کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

باسمہ تعالیٰ

(حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی کاخط حضرت مولاناسیدارشدمدنی کے نام کے تناظرمیں)

فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں
کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

گذشتہ دنوں ملک کے ایک مؤقرروزنامہ میں ایک اشتہارنظرسے گذراجوکہ دراصل عالی مقام حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی کے ایک خط پرمشتمل تھاجوکہ انہوں نے دارالعلوم دیوبندکے استاذحدیث اورجمعیۃ علماء ہندکے ایک دھڑے کے صدر حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کے نام تھا۔حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی کایہ خط دراصل حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کے اس اشتہارکے جواب میں تھاجوانہوں نے سعودی حکومت کے بارے میں کچھ دنوں شائع کیاتھاجس میں انہوں نے جمعیۃ علماء ہنداوردارالعلوم دیوبندکی جانب سے سعودی حکومت پرمکمل اطمینان کااظہارکیاتھااوریہ ظاہرکیاتھاکہ دارالعلوم دیوبنداورجمعیۃ علماء ہندکاسعودی حکومت پرمکمل اعتمادہے اورکتاب وسنت پرمبنی اس حکومت کی پرزورتائیدکرتے ہیں،اسی اشتہارکے جواب میں حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی نے یہ اشتہارشائع کیاجس میں حضرت مولانانے تقریبا۱۶؍نکات اٹھائے ہیں جس کاانہوں نے حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی سے جواب مانگاہے۔آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں پریہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ ہردوبزرگ ہستی میرے لیے قابل صدتعظیم ہیں،ان میں سے ایک حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کی ہستی تومیرے لیے حددرجہ قابل تعظیم اس لیے ہیں کہ میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاہے اورایک لمباعرصہ ان کی سرپرستی میں گذاراہے،اسی طرح بزرگ محترم حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی گرچہ براہ راست میرے استاذنہیں ہیں لیکن ان کی کتابوں،تقریروں سے استفادہ کرنے کی وجہ سے میں انہیں بھی بالواسطہ اپنااستاذسمجھتاہوں اوراسے میں اپنے لیے باعث فخربھی سمجھتا ہوں،اس کے علاوہ یہ کہ بارہاحضرت سے ملاقات کاشرف حاصل ہوااورہرملاقات میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کاموقع ملاتواس طورپربھی وہ میرے لیے حددرجہ تعظیم کے لائق ہیں، لہٰذا میں اپنی اس تحریرمیں حضرت والاکے ذریعہ اٹھائے گئے ان نکات یاان سوالات پرکسی قسم کی رائے زنی نہیں کروں گاکیوں کہ اس کاذکرکسی طرح سے بھی مفید نہیں ہوگا، میں یہاں اپنی تحریرمیں صرف اورصرف ان نکات پرگفتگوکروں گاجس کی وجہ سے آج مسلمانوں کی حالت ملک میں بدسے بدترہوتی جارہی ہے اورہمارے قائدین بجائے اس کے کہ پہلے اپنے گھرکی خبرلیتے اس گھرکی خبرگیری کرنے میں مصروف ہوگئے جس کاکوئی حاصل نہیں ہے،اوراس چکرمیں امت مسلمہ ہندیہ جسے اپناقائدسمجھ رہی ہے وہی قائدین آپس میں دست وگریباں ہیں اوریہ دست وگریباں ہونااگرامت مسلمہ کے وسیع ترمفادکے لیے ہوتاتوہم یہ سمجھ کراپنے لب کوسی لیتے کہ ’’اختلاف العلماء رحمۃ‘‘ کے تحت اس سے انشاء اﷲ خیرکی امیدکی جاسکتی تھی،لیکن افسوس صدافسوس!یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔

