محسن انسانیت ،خاتم ا
لنبیین ،رحمۃ ا للعالمین ﷺ حضرت محمد عربی ﷺ کو ان کے خالق و مالک اﷲ رب ا
لعزت نے اس خاکدان گیتی پر سب سے آخری نبی ورسول مبعوث فرماکر ( مشکواۃ ا
لمصابیح باب فضائل سید ا لمرسلین ،ص 513 مطبوعہ مجلس برکات ) اپنی عظمت و
کبریائی کے جلوے ہم انسانوں پر آشکارا فرمایا اور صرف ہم اہل ایمان پر ہی
احسان جتایا ( آل عمران آیت :164)اور کیوں نہ احسان جتائے کہ آپ ﷺ ہی وجہ
تخلیق کائنات ہیں( اخرجہ ا لحاکم فی ا لمستدرک : / 2 615) آپ ہی کے صدقے
میں تمام انبیاء کو نبوت و رسالت ملی اور ان سے آپ ﷺ کی نصرت و اعانت کا
وعدہ عالم ارواح میں لیا گیا( آل عمران آیت :81) آپ] ﷺ دعاء ابراہیم خلیل ا
ﷲ ( البقرۃ آیت : 129 ) بشارت عیسیٰ مسیح ا ﷲ (الصف آیت 6 ) رحمۃ ا
للعالمین بن کر ( ( الانبیا ء آیت : 107)کائنات عالم کی بو قلمونیوں میں
بقول جمہور علماء اسلام اصحاب فیل کے واقعہ کے 55دن بعد 15اپریل571ء 12/
بارہ ربیع الاول (ا لنور) بروز دوشنبہ (پیر)بوقت صبح صادق ( ماہنامہ اشرفیہ
شمارہ فروری2011 ) تشریف لائے ۔
تو اس وقت عرب قوم جہاں زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت میں ید طولیٰ رکھتی
تھی ، شعر و سخن، نغمہ سنجی اور سخن فہمی کے نادرو نایاب نمونوں میں کمال
رکھتی تھی ۔ ، جودو سخا اور وعدہ وفا کی بہترین مثال ان میں ودیعت تھی وہیں
وہ قوم شدید قحط سالی اور خشک سالی کی پریشانیوں میں مبتلاتھی ، وہ بت
پرستی کی آغوش میں بھی سمائی ہوئی تھی ،کفر و شرک کی برائیاں بھی ان میں
موجود تھیں ، بات بات میں ایک دوسرے سے دشمنی مول لینا ان کی خو (عادت )ہوچکی
تھی ، وہ معمولی سے معمولی جنگ و جدال کی شروعات پر کشت و خون کے نہ ختم
ہونے والے سلسلے برپا کردیتی تھی ، جاہلی تعصب کی بیماریاں ان کے رگ و پے
میں سرایت تھی ،شراب نوشی کی لت ان کی گھٹیوں میں پڑچکی تھی، جوا بازی میں
وہ ایک دوسرے کو شہ مات دینے میں کسی سے پیچھے نہ تھی ،خانہ کعبہ کا تقدس
360؍اصنام پرستی(بتوں کی پوجا )سے پامال ہورہاتھا ، زنا کاری اور بدکاریاں
کو گویا عیب نہ سمجھتی تھی ، شوہر کے مرنے پر عورت کی عزت سے کھلواڑ عام
بات تھی ، اور مزید برآن بچیوں کی پیدائش پر اکثریت اسے زندہ دفن کردیتی
تھی ، اوہام پرستی سے گہری وابستگی تھی وغیرہ ۔(قیصر و کسریٰ )ایران اور
روم کی حالت بھی اچھی نہ تھی ایران مجوسی آتش پرست (آگ پوجنے والی )قوم تھی
تو روم عیسائیوں کی عظیم سلطنت تھی ا س طرح پوری دنیا کی حالت دگر گوں
ہوگئی تھی ایسی نا گفتہ بہ صورت حال میں آپ ﷺ’’ ارض عالم‘‘ میں جلوہ فگن
ہوئے۔
آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی ا ﷲ عنہا کے’’
رحم پاک‘‘ سے ایسا نو ر نکلا کہ اس کی کرنوں سے حضرت آمنہ نے ’ ’ملک شام ‘‘
کے محلات کا مشاہد کیا۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہنومولود(پیدا ہونے
