت غصہ آیا۔

وہ واقعہ جس کا میں اگلی سطور میں تذکرہ کروں گامگراِسے اِنسانوں کے جنگل میں رہنے والے اِنسانوں کے سامنے بیا ن کرنے اور اِن کے کانوں میں اُنڈیلنے سے قبل یہ کہنا زیادہ بہترسمجھتاہوں کہ پہلے اپنے معاشرے اور سوسائٹی کے اِنسانوں کو اِن کا اصل چہر ہ دِکھادوں تاکہ اِن کے چہروں پر چڑھاحیوانگی اور درندگی کا خول اُترجائے یا اِس کے بعد اِنسانوں کے جنگل میںبسنے والے حیوان نمادرندے اپنے چہروں پر چڑھے خول کو خودکُھرج ڈالیں اِن اِنسانوں کے لئے عرض یہ ہے کہ”خُداکے ساتھ محبت کا دعویٰ اُس وقت تک غلط ہے جب تک آپ اِنسانوں کے ساتھ محبت کو اہم نہیں سمجھتے،اور اے اِنسانوں تمہاری شرافت اور قابلیت تمہارے لباس سے نہیں بلکہ تمہارے کرداراور فعل وگفتارسے ہوتی ہے،اور اے اِنسانوں..! تم یہ بھی سُنوکہ ہرزمانے کے ہر اِنسان کو اچھے ارادے اور بلندمقاصد سے بلندی عطاہوئی ہے اور جسے یہ نصیب ہوگئی تو اُسے دنیا والے صدیوں تک یادرکھتے ہیں۔

آج جس معاشرے میں میں زندہ ہوں ایسے بے حس معاشرے کے اِنسانوں سے ہی متعلق بہت پہلے ایک دانا یزد نے کہا تھاکہ” آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوارنہ کروکیونکہ میں نے دیکھاہے کہ پاگل کُتے بھی اپناگوشت خودنہیں چباتے...“ مگرافسوس ہے کہ میرے معاشرے کے اِنسان اِس سے بھی آگے نکل چکے ہیں، اوراَب ایسے میں اِنہیں خودسوچناچاہئے کہ یہ فیصلہ کریں کہ اِنہیں اپنامقام کیسے بلند کرناہے....؟ کہ اِنسانوں کے جنگل میں بسنے والے اِنسانوں کو یہ محسوس ہونے لگے کے اِن پر اِنسانیت غالب آچکی ہے اور یہ اِنسانیت کے معراج کو پہنچ چکے ہیں،مجھے اُمیدہے کہ میرے اِنسانوں کے جنگل میں بسنے والے اِنسان میر ی بات پر ضرورغوروخوص کریں گے اور میرے بیان کردہ اِس واقعے میں خود کو رکھ کر تولیں گے اور اپنا اپنااحتساب بھی کریں گے۔

عرض یہ ہے کہ جب سے میرے شہرمیں سردی اور اِس کی معاونت کے لئے چلنے والی یخ بستہ ہواؤں نے اپناڈیراڈالا، تب ہی سے میرے شہر کے ہر خاص و عام نے سردی اور برف جیسی ٹھنڈپھیلانے والی ہواؤں کا مقابلہ گرم کپڑے اور گرم مشروبات اور خشک وگرم میوے جات سے کرنے کی ٹھان لی ہے۔

مگر میرے ہی شہر میں آباد کچھ کچی اورغریب آبادیاں ایسی بھی ہیں کہ جس کے محنت کش غریب مکین میرے دیس سے مجھ سے اور آپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اور میرے دیس کی ترقی و خوشحالی میں اِن کا حصہ مجھے سے آپ سے بھی کہیںزیادہ ہے، جہاں مُلک کی تعمیروترقی اور اِس کی خوشحالی کے لئے میراپسینہ گرتاہے تووہاں اِن لوگوں کا خون گرتاہے،۔

مگر آج افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ جس دن میرے شہر میں یخ بستہ ہواؤں اور سردی کا راج زوروں پرہے اُس روز سے ہی مجھے اپنے شہر کی غریب آبادی کے مکین مُلک میں ہونے والی منہ توڑ سینہ زورمہنگائی کی وجہ سے مہنگے تو کیا سستے اور لُنڈے کے گرم کپڑوں اور گرم مشروبات اور خشک وگرم میوے جات خریدنے سے بھی محروم نظرآئے ہیں۔