ملک اس وقت بڑے نازک دورسے گذررہاہے،ایک طرف جہاں فسطائی طاقتیں ملک کے امن کوپارہ پارہ کرنے پرتلی ہوئی ہیں وہیں کچھ غیرمہذب اوراخلاق باختہ لوگ ملک کی تہذیب کاجناز ہ نکالنے پرآمادہ ہیں اورطرفہ تماشہ یہ کہ حکومت میں بیٹھے بڑے لوگ بھی ان کے حامی نظرآرہے ہیں،اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ ہمارے یہ قائدین اپنی تمام ترایمانی قوت کے ساتھ اپنی توانائی کوان مثبت اورمفیدکاموں میں لگاتے لیکن ہائے افسوس!کہ انہوں نے اپنے گھرکے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے دورکی کوڑی لانے کے مقولہ پرعمل کرتے ہوئے اپنی توانائی کوان منفی کاموں پرصرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کاکوئی حاصل نہیں ہے۔اس وقت جہاں ہندوستان آئی سی یومیں ہے اورحالت یہ ہے کہ مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی والی صورت ہوچکی ہے،کہ جن لوگوں پرتکیہ کرتے ہوئے ملک کے باشندوں نے اپنے وطن کوان کے حوالہ کیاتھاوہ وطن کی رکھوالی کرنے کی بجائے خودہی لٹیرے اورراہزن بن گئے اورملک کواس حالت میں پہونچادیاکہ شایدآزادی کے متوالوں اورجیالوں نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہیں سوچاہوگاکہ جس ملک کو انگریزوں سے آزادکرانے کے لیے اپنے خون کوپانی کی طرح بہارہے ہیں ایک دن اس ملک عزیزکی حالت ایسی ہوجائے گی کہ خودرہبرہی رہزن بن جائے گااورجسے جدھرموقع ملے گاادھرہی ہاتھ صاف کرناشروع کردے گا۔آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے مسلم مجاہدین آزادی اورعلمائے حق کی روح نے بھی کبھی خواب میں نہیں سوچاہوگاکہ جس ملک کوغیروں سے آزادکرانے کے لیے اپنے گھربارکوچھوڑا،اپنے اہل وعیال کواﷲ کے حوالہ کرکے میدان آزادی میں کودپڑے اوراس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ ملک کو انگریزوں سے نجات نہیں دلادی آج انہی کے ملک میں خودان کے لاڈلے اوران کے نام لیواان کی قربانیوں کامذاق اڑارہے ہیں،جنہیں ان کی قربانیوں کی حفاظت کرنی چاہیے وہ خودرہزنوں کے محل میں اپنی عیاشیوں کاسامان تلاش کرنے میں مصروف ہیں چاہے ان کی قوم کومظفرنگرمیں گاجرمولی کی طرح کاٹ دیاجائے،انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں،ان کی بہن بیٹیوں کی عزت وآبروسے کھیلاگیالیکن وہ بجائے اس کے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے بلکہ حکومت کے گن گانے میں مصرو ف ہوگئے،مسجدوں کی حرمت پامال کی گئی لیکن ان کی غیرت ہے کہ جاگتی ہی نہیں بس فکرہے توصرف اس کی کہ انہیں اے پلس اورزیڈپلس سیکورٹی ملتی رہے چاہے ان کی قوم جہنم میں جائے،ستم بالائے ستم کڑاکے کی ٹھنڈی میں پناہ گزینوں کوان کے کیمپوں سے نکال دیاگیا،ان کے کیمپوں پربلڈوزرچلادیاگیا،یوپی کی اس حکومت نے یہ انسانیت سوزکارنامہ انجام دیاجس کے لیے ہمارے قائدین اپنی جھولی پھیلاکرووٹ مانگتے ہیں،اتنی انسانیت سوزحرکت کے بعدبھی ہمارے قائدین کی آنکھیں نہیں کھلیں،اس وقت ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہمارے یہ قائدین جنہیں امت مسلمہ ہندیہ اپناقائد تسلیم کرتی ہے ،ہرمظلوم کی نگاہ اپنے ان قائدین کی مددکی منتظرہے،لیکن ہائے رے افسوس!کہ بجائے ان مظلوموں کی مددکے لیے اپنے قدم کوآگے بڑھاتے ایسے لاحاصل مسائل میں الجھ گئے جس کوحل کرنے کی ان میں سکت میں بھی نہیں ہے،میں مانتاہوں کہ آپ نے مظلوموں کی مددکے لیے کچھ نہ کچھ کیاہے لیکن آپ کی جو حیثیت ہے اس حیثیت کے مطابق کچھ بھی نہیں کیا ہے، مظفر نگر فساد کے مظلومین کوچندکمبلوں یاچندروپیوں کی ضرورت نہیں ہے انہیں ضرورت ہے مستقل طورپراپنے جان ومال اور عزت وآبروکے حفاظت کی ضمانت کی جوکہ موجودہ حکومت ہی وہ ضمانت دے سکتی ہے،کیاآپ نے حکومت سے احتجاج کیاان سے پرزورمطالبہ کیاکہ وہ مظلوموں کوکیمپوں سے نکالے جانے کے ہٹلری فرمان سے پہلے ان کی حفاظت کی ضمانت دے،اگرآپ نے یہ مطالبہ کیاتھاتوپھرآپ کے مطالبہ میں وہ دم خم کیوں نہیں کہ حکومت اپنے انسانیت سوزاقدام سے پہلے ہزاربارسوچتی اوروہ ایساقدم اٹھانے سے بازرہتی،اگرایسانہیں ہواتوآپ کااخلاقی فریضہ تھاکہ آپ عوام کے سامنے اپنی ناکامی کااعتراف کرتے اورقیادت کے عظیم منصب سے خودبہ خودسبکدوش ہوجاتے لیکن نہیں آپ ایساکیوں کرنے لگے!