والی ) کے اثرات اور ان کی حکومت ملک شام میں بھی ہوگی۔فرش گیتی پر آتے ہی
اپنے معبود حقیقی رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے ، زبان سے ’’ اشہد
ان لا لٰہ الا اﷲ‘‘ پڑھ کر خدائے تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کیا، جسم اطہر
سے پھوٹ نے والے ا نور سے پورا گھر منور ہوگیا، غسل دئے ہوئے پیداہوئے ،
ختنہ شدہ اور ناف بریدہ (کٹی ہوئی )پیداہوئے اور ایک روایت میں ہے کہ اہل
قریش ان یام میں نہایت تنگی اور قحط زدہ تھے ،در خت سوکھ گئے تھے ، جانور
دبلے اور کمزور ہوگئے تھے ۔آپ ﷺ کی ولادت کا اثر ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ
کی برکتوں سے موسلا دھار بارش برسائی ، جس سے ندیاں ، نالے اور وادیاں بھر
گئیں ، نالے بہ نکلے، درخت سر سبز و شاداب ہو گئے ، جانور تنو مند ہوگئے
اسی لئے اہل عرب نے آپ ﷺ کے ورود مسعود کی تقریب کا سال ’’سنۃ ا لفرح و ا
لابتہاج‘‘(خوشی اور مسر ت کا سال ) رکھا۔(اشرف ا لسیر ص 131| 132 ۔از شارح
بخاری علامہ مفتی شریف ا لحق امجدی سابق صدر دا لافتا جامعہ اشرفیہ
مبارکپور اعظم گڑھ ) ۔ خاندان بنی ساسان کے شہنشاہ نوشیرواں کے کثیر مال و
دولت صرف کرنے کے ذریعے نوے (90) سال میں تعمیر شدہ کسریٰ شاہ ایران کے
مضبوط و مستحکم محل میں زبر دست ز لز لہ آیاجس کے جھٹکوں سے اس محل کے
بائیس میں سے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گرپڑے اور آٹھ باقی رہیں جس سے اس بات کی
جانب اشارہ تھا کہ اب اس خاندان کی حکمرانی جلد ہی ختم ہوجائے گی اور اس کے
آٹھ فرمارواں ہی باقی رہیں گے اور مسلمان ایران کے حکمراں ہونگے چنانچہ
ساسانی حکمرانوں میں اخیر بادشاہ’’ یزد گردبن شہر یار‘‘ سنہ31؍ ہجری میں
حضرت عثمان غنی رضی ا ﷲ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مقام ’’مرو ‘‘کی ایک جنگ
کے درمیان مارا گیا اور تمام ملک فارس (ایران) مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔۔
’’آتش کدۂ فارس ‘‘ میں جلنے والی مسلسل ہزار سالہ آگ (جسے گستا شپ نے زردشت
کی تحریک پر مجوسیت اختیار کرنے بعد ہزار سال پہلے قائم کیا تھا)
دفعتاً’’سرد‘‘ پڑگئی ۔اور دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ کوفہ کے قریب دریائے فرات(
پر نوشیرواں نے پل بنا کر بڑی عالی شان و شوکت عمارتیں اور کلیسے گرجا گھر
تعمیر کئے تھے اس) کا پانی کوفہ اور دمشق کے درمیان لق و دق صحرا ’’ بادیہ
سماوہ ‘‘ میں جا گرا ۔ اور تیسرا اثر یہ ہو ا کہ بلاد فارس میں ہمدان اور
رے کے درمیان’’ ساوہ ‘‘ نامی شہر میں ’’بحیرہ ساوہ ‘‘ نام سے مشہور چھ میل
لمبی ، چھ میل چوڑی ، اتنی گہری جھیل کہ کشتیاں چلاتے ہوئے لوگ ساحلی شہروں
کا سفر کرتے اس کے جھیل کی وجہ سے ارد گرد بہت سے گرجا گھروں اور آتش
پرستوں کے عبادت خانے تھے ۔مجوسیوں کے مقدس مقام کو حسن و جمال کی دلکشی
