ماں کی آغوش

ماں کی محبت اور آغوش رحمت وراحت کا احساس اس وقت دل میں بیدار ہوتا ہے۔جب ماں دنیا سے رخصت ہوتی ہے تو اس کی یادیں دل میں تڑپ و لرزہ طاری کردیتی ہیں۔ انسان ماں سے ظاہری طور پر حصول معاش اور روشن مستقبل کی خاطر دیار غیر چلا جاتا ہے تو ماں اور بچے کے درمیان فاصلہ روز محشر کا منظر پیش کرتا ہے۔ اولاد کا لڑکپن، بچپن، ایک ایک لمحہ ماں کی آنکھوں میں اور اس کی انگلیوں کے پوروں پر ہوتا ہے۔ماں پیار، محبت، چاہت، ایثار وقربانی کا نام ماں ہے ۔ دنیا میں سب سے عظیم ترین اور حسین وجمیل رشتہ بھی ’’ماں‘ ‘کا ہے۔ ماں زمانے کی گرم ہواؤں کا سامنا کرتی ہے لیکن اپنے بچوں کو ٹھنڈی ہواؤں میں رکھتی ہے۔ ماں کے وجود سے کائنات میں انسانیت کے رنگ بھرے ہیں۔ ماں دنیا میں جنت کا روپ ہے۔ اس کے چلے جانے کے بعد دنیا کی تمام چاہتیں، محبتیں چلی جاتی ہیں۔ ماں کی محبت میں بچوں کے لئے ظاہری ودنیاوی لحاظ سے تفریق وتقسیم نہیں ہوتی اور تمام بچوں سے حقیقی اور یکسانیت کی بنیاد پر پیار کرتی ہے۔ ماں ایک انسٹی ٹیوٹ، درس گاہ، مکتب، یونیورسٹی ہے۔ ماں کی رہنمائی وتربیت کے لئے بھی ایک ادارہ ہونا چاہئے جو ماں کی تعمیری سوچ کو ناامیدی کی راہوں سے نکال کر امید اور کامیابیوں کی راہوں پر گامزن کرے۔ ماں کا تعلیم یافتہ وتربیت یافتہ ہونا ایک خاندان ونسل کے تعلیم یافتہ وتربیت یافتہ ہونے کے برابر ہے۔ انسان کا پیدائش سے لے کر لڑکپن، بچپن اور جوانی تک سب سے زیادہ قریب تر وقت جس شخصیت کے ساتھ گزرتا ہے، وہ ماں ہے۔ ماں کے پیار ومحبت سے محروم بچے پوری زندگی محرومیت کا شکار رہتے ہیں۔ ماں کے پیار کے سائبان کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ماں اکیلی ہے اور شوہر دار فانی سے کوچ کرجائے تو وہ ماں زمانے کی سختیاں برداشت کرکے لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرکے، فیکٹریوں میں ملازمت کرکے بچوں کے لئے دشوار ترین راستوں پر چل کر ان کی تربیت کرتی ہے کہ میرا بچہ بڑا ہو کر میرا سہارا وسائبان بنے گا لیکن ملک میں جاری دہشت گردی کی نذر جب یہ نوجوان ہوتے ہیں تو ان ماؤں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے۔ اس ماں نے کس حال میں اپنے بچے کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ ماں کی آنکھوں میں اس کی شرارتیں، مسکراہٹیں، اس کا بچپن، جوانی، حال اور ماضی ماں کی نظر میں اندھیرے میں روشنی کی طرح ہوتا ہے۔ ماں کی موجودگی میں انسان کو کسی ذمہ داری کا احسان نہیں ہوتا لیکن ماں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جاتا ہے۔ ماں جب دنیا سے چلی جاتی ہے تو تمام رشتے ناطے، محلے داری، احساسات ختم ہوجاتے ہیں اور یہ احساس ہوتا ہے کہ سارے رشتے ناطے ماں کی زندگی کی رونقوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ماں کی وہ یادیں اس وقت انسان کے دل کو تڑپادیتی ہیں جب اسے اسکول کا زمانہ، اسکول کی تیاری کرنا، اسکول تک پہنچنا، اسکول سے واپسی پر ماں کا آنے والے راستوں کو دیکھنا، وہ تڑپ وانتظار کہ میرا لعل کب گھر لوٹ کر آئے گا۔ دنیاوی ضرب المثل ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے۔ اس بات کی اصطلاحات کی ضرورت ہے کہ وہ ہاتھ بیوی کا یا کسی اور خاتون کا نہیں بلکہ وہ ماں کا ہاتھ ہے۔ اگر وہ ہاتھ کسی عورت یا بیوی کا ہے تو یہ مفروضہ غلط ہے۔ ایک شخص پوری زندگی اپنے بیوی بچوں کے اخراجات اور خواہشات پوری کرنے میں صرف کرتا ہے۔ جب وہ مر جاتا تو بیویاں خوف سے دور بیٹھتی ہیں۔ مال وزر کی تقسیم کی فکر میں مبتلا اور میت کے قبرستان میں جاتے ہی گھر میں موجود اس کے کپڑے، بستر اور سامان باہر پھنکوادیتی ہے جبکہ ماں تو بچے کو چومتی ہے، روتی ہے اور اس کی ان اشیاء کو اپنے لال کی نشانی سمجھ کر اپنے سینے سے لگاتی ہے۔ ماں اور بیوی کے رشتے میں یہ ایک واضح فرق ہے۔ماں کے لئے بچہ زندہ ہو یا مردہ پیار اور محبت کا پیمانہ ایک سا ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ وہ کامیابی کا ہاتھ ماں کا ہے۔ ناکام مرد کو تو موجودہ دور میں بیویاں دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتیں۔ ماں باپ کے گھر جا بیٹھتی ہیں اور علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وجہ صرف نان ونفقہ نہ ملنا ہے۔ اگر شوہر کی مجبوری یا نوکری نہ ہو تو بیوی کھانا دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔ لیکن ماں وہ ہے کہ بچہ کسی بھی حال میں ہو وہ اپنے منہ کا نوالہ بھی بچے کو دے دیتی ہے۔

اگر ایک شخص دنیا میں شادی ہی نہیں کرتا، وہ کنوارا ہی دنیا سے چلا گیا تو دنیا میں اگر وہ کامیاب شخص ہے تو اس سے ماں کا ہی رشتہ منسوب ہوتا ہے کیونکہ وہ کامیابی کا ہاتھ ماں کا ہی ہاتھ ہے۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور دنیا کی نامور شخصیات، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان، مفکر، صحافی اور اسکالرز ماں کی بدولت ہی ملے ہیں۔ ماں اپنے بچے کی موت کے بدلے اپنی زندگی دے کر بھی بچے کی موت روک سکے تو ماں دریغ نہیں کرے گی۔ ماں اپنی اور بچے کی محبت میں بیوی کی محبت ورشتے کو شریک سمجھتے ہوئے برداشت کرتی ہے لیکن بیوی اپنی اور شوہر کی محبت ورشتے کے درمیان ماں کو برداشت نہیں کرتی۔ ماں بیٹی کا رشتہ بھی ایک عظیم رشتہ ہوتا ہے۔ بیٹی کے لئے ماں کا گھر سرمایہ کل ہوتا ہے۔ شادی کے بعد ماں کا گھر جنت نظیر وادی کی طرح نظر آتا ہے۔ ماں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بیٹی کی تو کائنات کل ہی رخصت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ جنت نظیر گھر جو اس کی ماں کی رونق سے آباد تھا۔ اب اس گھر، آرزو محبت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس کے لئے وہ گھر بھائیوں اور بھابھیوں کی جاگیر بن جاتا ہے۔اس گھر کی تنہائیاں ماں کی محبت، یاد، تڑپ اور لگن سے آنسوؤں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری کردیتی ہیں۔ انسان دنیا کے لذیذ ترین کھانے کھاتا ہے لیکن ماں کے ہاتھ کے کھانے کی لذت من وسلویٰ سے کم نہیں ہوتی۔ دنیا میں ماں کا کوئی بدل نہیں۔ اس کا بیٹا چور، ڈاکو، زمانے کا برا انسان ہو لیکن ماں کی ممتا کی تڑپ ایک سی ہوتی ہے۔ ماں کی محبت میں طبقاتی، معاشی، لسانی تقسیم نہیں۔ ایک وہ مظلوم ماں ہے کہ جس کا بچہ بیمار ہو، لاچار ہو وہ اسے دنیا کے ہر مقام پر لے جا کر اس کی تندرستی اور صحت کے لئے کوشش کرتی ہے یا جس کا بچہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہا ہوتا ہے ماں اس کی آزادی کے لئے کوشش کرتی ہے۔ماں وہ ہے جب بچہ بیمار ہوجائے تو ماں راتوں کو جاگ کر سنبھالتی ہے۔ خود خالی پیٹ سو کر بھی بچوں کو خالی پیٹ سونے نہیں دیتی لیکن ان پتھر دل لوگوں کو بھی سلام ہے جو دیار غیر میں روشن مستقبل اور حصول معاش کی خاطر ماں کو ہزاروں میل مسافت کے ہجر وفراق کی راہوں پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ وہ مائیں ان کے فراق میں اپنے اندر ہی اندر تڑپتی آگ میں جلتی رہتی ہیں۔ انسان سب سے زیادہ وقت ماں کی آغوش میں میں گزارتا ہے اور ماں کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین اپنے بچے ہوتے ہیں۔ وہ مال وزر، دنیا کی عیش وعشرت کو اپنے بچوں کے لئے قربان کردیتی ہے۔ وہ مائیں جو بچوں کو رد کرتی ہیں اور دولت وعیش وعشرت کو قبول کرتی ہیں۔ ان ماؤں کے بچوں میں پیدائشی طور پر نفرت کا عنصر بیدار ہوجاتا ہے اور یہ ایسی کاری ضرب ان کے دل پر لگتی ہے جو وہ مرتے دم تک نہیں بھولتے لیکن ماں کی محبت ایسی محبت ہے کہ ترازو میں ایک طرف مال ودولت رکھ دو اور دوسری طرف بچے کو تو ماں مال دولت چھوڑ کر اپنے بچے کو قبول کرے گی۔ موجودہ دور میں اولادیں اپنے والدین کو رد کردیتے ہیں اور بیویوں، مال اور عیش وعشرت کو قبول کرلیتے ہیں۔ ماں بچوں کے گھر سے جانے سے لے کر واپسی تک ان کی خیر وعافیت کی دعائیں کرتی ہیں اور ماں بچوں کی فکر میں دن رات گزار دیتی ہیں۔ ماں کو اپنے بچے کی بچپن میں تندرستی کی فکر ، جوانی میں اچھے مستقبل اور شادی کی فکر، بڑھاپے میں ان کے بچوں اور اہل وعیال کی فکر لگی رہتی ہے۔ ، جن ماؤں کے بچے دیار غیر میں حصول معاش کے لئے جاتے ہیں ان کی یاد میں یہ مائیں وقت گزار دیتی ہیں۔ زمانے کی ترجیحات کی خاطر مائیں بچوں کی دوری کا درد بھی خاموشی سے سہتی ہیں۔ بچہ کسی تکلیف یا مشکل ہو تو اس کی تکلیف براہ راست ماں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ماں ایسا تعلق وناطے کا نام ہے کہ اس کا بچہ معذور ہو، بدصورت ہو، کالا ہو لیکن اس کے لئے وہ چاند، ہیرا اور پھول ہوتا ہے۔ بچوں کی محرومیوں کو بھی ماں اپنے دامن محبت میں چھپا لیتی ہے۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ماں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنی ماؤں کو یاد رکھتے ہیں اور ان کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ ماں کی قبروں پر کھڑے ہو کر انسان کو وہ لمحات یاد آتے ہیں۔ جب وہ ماں کی آغوش میں رہا کرتا تھا اور اس کی پیار بھری آنکھیں، اس کی باتیں، نرمیاں، سختیاں، جھڑکیں، ماریں اور وہ یادوں کی کتاب جو اپنے اوراق بدلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ دل کی آنکھ آنسوؤں سے لبریز ہو کر کتاب ماں اور یاد ماں کو جب پڑھتی ہیں تو دل سے محبت وغم کے ملاپ سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ جو ماں کی خدمت میں گلہائے عقیدت کے طور پر انسان پیش کرتا ہے اور ماں کی یادوں میں بقیہ زندگی بسر کرتا ہے۔ لیکن انسان اتنا بے حس اور دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوچکا ہے کہ وہ ماں کے پیار ومحبت اور چاہت کو بھلا دیتا ہے لیکن ماں کے اس پیار ومحبت، شفقت اور یاد کی تڑپ ان لوگوں سے پوچھو جو ماں کی محبت سے محروم رہے۔ خدارا جن کی مائیں زندہ ہیں وہ اپنی ماؤں کی خدمت کریں۔ یہ وقت لوٹ کر آنے والا نہیں۔ جن کی مائیں ناراض ہیں ان کو منالو کیونکہ مائیں بچوں سے کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔اﷲ نے دنیا میں سب سے حسین وجمیل انعام ماں کی صورت میں دیا ہے۔ ماں کے بغیر زندگی ویران ہے۔ کل قیامت کے دن بھی انسان کو ماں کے نام وپہچان سے ہی پکارا جائے گا۔
جاری ہے
Nadeem Shahzad
About the Author: Nadeem Shahzad Read More Articles by Nadeem Shahzad: 3 Articles with 2553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.