آپ کوتوصرف شہ سرخیوں میں رہناپسندہے چاہے مظلوم وبے بس عوام ٹھنڈک کی تاب نہ لاکراپنی جان دے دے،ان کے معصوم شیرخواربچے طبی سہولیات اورمقوی غذانہ ملنے کے سبب بلک بلک کرمرتے رہیں،آپ کواس سے کیاسروکار!آپ کے بچے توماشاء اﷲ ہیٹرکی گرمیوں کے ذریعہ ٹھنڈک کامزہ لے رہے ہیں،بہترین اورقیمتی گرم کپڑوں میں ملبوس زندگی کالطف اٹھارہے ہیں آپ کوان سب سے کیامطلب!آپ کوتوصرف خواہ مخواہ کی ان باتوں سے مطلب ہے جس سے آپ شہ سرخیوں میں بنے رہیں یاسعودی حکومت کے محبوب نظربنے رہیں یاان لوگوں کی آنکھوں کاتاربنیں جنہیں سعودی کی مخالفت کرنے والا کوئی مل جائے۔
آخرمیں میں اپنے دونوں بزرگوں سے انتہائی ادب کے ساتھ دست بستہ عرض کروں گاکہ خدارااب توجاگ جائیں اورقوم وملت کے لیے کچھ ایساکام کریں کہ اﷲ بھی راضی ہوجائے،اﷲ کاشکرہے کہ دارالعلوم دیوبندایک ایساسورج ہے جسے کسی چراغ کی ضرورت نہیں ہے،آپ سعودی سے دارالعلوم کی وابستگی کاڈھول پیٹے یانہ پیٹیں دارالعلوم دیوبندپرکچھ اثرہونے والانہیں ہے کیوں کہ وہ ایک الہامی ادارہ ہے اوراﷲ جب تک چاہے گااس کافیض عام ہوتارہے گااس کے لیے اسے کسی طرح کی ظاہری امدادکی کوئی ضرورت نہیں ہے،اسی طرح میں حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی سے مؤدبانہ عرض کروں گاکہ یقیناسعودی عرب کی خامیوں کواجاگرکرنے میں آپ مخلص ہیں،یہ آپ کادینی جذبہ اورغیرت ایمانی ہے کہ آپ سعودی کے غلط کاموں پرتڑپ اٹھے ہیں لیکن اس کی اصلاح کاجوطریقہ آپ نے اپنایاہے وہ قطعانامناسب اوراس کے لیے نہ ہی مکان صحیح ہے اورنہ ہی موقع،آپ تواس عظیم شخصیت کے پروردہ ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں اورتقریروں کے ذریعہ عالم عرب کارخ موڑدیاتوپھرآپ وہی طریقۂ کار کیوں نہیں اپناتے جوعظیم مفکر،پلندپایہ داعی اسلام اورمصلح عرب مفکراسلام حضرت مولاناابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنایاکہ انہوں نے کسی درمیانی شخص کومخاطب بنائے بغیر انہوں نے براہ راست عالم عرب اوران کے امراء کومخاطب کیاجس کامثبت نتیجہ برآمدہوا،آپ نے جس طرح حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کومخاطب کیاہے وہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ان کے بس کایہ روگ ہی نہیں ہے،اﷲ نے آپ کومختلف الجہات صلاحیتوں کاحامل بنایاہے،اورالحمدﷲ عربوں کوبراہ راست مخاطب کرنے کاآپ کے اندرعظیم ملکہ ہے،آپ اپنی ان صلاحیتوں کے ذریعہ براہ راست عرب امراء وحکمراں کومخاطب بنائیں توانشااﷲ اگرآپ اپنے اس عمل میں اوراپنی اس دعوت اصلاح میں مخلص ہوں گے تو یقینا اس کے مثبت نتائج برآمدہوں گے۔لیکن اس وقت خداراان کاموں سے پرہیزکریں اپنے ان کاموں سے حکومت کواپنی صف میں انتشارکااشارہ دے کرانہیں مزیدمضبوط ہونے کاموقع فراہم نہ کریں اوران مظلوم وبے بس فسادزدگان کی آہ وزاری سنتے ہوئے ان کی امدادکے لیے کمربستہ ہوجائیں،اورحکومت وقت کواپنے ظالمانہ فیصلہ کوواپس لینے پر مجبور کردیں یہی وقت کی ضرورت ہے اوروقت کااہم تقاضابھی ہے۔ اﷲ آپ قائدین کاسایہ تادیرامت مسلمہ ہندیہ پرقائم ودائم رکھے۔آمین
وطن کی فکرکرناداں مصیبت آنے والی ہے………………تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50673 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More