فراہم ہوتی تھی کہ اس جھیل کا پورا پانی دفعتا( اچانک) خشک ہوگیا اور زمین
کی گہرائیوں میں ایسا جذب ہو اکہ ایک قطرہ پانی کا نام و نشان تک باقی نہ
رہا ۔گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ اب یہ علاقے بت پرستی اور آتش پرستی سے
بطفیل مدنی سرکار ﷺ پاک ہونے والے ہیں۔(کشف بردہ ، فصل رابع از مولانا نفیس
احمد مصباحی جامعہ اشرفیہ مبارکپور بحوالہ شرح ا لباجوری وغیرہ)
آپ ﷺ کے عفو در گزر ، حلم و برد باری ، لاجواب صبر و استقامت، عدل و انصاف
، اخوت و مساوات اور اخلاق و کردار ، علم و آگہی کے اثرات سے متاثر ہوکر
لاتعداد راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو دین و دنیا کی سوغات مل گئی ۔ آپ ﷺ
کے صفات جمیلہ و خصائل حمیدہ ،فضائل و مناقب دیکھ کر کتنے ہی بھٹکے ہوئے
آہو سوئے حرم روانہ ہوگئے۔(اور صبح قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ) آپ ﷺ
نے نہایت ہی ناصحانہ اور داعیانہ اسلوب میں اپنی قوم سے فرمایا کہ کلمہ
توحید و رسالت کا اقرار ہی مرنے کے بعدانسان کودنیا اور آخرت میں کامیابی
سے ہمکنار فرماتا ہے ۔ اﷲ کی بارگاہ میں صرف سجدہ ریز ہونا چاہئے۔ اصنام
پرستی (بتوں کی پوجا )ہمیں جہنم کی تباہی سے بچانہیں سکتی۔ خود بت بے جان
ہیں نجس ہیں ناپاک ہیں۔ نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے
ہیں نہ نقصان بلکہ اگر ان کے جسم پر مکھیاں بیٹھ جائیں تو یہ انہیں بھگا
نہیں سکتے پس ایسی چیز مستحق عبادت ہر گز نہیں ہو سکتی کیوں کہ عبادت کا
مستحق اور لائق صرف وہی ذات والا ستودہ صفات ایک اﷲ رب ا لعزت ہے جس نے
ہمیں اور تمہیں ساری کائنات کو پیدا کیا جو ہماری اور ساری کائنات کا خالق
و مالک ہے جس کی شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا فرمانے کا ارادہ کرتا ہے
تو کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے (ملخص آیات قرانیہ)۔ آپ ﷺ کی اس تعلیم کا
عرب قوموں پر رفتہ رفتہ اتنا اثر ہو اکہ کائنات عالم انوار و تجلیات سے بھر
گئی، اور فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کو 360 ؍معبودان باطلہ سے نجات ملی اور
ایک اﷲ و حدہ لاشریک لہ کی عبادت وپرستش عرب کی سرزمین سمیت پوری دنیا میں
عام ہو ئی ۔ گویابقول امام احمد رضا۔ ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور
کا تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجہ نورکا ۔
آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی ا ﷲ عنہا کا آپ کے چھ سالہ ننھی عمر میں
انتقال ہوگیا تھاجب کہ والد ماجد حضرت عبد ا ﷲ رضی ا ﷲ عنہ کا نتقال اسی
وقت ہوچکا تھا جب آپ ﷺ شکم مادر میں تھے اور عربوں کی روایت کے مطابق آپ کو
دودھ دائی حلیمہ سعدیہ نے پلایا تھا اس لئے آپ اپنی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ
