کسی نے کیا خوب کہا ہے ! غلام وہ
ہے جو اپنے غلام ہونے سے نابلد ہے ۔۔۔بد تر غلام وہ ہے جس نے غلامی کو زہنی
طور پر تسلیم کر لیا۔۔۔اور بد ترین غلام وہ ہے جوجد و جہد آزادی کے بجائے
اپنی غلامی کا جواز پیش کرتا ہے،اور غلامی کے بھیانک اثرات میں سے ایک یہ
ہے کہ لوگوں میں احساس مفقود ہو جاتا ہے ۔صیح و غلط ۔۔۔جائز و
ناجائز۔۔۔اچھائی و برائی میں تمیز نہیں رہتی ،اور یہ لوگ ہر ایسے اقدام سے
گھبراتے ․․․دور بھاگتے ہیں جس میں زرہ برابر مشقت مطلوب ہو۔وہ ہر حال میں
بنا کسی تردد کے پرآسائش زندگی کے متمنی اورجذبہ ایثار سے کوسوں دور۔۔۔ صرف
اپنی زات کے بندے و بڑے بے توقیر ہوتے ہیں۔ان سے کبھی کوئی فیض یاب نہیں ہو
سکتا ۔۔۔یہ صرف اپنے لئے جیتے ہیں مرتے ہیں۔یہ مرض کسی ایک طبقہ فکر میں
نہیں بلکہ غلامی ذدہ قوم کی اجتماعی خصلت بن جاتا ہے۔اور پھر ہر شخص اپنے
آپ کوایک فلسفی وزمانے کا داناودانشور سمجھنے لگتا ہے۔
اکثر آزاد کشمیر کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز سیاسی کھلاڑیوں اور کچھ انقلابی
دوستوں کے بارہا بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ
’’ہم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمائت کرتے ہیں ۔۔کشمیریوں پر ہونیوالے
ظلم کی مذمت کرتے ہیں ‘‘ وغیرہ اوغیرہ۔ اس طرح یہ تمام کلمات بذات خود اس
بات کا اظہار ہیں کہ یہ تمام لوگ خود کو کشمیری نہیں سمجھتے ناں ہی ظائر
کرتے ہیں صرف لائن آف کنٹرول کے اس پار کے لوگوں کو کشمیری بلاتے ہیں
حالانکہ ان تمام سیاسستدانوں کو لفظ’’ہم کشمیری‘‘ استعمال کرنا چاہیے ۔ہم
ریاستی لوگ بے شک اپنے آپ کو جو مرضی کہہ لیں لیکن گزشتہ ۶۶برسوں میں بحثیت
قوم اپنی سوچ میں ذرہ برابر بہتری نہ لا سکے اور آج بھی ۵۰ کے عشرے میں
کھڑے ہیں۔۔۔ کچھ روز پہلے مجھے ایک جاننے والے نے کہا کہ آپ اپنے نام کے
ساتھ کشمیری کیوں لکھتے ہیں۔۔۔؟میں کشمیری ہوں۔۔۔میں نے کہا ،تو وہ بولا کہ
آپ کشمیری نہیں ہیں کشمیراس ۶۰بائی ۲۰ مربع میل علاقے کا نام ہے جسے وادی
کشمیر کہتے ہیں اور آپ پونچھ میں پیدا ہوئے اور پونچھ کل تک ایک الگ شناخت
رکھتا تھا اس لئے آپ کا کشمیری ہونایا کہنا سراسر جھوٹ ہے ۔جس طرح کوئی
کشمیری اپنے آپ کو پونچھی نہیں لکھ سکتا اسی طرح کوئی پونچھی اپنے آپ کو
کشمیری نہیں لکھ سکتا۔۔۔ ایک اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور سیاسی و سماجی
پہچان رکھنے والے شخص سے یہ سننا میرے لئے باعث حیرت تھا۔ایسا سنتے ہی مجھے
ایسا ایک اور واقع یاد آیا جب ہم نے ایک سابق صدر آزاد کشمیر سے دوران
گفتگو یہ سنا کہ اصل کشمیری صرف وادی کے وہ لوگ ہیں جو کشمیری زبان بولتے
ہیں ۔اور وہ جموں ،لیہ ،لداخ یا آزاد کشمیر کے لوگوں کو انتہائی کمتر
سمجھتے ہیں۔اور پھر مجھے ۲۰۱۱ میں ہونیوالے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے دو
گروپس کے ادغام کے بعدفرنٹ کے ایک تیسرے گروپ کے رہنما سے بات کرنے کا موقع
ملا ۔۔۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کو بھی اس اتحاد میں شامل ہو جانا چاہیے تو
۸۴۵۷۱مربع میل ریاست جموں کشمیر کی آزادی و خود مختاری کے علمبردار تنظیم
کے اس دھڑے کے رہنما نے مجھے بتایا کہ یہ ویلی کے لوگوں کی کچھ اپنی
ترجیحات و ضروریات ہیں جن کی بدولت انہوں نے اتحاد کیا ، لہٰذاہ ہم ان کے
ساتھ نہیں چل سکتے۔۔۔اور اس طرح کی آراء اگر چہ عام فہم وغیرسیاسی لوگوں
میں ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب ہم ملک کے اہم ترین منصب پہ فائز
اور اپنے آپ کو قومی سطح کے رہنما کہلانے والے اور قومی آزادی و خود مختاری
کا دعویٰ کرنے والوں کے چہروں کو تھوڑا سا ’’کھرچنے ‘‘کی کوشش کرتے ہیں تو
