حضرت مولانا محمد یوسف
کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن
مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں تین آدمیوں کو ایک اُونٹ ملا تھا (جس
پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے ) چنانچہ حضرت ابولبابہ ؓ اور حضرت علی ؓ
اونٹ میں حضورؐ کے شریک تھے جب حضورؐ کے پیدل چلنے کی باری آئی تو دونوں
حضرات نے عرض کیا کہ ( آپؐ اونٹ پر سوار رہیں ) ہم آپ کی جگہ پیدل چلیں گے
حضورؐ نے فرمایا تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور بھی نہیں ہو اور نہ میں تم
سے زیادہ اجر و ثواب سے مستغنیٰ ہوں ( بلکہ مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے اس
لیے میں بھی پیدل چلوں گا )
قارئین دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑا لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی
بھی قوم نے ترقی کی معراج کو چھونے کے لیے کیا کیا کام کیے اور ان کی لیڈ ر
شپ سے لے کر ایک عام آدمی کی سوچ اور اپروچ کیا تھی ۔یورپ جو کسی زمانے میں
پاکستان اور آزادکشمیر ہی کی طرح نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں بد تر ذہنی
غلامی ،نام نہاد مذہب کی تقلید ،کلیسا کی حکمرانی اور بادشاہت و شہنشاہیت
کا ایک انتہائی مکروہ نظارہ پیش کرتاتھا وہاں پر بھی ’’Might is right
‘‘یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا تصور حکمرانی کر رہا تھا وہاں انقلاب
پسندوں اور ترقی پسندوں نے ایک طویل جدوجہد شروع کی ان ترقی پسندوں کا تعلق
کسی ایک پارٹی سے نہ تھا بلکہ مختلف جماعتوں کے ستائے ہوئے مختلف لوگ اور
اسی طرح زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان اس تحریک کا حصہ بن گئے
۔حیرت انگیز ترین بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ شعور یافتہ ادیب ،دانشور ،شاعر
،فلسفی اور سائنس دان انقلاب کی اس تحریک کے سرپرست تھے اور ہراول دستے کے
طور پر سامنے آئے ۔جس طرح نیوٹن کا یہ قانون ہے کہ ’’ہر عمل کا رد عمل
ہوتاہے ‘‘اسی طرح سائنس کا یہ کلیہ اس سماج کے اوپر بھی اپلائی ہوا اور
دنیا نے دیکھا کہ فرانس سے لیکر امریکہ تک ہر جگہ شہنشاہیت کی چھٹی ہوئی
اور روس جو ایک آہنی پردے کے ذریعے پوری دنیا سے اپنے اندر کی باتیں چھپائے
ہوئے تھا وہاں بھی انسان کی آزادی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور آخر
کار دنیا نے یہ سمجھ لیا کہ جمہور کی حکومت ہی انسان کی آزادی ہے ۔
قارئین آج کی اس تمہید کا تعلق ہمارے آج کے موضوع کے ساتھ انتہائی گہرا ہے
ہم نے شدید ترین سردی کے موسم میں ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93کے اسٹیشن
ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی ہدایت پر ایک انتہائی خصوصی مذاکرہ
بعنوان ’’ شدید سردی ،برف باری ،موسمی شدت ،کشمیر ی عوام کی مشکلات ‘‘ رکھا
۔اس مذاکرے میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان نے حسب معمول ایکسپرٹ کے
فرائض سر انجام دئیے اور ہمارے مہمانوں میں آزادکشمیر نیوز پیپر ز سوسائٹی
کے صدر عامر محبوب ،سابق مشیر حکومت سردار عبدالرازق خان ایڈووکیٹ اور
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب
الرحمن تھے ۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ آزادکشمیر اور پاکستان
کی معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اشد ضروری ہے کہ برف باری اور بارشیں
زیادہ ہوں اور موسم سرما کی مدت میں بھی اضافہ ہو ،گزشتہ بیس سالوں کے
دوران موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اس خطہ کا موسم تیزی