رضی ا ﷲ عنہا کی بڑی عزت کرتے تھے جب کبھی وہ تشریف لاتیں تو آپ ان کی
تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ان کی دینی اور دنیوی ضرورتیں پوری فرماتے اور ان
سے غایت درجہ محبت فرماتے اس طرح صحابہ کرام جب اس قدر وارفتگی محبت کا
ثبوت آپ کی رضاعی ماں کے ساتھ ملاحظہ کرتے توآپﷺ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک
کرنے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے
اگر تم جنت چاہتے ہو تو ماں کی خدمت کرو اورباپ جنت کا دروازہ ہے اگر اس
دروازے سے باآسانی جنت میں رسائی چاہتے ہو تو اپنے والد کی خدمت کر کے جنت
کے مستحق بن جاؤ ۔ اس طرح ان کے حقوق بتاتے ہوئے عورتوں بچوں اور بچیوں کے
حقوق بھی بتاتے۔ آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حقوق کی حفاظت
فرمائی اور قرآن کا فرمان سناتے کہ عورتیں قابل عزت ہیں اور وہ تمہارے لئے
پردہ پوش ہیں اور تم ان کے لئے پردہ پوش ہو اس لئے اگر تم ایک دوسرے کی
پردہ پوشی نہیں کروگے تو تم ایک دوسرے کے حقوق کو تلف کرنے والے کہلاؤ گے
اور عند اﷲ گرفت ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ بچیاں زندہ دفن کرنے کے لئے نہیں
بلکہ ہمارے دکھ درد کا سامان ہیں ۔آپ ﷺ نے اپنی چارو ں بیٹیوں کی شادی کی
اوربچیوں کی تعلیم و تربیت کرنے اور اسے اچھی جگہ بیاہ دینے پر جنت کی
بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ جواپنی بچیوں کو اچھی طرح کھلائے پلائے ، اسے
تعلیم و تربیت دے اور جوان ہونے پر مناسب جگہ اس کی شادی کرادے تو درمیانی
اور شہادت کی انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا کہ جنت میں ہم اور وہ ایسے ہی
ہونگے۔ آپ ﷺ کی اس تعلیم کا ایسا اثر ہو ا کہ صحابہ کرام اپنے والدین ،
اپنی بیویوں، اپنے بچے اور بچیوں کے حقوق کا بھر پور خیال فرماتے جوآج بھی
کائنات عالم میں بسنے والی قوم کے کے لئے مشعل راہ اور حقوق انسانی کے
علمبرداروں کو اپنانے کی دعوت سعیددیتی ہے۔
محسن انسانیت ﷺ نے انسانی معاشرے میں اخوت و مساوات ، عدل و انصاف ، الفت و
مودت ، اعلیٰ انسانی اقدار و شرافت ، علم دوستی ، اور مکارم اخلاق کی گراں
قدر عادات و خصائل کے قیام پر زور دیا۔ دنیائے انسانیت کو اخوت و بھائی
چارگی، اور باہمی اتحاد اتفاق کی تعلیم دی ۔حضرت انسان کو اس کی عظمت ور
فعت سے واقف کرایا ۔ ایک انسان کے خون ناحق کو دوسرے انسان کے لئے حرام
فرمایا۔انسانی معاشرے میں اس کی عظمت و شرافت کو بحال کیا۔اس کے ساتھ کسی
بھی قسم کی گروہی عصبیت، قبائلی اورنسلی تفریق ،رنگ و نسل اور زبان و بیان
میں ایک دوسرے پر فخر و مباحات سے روکا۔دولت و غربت کی بنیاد پر فرقہ
بندیوں کی مصنوعی (بناؤٹی ) دیواریں زمیں بوس کردیا۔عورت کی عظمت رفتہ کو
انسانوں میں قائم کیا ۔اس کو انسانی سماج میں نہایت ہی بلند و بالا مقام