اندر سے ایسے بھیانک چہرے سامنے آتے ہیں کہ پھر یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے
کہ چھ لاکھ شہداء کی قربانی کے بعد بھی ہم منزل سے دور کیوں ہیں اور یہ
سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ غلامی کے اثرات ہمارے اندر کہاں تک پہنچ چکے
ہیں۔
یہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز قدآور لوگ اور وہ انقلابی جنہیں ہم غلامی سے
نجات کا زریعہ سمجھتے ہیں اور انہیں پوری ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری
کی علامت سمجھنے لگتے ہیں اور ان کے ظائری پر کشش نعروں اور تقریروں کو مان
و سمان دیتے ہیں اور ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صدیوں غلامی میں پسے
محکوم عوام کے اندر پائی جانیوالی علاقائی ،قبیلائی ،لسانی ونسلی تعصبات و
خرافات کو مٹاکر ان دو کروڑ بکھرے و مختلف افکار میں بٹے لوگوں کو ایک قوم
بنائیں گے،اور آئے روز ریاستی عوام انہیں ہی ایسے مسائل کا شکار دیکھتے ہیں
تو ان کے لئے یہ واقعی حیران کن اور تکلیف دہ ہوتاہے۔ اس لئے یہ تبھی ممکن
ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ و سول سوسائٹی اپنا کردار ادا کرے اور ایسی تمام
تنظیموں کو چاہیے کہ وہ عوامل جو اس آگ کو مذید ہوا دینے میں مشغول ہیں اور
جنہوں نے اپنے چہروں پر ماسک نہیں بلکہ اعلی درجے کی پلاسٹک سرجری کروا
رکھی ہے کو پہچانیں اور اپنی صفوں کو ان سے پاک کریں جو ایک مشکل کام ضرور
ہے نا ممکن نہیں۔رہی بات کشمیری اور پونچھی کی ۔۔۔تو یاد رہے ریاست کی پانچ
ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی کے تمام ادوار میں ریاست کی سرحدوں میں
تغیرو تبدل ہوتا رہا مگر کبھی بھی اس کا رقبہ ۴۸۵۷۱ سے کم نہیں ہوا ․․․․اور
ان ہزارہا سالوں پر محیط تاریخ میں ہمیشہ اسے کثیر ،کاشو میر،کثپیراور
کشمیر جیسے ناموں سے پکارہ جاتا رہا ہے اور آج بھی جموں ،لداخ،گلگت بلتستان
اور آزاد کشمیر پر مشتمل ۸۴۵۷۱ مربع میل علاقہ کو عام طور پر’’کشمیر‘‘
کہاجاتا ہے جب کہ سرکاری طور پراس کا نام’’ ریاست جموں کشمیر‘‘ لکھا جاتا
ہے۔بے شک’’ پونچھ‘‘ کو۱۹۳۹ تک ریاست کے اندر ایک خاص آئینی حیثیت حاصل رہی
ہے اور ایسے تما م احباب جن کا کہنا ہے کہ اس کے تمام ریجن کے لوگوں کا رہن
سہن ،کلچر اور زبانیں مختلف ہیں اس لئے یہ نہ ہی ایک ملک ہے نہ کشمیری نام
کی کوئی قوم ہے،تو اس کا جواب اتنا کافی ہے کہ پاکستان کے چار یونٹ ہیں اور
چاروں زبان و کلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اور پاکستان
میں رائج سرکاری زبان اردو ہے جو ان چاروں میں سے کسی ایک کی بھی مادری
زبان نہیں تھی،لیکن اس کے باوجود وہ ملک بھی ہے اور قوم بھی․․․․توکشمیر
کیوں نہیں۔۔۔ ؟تو جس طرح سندھی ،پنجابی ،بلوچی اور سرحدی پاکستانی ہیں اسی
طرح جموں ،وادی،لداخ، گلگت و پونچھ سب کشمیری ہیں ۔اس لئے ریاست جموں کشمیر
کے مختلف یونٹ کے لوگ اگر ایک دوسرے سے متعصب ہیں یا کسی اور تفرقہ بازی
میں مبتلا ہیں تو یہ طویل غلامی کا اثر تو ہو سکتا ہے مگر اس بنیاد پر اس
سے ملک و قوم ہونے کا درجہ ہی چھین لینا قطعی نامناسب رویہ ہے۔اس لئے جموں
کشمیر لبریشن فرنٹ کے دستور اساسی میں جہاں یہ واضع طور پر درج ہے کہ لفظ
’’ کشمیر ‘‘ کا مطلب جموں لداخ،گلگت بلتستان و آزاد کشمیر پر مشتمل وہ
ریاست جو ۱۵اگست۱۹۴۷ سے پہلے ایک وحدت کی حیثیت سے موجود تھی،اور اس ریاست
کے کسی بھی علاقے کا رہایشی ’’کشمیری‘‘ شہری کہلاتا ہے۔اس ریاست میں آٹھ
اہم ترین زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے کشمیری بھی ایک علاقائی زبان ہے
اور اس دیس کی قدیم ترین سرکاری زبان فارسی رہی ہے جب کہ ۱۹۲۵میں یہاں کی
حکومت نے اردو کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا ۔ |