ایسے میں میراایک روز ایک بازار سے گزرہوا، جہاں لوگ سردی اور یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے دُکانوں اور ٹھیلے والوں سے گرم کپڑے اورخشک میوے جات اور اللہ جانے کیا کیا کچھ خریدنے میں مصروف تھے ، خریداروں کا رش تھا اور دُکانیں اور ٹھیلے بھی کچھ کم نہ تھے، کہ بازار کے ماحول میں یکایک ایک شوربرپاہوا، اور ہر طرف چور...چور....اورپکڑو...پکڑو ...کی صدائیں بلندہوئیں، بازارمیں بھگڈرمچنے کی وجہ سے بازار کا سکوت غارت ہوچکاتھا، ہر فردچورکو پکڑنے میں لگ چکاتھا، آخرکار چندمنٹوں کی محنت کے بعد چور ہاتھ لگ گیا تھا... میں نے بھی چور کو قریب سے دِیکھااور،مجھے اپنے معاشرے کے اِنسانوں کے منافقانہ روئے پر دُکھ ہواکہ ٹھیلے کے مالک اور بازار میں موجود مجھ سمیت دیگرلوگوں نے ایک دس سال کے غریب معصوم بچے کو صرف اِس بناپر چوربنادیاتھا کہ اِس نے ایک ٹھیلے سے صرف ایک مٹھی بادام کے ساتھ ساتھ دوچاردانے چلغوزے اُٹھالئے تھے ۔

بس اِس وجہ سے ٹھیلے کے مالک نے اِس معصوم کو چورسمجھ لیا تھااور سار ے بازار کو چیخ چیخ کرسر پراُٹھالیاتھا، مگر وہ شاید یہ بھول چکا تھا کہ اُس نے بازار کے جس راستے میں اپناٹھیلا کھڑاکیا ہواہے اِس یہاں کھڑاکرنے کے لئے اِس نے کتنوں کو رشوت دی ہوگی، اوراِسے بازارکے راستے میں ٹھیلا لگانے کی اجازت جس نے دی ہوگی ، اِس نے قانون کی کتنی چوری کی ہوگی، اور کب سے یہ اور اِس جیسے بہت سے ٹھیلے والے اِس غیرقانونی عمل میں شامل ہوئے ہوں گے، اِس نے کتنوں کو کس کس طرح سے لوٹاہوگا، اپناسامان کئی گنامہنگے داموں فروخت کرکے کتنی اخلاقی اور اسلامی تعلیمات کی چوری کی ہوگی، وہ یہ سب کچھ بھول چکاتھا، اگراِسے نظرآئی تو اُس غریب معصوم بچے کے مٹھی میں بنداِس کے بادام اور چلغوزوں کے چنددانوں کی چوری ہی نظرآئی ،اور اِس پر یہ ظلم کہ باداموں اور چلغوزوں کے چنددانوں کی چوری کی پاداش میں ٹھیلے کے مالک نے دس سالہ بچے کو اتناماراکہ اِس کے چہرے اور جسم پر چوٹ کے گہرے نشانات نمایاں تھے، اور اِس پر یہ بھی کہ وہ باضدتھاکہ وہ جب تک اِس بچے کو پولیس کے حوالے نہیں کردیتاہے اُس وقت تک اِسے چین نہیں ملے گا...جب تک میں نے دِیکھا وہاں موجود لوگوں نے ٹھیلے کے مالک کو بہت سمجھاناچاہ وہ ایساکچھ نہ کرے،جس سے غربت کا مارابچہ آگے چل کر کوئی پیشہ ورچوربن جائے، مگر اُس نے کسی کی نہ سُنی ....اِس کے بعد پھر کیا ہوا..؟یہ تو مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں وہاں سے چلاگیاتھا...!مگراِنسانوں کے جنگل کے اِس معاشرے میں جس میں ، میں رہ رہاہوں اِس معاشرے کے اِس منافقانہ روئے پر مجھے بہت دُکھ ہوا، کہ ہم ایک مجبورو بیکس غریب معصوم بچے کو صرف چندبادام اور چلغوزوں کے دانوں کی چوری کے عوض تو چوربناکرپیش کرکے اِس کی ایسی کی تیسی کردیتے ہیں اوراِسے پولیس کے ہاتھوں میں دے کرا ِسے قانون سے بھی سزادلوانے کی ضدکرتے ہیں مگر اپنے ہی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر سمیت داداگری سے بھتہ خوری کرنے والوں، چوری ڈکیتی ، قتل وغارت گری اور بم دھماکو ںمیں ملوث عناصر کی نشان دہی کے لئے قانون کے رکھوالے جب سے ہم سے رابطہ کرتے ہیں یا مددمانگتے ہیں توہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں اور اپنے کان اور آنکھیں کیوں بندکرلیتے ہیں ..؟اور تب ہم اِن جرائم پیشہ عناصر کوقانون کے ہاتھوں کیفرِ کردار تک پہنچانے میں قانون کی مددکیوں نہیں کرتے ہیں...؟آج ہم سب کو اپنے اِس منافقانہ روئے کے بارے میں ضرور سوچنا ہوگا ورنہ ہم اپنے اِس روئے کی وجہ سے اپنے معاشرے کے ہر مجبور و بیکس اور غریب کو چور تو بناسکتے ہیں مگر اپنے معاشرے کے بھتہ خوروں ، قتل وغارت اور کرپشن پھیلانے والوں کو قانون سے بچاکر اِن ناسوروں کو پلنے اور پھولنے کا موقعہ فراہم کرتے رہیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889338 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.