عطا کیا ۔ ایک طرف آپ نے جہاں خدائے وحدہ لاشریک لہ کی سب سے اہم عبادت
نماز کے خصوصی التزام کی وصیت فرمائی وہیں دوسری جانب حضرت انسان کی ماتحتی
اور سر براہی میں زندگی کے شب و روز گزارنے والوں کے ساتھ نرم اخلاق ، نرم
خو اور نرم گفتاری سے آراستہ ہوکر ان کے ساتھ حسن معاملہ کی تاکید فرمائی۔
حضرت محمد عربی سرکار ﷺ نے حجۃ ا لوداع (آخری حج) کے موقع پرقریب ایک لاکھ
بیس ہزار صحابہ کرام کے اجتماعی جلسے سے اپنے تاریخی خطاب میں اہم ہدایات
اور پیغامات اقوام عالم کو عطا فرمایا اس موقع پر آپ ﷺ نے پہلا حقوق انسانی
کا منشور اور ضابطہ جاری فرمایاجس میں حقوق انسانی کا بھر پور پاس و لحاظ
رکھتے ہوئے باہمی تعلقات کو خوشگوار اور پرسکون بنائے رکھنے کی وصیت فرمائی
۔باہمی ہمدردی و بہی خواہی ، وحدت و مساوات قائم کرنے کی تلقین کی ۔
علاقائیت وعصبیت، فرقہ بندی اور گروہ بندی کی بیخ کنی کرتے ہوئے فرمایاکہ
دیکھو تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم علیہ ا لسلام مٹی سے پیدا کئے گئے۔
اور انسان آپس میں برابر ہیں ، ان میں کوئی اونچ نیچ اور بھید بھاؤ نہیں۔
ان میں ذات و برادری اور حسب نسب کی کوئی تفریق نہیں ، ان میں بزرگی اور
بڑائی کا معیار صرف اور صرف خدا ترسی، پرہیز گاری ،تقویٰ ہے اور یہ تمام
چیزیں قرب خداوندی سے حاصل ہوتی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کسی کا کسی کی جان و
مال اور عزت و آبرو پر حملہ کرنا ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا جنازہ نکالنا
ایسے ہی حرام اور ناجائز ہے جس طرح ذی ا لحجہ کا یہ مقدس مہینہ اور عرفہ
کابابرکت دن ، اس بلدحرام اور اس کی عظمت و تقدس کو پامال کرنا حرام ہے ۔
اﷲ رب ا لعزت نے بیع (خریدو فروخت نفع بعوض ) جائز فرمایا اور ربا (سود
۔نفع بلا عوض ) حرام فرمایا ۔ارشاد فرمایاکہ زمانہ جاہلیت کی ساری بری
چیزیں میرے قدموں کے نیچے ہے ۔میں نے فلاں فلاں لوگوں کا حق اور خون معاف
فرمایا ۔ اور اﷲ نے شیطان کو اس بات سے مایوس فرمایا کہ ارض حرم میں دوبارہ
بت پرستی کا قیام ہو(اسی وجہ سے عرب کی سرزمین پر کبھی بھی بت پرستی کا
قیام نہیں ہو سکتا)۔یہ آپ ﷺ کے لب ہائے نازنیں سے نکلے ہوئے کلمات قدسی تھے
کہ صحابہ کرام سمیت عربوں کے ذہن و فکر میں وہ اثرات قائم ہوئے کہ عربوں کی
حالت و کیفیت تبدیل ہوگئی اور در حقیت اقوام عالم کا حقوق انسانی کے تحفظ
اور بقا کی خاطر مرتب و مدون کردہ منشور زبان رسالت ﷺ کی صدائے دلنوازی کے
اثرات ہیں جو آج بھی عظمت مصطفیٰ ﷺ کی منھ بولتی آفاقی تصویر بھی ہے۔
اﷲ کے رسول نے ایک موقع پر باہمی خون ریزی اور جنگ و جدال کا قلع قمع کرتے
ہوئے فرمایا ’’ اے :اﷲ کے بندوں تم آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک
دوسرے سے جھگڑا نہ کرو، اور فرقوں میں نہ بٹو اے : اﷲ کے بندو آپس میں ایک