سے تبدیل ہوا ہے اور ہر سال سردی کی شدت اور دورانیہ میں کمی آرہی ہے اگر
یہ صورتحال جاری رہی تو کشمیر اور پاکستان بنجر ہو جائیں گے ڈاکٹر حبیب
الرحمن نے کہا کہ پاکستان اور آزادکشمیر کی زراعت کی ترقی کے لیے وافر
مقدار میں پانی ضرور ی ہے اور صنعتوں کا پہیہ چلنے کے لیے بجلی کی ضرورت ہے
جو پانی کے ذریعے سستے ترین ریٹس پر پید ا کی جا سکتی ہے آزادکشمیر گلگت
بلتستان کے پہاڑوں پر جو برف موسم سرما میں پڑتی ہے وہ پورے سال کے لیے وطن
عزیز کو پانی فراہم کرتی ہے اس وقت ارضیاتی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے
انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور اس حوالے سے سائنس دانوں کو کام
کرنے کی ضرورت ہے میرپور یونیورسٹی آف اینڈ ٹیکنالوجی کے ریسرچ سکالر ز اور
تمام سائنس دانوں کو ہم یہ پراجیکٹس دے رہے ہیں کہ کس طریقے سے دستیاب پانی
کو انرجی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے
میں مد د مل سکے ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ رواں سال جاری موسم سرما میں
آزادکشمیر کے مختلف بالائی پہاڑی علاقے وادی نیلم ،وادی جہلم ،وادی لیپہ ،چکوٹھی
اور مختلف قصبات و دیہات برف باری کے دوران لینڈ سلائیڈنگ اور راستے بلاک
ہونے کی وجہ سے پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں یہ سراسر ہماری نالائقی ہے پوری
دنیا کے مختلف ممالک میں بھی برف باری ہوتی ہے اور اگر کوئی سڑک بلاک ہو
جائے اس کے لیے متبادل انتظامات کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں جب
کبھی بھی زیادہ بارشیں ہو جائیں یا برف باری کی وجہ سے راستے بلاک ہو جائیں
تو انتظامی سطح پر تمام نظام کسی بھی قسم کا رسپونس دینے کے قابل نہیں ہے
اس حوالے سے ہمیں ترقی کرنے کی ضرورت ہے ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ اگر
موسم سرما کا دورانیہ اسی طرح کم ہوتا رہا اور برف باری اور بارشیں
خدانخواستہ کم ہونا شروع ہو گئے تو پاکستان اور آزادکشمیر نہ صرف بنجر بلکہ
پورے علاقے میں قحط سالی بھی پیدا ہو سکتی ہے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے
اے کے این ایس کے صدر عامر محبو ب نے کہا کہ یورپ سے لے کر پوری دنیا کے
مختلف ممالک میں نے دیکھے ہیں اور ان ممالک میں پاکستان اور آزادکشمیر سے
کئی گنا زیادہ برف باری ہوتی ہے لیکن ان ممالک میں عوام کو موسمی شدت سے
بچانے کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں حکمران اور سیاستدان
دعوے تو ’’آسمان شکن‘‘ کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات انتہائی مایوس کن اور ’’
اعصاب شکن ‘‘ ہوتے ہیں آزادکشمیر میں اس وقت وادی نیلم ،دھیرکوٹ ،فاروڈ
کہوٹہ سے لے کر لائن آف کنٹرول کے تمام علاقے برف باری اور بارشوں کے بعد
لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں اور درجنوں انسانی جانوں
کے ضیاع کا خدشہ پید اہو چکا ہے مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کی
کیبنٹ کے تمام معز ز اراکین گرمیوں میں ٹھنڈی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور
سردیوں میں ’’ ہر طرح کی گرمی کے سامان ‘‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ غریب
کشمیری عوام سردی سے ٹھٹھر کر مر رہے ہوتے ہیں عامر محبوب نے کہا کہ اس وقت
آزادکشمیر میں صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ
سڑکوں اور راستوں کو کھلا رکھنے کے لیے کام کرنے والے اہم ترین ادارے محکمہ
ورکس کا سیکرٹری کون ہے انتظامی سطح پر ماضی میں ڈپٹی کمشنرز سے لے کر
سیکرٹریز تک لائق اور ذمہ دار لوگ موجود ہوتے تھے اور وہ سیاستدانوں کی
نالائقیوں پر اپنی اچھی کارکردگی سے پردہ ڈال دیتے تھے آج صورتحال یہ ہے کہ
میرپور اور کوٹلی جیسے اہم ترین اضلاع میں ڈپٹی کمشنر بننے کا سب سے بڑا
میرٹ یہ ہے کہ یہاں ایسا شخص ضلعی انتظامیہ کا سربراہ ہو جو مجاور وزیراعظم
اور ٹپی ثانی چوہدری قاسم مجید کو ’’ بلینک پیپراور بلینک چیک ‘‘ آفر کرے ۔میرپور
میں چوہدری طارق کو ڈپٹی کمشنر لگایا ہے اور کوٹلی میں چوہدری مختار ڈپٹی
کمشنر لگائے گئے ہیں جبکہ آزادکشمیر کے لائق ترین آفیسر مسعود الرحمن سمیت
دیگر دیانتدار آفیسر ز کو کھڈے لائن لگادیا گیا ہے اس سے بڑھ کر زیادتی
نہیں ہو سکتی ۔عامر محبوب نے کہا کہ کچھ بھی ہو 2014میں وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید کی کرسی اقتدار قائم رہنا مشکل ہے حالانکہ انہوں نے انتہائی
خطرناک سیاسی چال چلتے ہوئے اپنی پارٹی کے دو متوقع وزارت عظمیٰ کے
امیدواروں چوہدری لطیف اکبر اور چوہدری پرویز اشرف کو زرداری ہاؤس اور
وفاقی حکومت کے سامنے کرپٹ ثابت کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دلوانے کی کوشش
کی ہے اسی طرح اپنے ہی حلیف چوہدری یاسین کے ساتھ بھی ان کا سلوک انتہائی
معنی خیز ہے عامر محبوب نے کہا کہ میڈیا کا یہ کام ہے کہ معاشرے کی آنکھ بن
کر معاشرے کی زبان بنتے ہوئے ان تمام خرابیوں کی نشاندہی کرے اور ہم یہ کام
سرفروشی کے ساتھ کرتے رہیں گے سابق مشیر حکومت سردار عبدالرازق خان
ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا
مشیر تھا تو اکثر اجلاسوں کے دوران وزیراعظم کی یہ فرمائش ہوتی تھی کہ میں
ان کی حکومت کی تعریف کے لیے اخبار ات میں بیانات جاری کرو ں اور چوہدری
عبدالمجید اس موقع پر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آپ بے شک اپنی پارٹی کے لیڈر
چوہدری شجاعت کی حمایت میں بیان جاری کیا کریں اور ساتھ ہمارا ذکر کر دیا
کریں لیکن صرف چند ایسے مواقع آئے کہ جب حکومت نے واقعی کوئی اچھا کام کیا
اور میں نے مناسب الفاظ میں حکومت کی کارکردگی کو اجا گر کیا آزادکشمیر میں
اس وقت بجلی کی طویل ترین غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے میرپور میں گیس ،پانی
،بجلی کی بندش کی وجہ سے عوام بُری طرح پریشان ہیں اور آزادکشمیر اور وفاقی
حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت آزادکشمیر
کو تمام مسائل کے حوالے سے وفاقی حکومت سے ڈائیلاگ کرنا چاہیے اور اپنے
حقوق حاصل کرنے چاہئیں۔
قارئین یہ تو ایک انتہائی اہم موضوع پر کی جانے والی وہ گفتگو تھی جو درد
دل رکھنے والے ایک سائنس دان ،صحافی اور سیاستدان نے کی اور ہم نے آپ کے
سامنے رکھ دی سوچنے کی چند باتیں ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے آخر کیا
وجہ ہے کہ آزادکشمیر کے موجود ہ مالی سال کے بجٹ کا 80فیصد تنخواہوں کی مد
میں خرچ کیا جا رہا ہے اور صرف بیس فیصد ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے اسے اگر
ہم دوسرے انداز میں دیکھیں تو یوں کہہ لیں کہ بیس روپے کی مالیت کے منصوبو
ں کو چلانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسی روپے کے ملازمین رکھے گئے
ہیں یہ ظلم کی انتہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر روز بروز ترقی کی دوڑ
میں پیچھے سے پیچھے جا رہاہے جس قسم کی بے اعتدالیاں کی جا رہی ہیں اسے اگر
خود کشی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے اور اس موقع پر اگر میڈیا کوئی
بات کرتا ہے تو مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید غصے میں آکر گالیاں دینا