دوسرے کے بھائی بن جاؤ۔آپ ﷺنے دنیائے انسانیت کو حقو ق انسانی سے روشناس
کرایا اور حضرت انسان کو اس کے عظمت و تقدس اور شرف و منزلت سے آگاہ کرکے
حقیقت میں منارۂ نور اور منبع رشدو ہدایت کے بلند و بالا مقام و منصب پر
فائز فرمایا۔آپ ﷺ کا اقوام ملل میں حقوق انسانی کی محافظت کا عالمی منشور
ہم انسانوں پر عظیم احسان ہے۔ فیضان رسالت ﷺ کا کمال تھا کہ آپ ﷺ کے متبعین
اور پیرو کار جہاں گئے حقو ق انسانی کی محافظت کی اور اسلامی شریعت کے اصول
و ضوابط کے دائرئے عمل میں زندگی گزارنے کو ہی کامیابی اور کامرانی جانا آپ
ﷺ کے اقوال و ارشاد اور آپ کی آفاقی تعلیمات کا اثر تھا کہ اسلامی آغوش سے
بغل گیر ہونے والوں میں باہمی اتحاد و اتفاق ، اخوت و مساوات ، اور بھائی
چارگی کی روح پیدا ہوگئی اور اس کا بارہاں تاریخ عالم نے مشاہدہ کیا کہ جب
غلاموں کو امیر اور حاکم بنایا گیا تو آزاد ماتحتوں نے ان کی اطاعت و
فرمانبرداری کو اپنے لئے شرم وعار نہیں جانا۔
بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے اثرات تھے کہ عرب کے شرفا اور معزز حضرات سمیت بد و
(دیہاتی ) آپ کی بارگاہ اقدس سے وابستہ ہوئے آ پ کے عشق میں اپنی جان
نچھاور کر بیٹھے تو منصب صحابیت کے مدارج پر فائز ہوئے، انبیا و رسل کے بعد
سب سے بلند و بالا مقام سے سرفراز ہوئے ،دنیا میں بسنے والے کروروں لوگوں
کے لئے ہدایت و کامیابی کا روشن ستارہ ثابت ہوئے ۔ علوم و فنون کی ایسی
قندیلیں اور شمع روشن کیں کہ ان کی ضیا بار کرنوں سے پورا عرب مالا مال
ہوگیا اور ان کی شعاؤں کی چمک دمک سے اہل مغرب نے استفادہ کیا ان کے سامنے
زانوئے تلمذ تہ کیا اور اس طرح آج مغرب کا علوم و فنون ان عربوں کی رہین
منت اور دین ہے کہ اگر پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے پیرو کار صحابہ کرام کو علم
وفن سے آگہی نہ دی ہوتی اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ان کے ماننے والے اس
علمی کرن کو لے کر نہ گئے ہوتے تو شاید آج کا مغربی ماحول ماضی کی کرب ناک
اور تکلیف دہ یادوں سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا اس طرح آ پ ﷺ کے مطیع و
فرمانبرداروں نے دین و دنیا کے رہبری و رہنما ئی کی اور سسکتی ہوئی انسانیت
کی فریاد رسی کی۔ گویا۔ ایک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا خاک کے ذروں کو
دوش ثریا کردیا خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس
نے مردوں کو مسیحا کردیا
آپ ﷺ کی ان آفاقی تعلیمات اخلاقی، دعوتی تبلیغی ، اورعدل و انصاف پر مبنی
طرز عمل نے انسانیت اور کائنات عالم میں وہ اثرات مرتب کئے کہ اپنے تو اپنے
اغیار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے چنانچہ ایک انگریز عیسائی مفکر داکٹر
مائکل ہارٹ اپنی مشہور زمانہ کتاب دنیا کی سو مشہور شخصیات میں آپ ﷺ کا ذکر