شروع کر دیتے ہیں بقول چچا غالب اگر ہم بات کریں تو کچھ یوں ہو گاکہ
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتا ر ہم ہُوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہی اپنی قسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر؟
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سِوا ابھی ہم یہ بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خُونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اﷲ رے تیری تندیء خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزق ہم ہوئے
اہل ہو س کی فتح ہے ترکِ نبردِعشق
جو پاؤں اُٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھچ سکے سو وہ یاں آکے دم ہوئے
چھوڑی ری اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق ِ اہلِ کرم ہوئے
قارئین بد قسمتی سے پاکستان میں ایک ایسی لابی ہم پر مسلط رہی کہ جس نے
ملکی مفادات کو چھوڑ دیا اور ذاتی مفادات کی خاطر سیاست چمکاتے ہوئے
پاکستان میں کالا باغ ڈیم سے لے کر دیگر ڈیموں پر اتفاق رائے نہ ہونا دیا
اور اسی بے اعتدالی کی وجہ سے آج پاکستان بنجر ہونے کے قریب ہے ہم نے ایف
ایم 93میرپورکے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں
پاکستان کے مایہ ناز ترین ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور تعلیمی
انقلاب کے بانی ڈاکٹر عطاء الرحمن کے تاریخی انٹرویو ز کیے او رانہوں نے ان
انٹرویوز میں انتہائی درد دل کے ساتھ یہ بات بتائی تھی کہ نیوکلیئر
ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت بائیس روپے فی یونٹ
پڑتی ہے اور فرنس آئل کے ذریعے رینٹل پاور پلانٹس میں تھرمل بجلی کی لاگت
پندرہ روپے فی یونٹ ہے کوئلے کے ذریعے چار روپے فی یونٹ کی لاگت ہے اور
پانی کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت ایک روپے فی یونٹ ہے اور یہ
انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے درجنوں ڈیمز
بنائے جائیں ان ڈیموں کے بنانے سے نہ صرف زراعت ترقی کرے گی صنعتوں کے سستی
بجلی دستیاب ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہر سال سیلاب کی وجہ
سے کئی سو ارب روپے کے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے ۔
قارئین اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم کس طرح کا پاکستان اور کشمیر چاہتے
ہیں اگر اسی طرح کا لٹا پٹا اور تباہ حال ملک ،معاشرہ اور مستقبل ہم چاہتے
ہیں تو تبدیلی لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے لیے موجودہ سیاست دان دوست ہی
کافی ہیں ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو
تحفظ اور وقار فراہم کرنا چاہتے ہیں تو خدارا انقلاب اور تبدیلی کی طرف قدم
بڑھائیے ۔
آخر میں حسب روایت ایک ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
جو ش ملیح آبادی کے ساتھ ایک مرتبہ یونس سلیم سفر کر رہے تھے یونس سلیم
کہنے لگے
’’ جوش صاحب آخر کیا بات ہے آج کل آپ غزل بھی نہیں لکھ رہے اور اس کی
مخالفت بھی کر رہے ہیں حالانکہ ابتدا میں آپ نے بہترین غزلیں لکھی ہیں ‘‘
جوش نے برجستہ جواب دیا
’’ بچپن میں ننگا رہا کرتا تھا کیا سمجھ آنے کے بعد بھی ننگا رہا کروں ‘‘
قارئین ذہنی طو ر پر دیوالیہ سیاستدانوں کو اپنے ننگے پن کا کوئی بھی احساس
نہیں ہے انقلاب فرانس کی طر ح کشمیری اور پاکستانی عوام کو بھی انقلاب کے
لیے فکری و شعوری کاوش کرنا ہو گی ورنہ بنجر ہوائیں اور بنجر سویرے ہمارے
منتظر ہیں اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائیں ۔ |