پہلے نمبر پر کرتے ہوئے کہتا ہے محمد (عربی ﷺ )واحد تاریخی ہستی ہے جو
مذہبی اور دنیا وی دونوں محاذ پر کامیاب رہی آپ ﷺ نے عاجزانہ طور پر اپنی
مساعی کا آغاز کیا ۔۔وہ ایک انتہائی موثر رہنما ثابت ہوئے آج تیرہ سو برس
(قریب چودہ سو سال)گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور
گہرے ہیں ۔وہ کہتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی بہت سی شخصیات کی خوش
قسمتی رہی کہ وہ دنیا کی تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی ا قوام میں
پیدا ہوئے اس کے بر عکس آپ ﷺ کی پیدائش جنوبی عرب کے علاقے شہر ’’مکہ ‘‘میں
570ء ہوئی ۔۔جہاں اصنام پرستی اور دیگر مشرکانہ رسم و رواج کا ماحول اور
برائی کا دور دور ہ تھا ۔۔۔ اس وقت مکہ تجارتی نکتہ نظر اور علوم و فنون
اور علم و ادب کے مراکز سے بہت دور دقیانوسی تھا ۔۔چھ برس کی عمر میں آپ ﷺ
کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو چکا تھا ۔۔ آپ کی پرورش عام طریقے پر ہوئی
۔دنیا میں کسی سی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا (اسی لئے لوگ آپ کو امی بھی کہا
گیا )پچیس برس کی عمر میں آپ ﷺ کی شادی (حضرت خدیجۃ ا لکبریٰ رضی ا ﷲ عنہا
سے )ہوئی ۔ اس عمر تک پہونچتے پہونچتے لوگوں میں آ ﷺکا ایک غیر معمولی
انسان ہونے کا تاثر قائم ہوچکا تھا۔۔۔(اور لوگ آپ کو صادق و امین کے لقب سے
یاد کرتے تھے )۔۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آپ ﷺ میں بے شمار ایسی خوبیاں اور کمالات ہیں جن میں آپ
ﷺ منفرد و یکتا نظر آتے ہیں، انہیں فضائل و مناقب میں آپ کے عفو در گزر ،
حلم و برد باری اور لاجواب صبر و استقامت ، ، عدل و انصاف ، اخوت و مساوات
اور اخلاق و کردار ، علم و آگہی ،سیاسی ، سماجی، مذہبی قومی اور عالمی سطح
پر عظیم انقلاب اور کامیاب زندگی کے ساتھ اقوام و ملل پر مرتب ہونے والے
عالمی اثرات ہیں اجو ایک طرف امت مسلمہ سمیت اقوام عالم کو آپ ﷺ کے’’ نقوش
سرمدی‘‘ اپنانے کی دعوت سعید دیتی ہے تو وہیں دوسری جانب آپ ﷺ کے فضائل و
کمالات کی منھ بولتی تصویر بھی ہے جو آپ کی قدرو منزلت کو اقوام عالم کے
دلوں کو اپنی پرکشش شخصیت کا احساس دلاتی ہے ۔ آپ ﷺ کی ذات والا ستودہ صفات
میں رب کی عطا اور اس کی بخشش سے جہاں ایک طرف اعلیٰ انسانی اقدار و شرافت
اور اخلاق و کردار کا درس حیات ملتا ہے تو دوسری طرف امن و آشتی اور عدل و
انصاف کا وہ گراں قدر پیام نوع انسانی کو ملتا ہے کہ اگر حضرت انسان وہ
لافانی اور ابدی پیغام کو اختیار کرلے تو دنیا کے مسائل حل ہوجائیں ، دنیا
سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے دنیا میں بسنے والی دیگر مخلوقوں کی جانیں
تباہ و برباد ہونے سے محفوظ رہے۔ بطفیل مدنی سرکار ﷺ اﷲ تعالی ہمیں اور
تمام انسانوں اور جناتوں کو اسوۂ رسول اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ) |