1957ء میں پیدا ہونے والا ولارڈ وائگن اپنے اسکول کے دور
میں طبی وجوہات کی بنا پر پڑھائی میں زیادہ بہتر نہ ہونے کے سبب طنز و
تشنیع کا شکار بنا کرتا تھا، لہذا وائگن نے ایک ایسے انوکھے فن کو اپنایا
جس نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا- اور اس برطانوی آرٹسٹ نے چھوٹے فن
پاروں پر مشتمل اپنی ایک الگ ہی دنیا بسا لی۔ ڈوئچے ویلے نے ان کے قابل قدر
اور حیرت انگیز فن پاروں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جو کہ چند ترامیم
کے ساتھ ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے-
|
|
برطانوی آرٹسٹ ولارڈ وائگن کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی چیز کو غور سے دیکھیں،
یہ صرف ایک سوئی نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی شاندار آرٹ ہے۔ مائیکرو آرٹ۔
اس سوئی کے سرے پر انتہائی چھوٹی سی’فیفا ورلڈ کپ ٹرافی‘ بنی ہوئی ہے۔ اس
ٹرافی کو کھُلی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، صرف خورد بین سے ہی آپ وائگن
کے تیار کردہ ان شاہکاروں میں چھپے کرداروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ مجسمے محض
0.005 ملی میٹر بڑے ہیں۔
|
|
جرمن شہر ہیمبرگ کے میوزیم آف آرٹ میں وائگن کے 20 بہترین شاہکار نمائش کے
لیے رکھے گئے ہیں اور ظاہر ہے ان کا نظارہ مائیکرواسکوپ یا خوردبین سے ہی
کیا جا سکتا ہے۔ دیگر آرٹسٹوں کے مقابلے میں وائگن کے کام کی ایک اہم
خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ ان کا تمام کا تمام کام آپ کی جیب میں سما سکتا ہے۔
|
|
چیونٹیوں کے لیے یہ گھر انتہائی باریکی سے کام کرنے کی وائگن کی صلاحیتوں
کا اظہار ہے۔ تصویر میں دکھائے جانے والے چیونیٹیوں کے گھر میں ان کی اشیاء
ضرورت بھی موجود ہیں۔
|
|
اس فنکار کے مطابق ان کے اس قدر چھوٹے فن پارے دراصل ان کی ’گہری لگن‘ کی
عکاسی کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چھوٹے سے چھوٹے فن پارے تشکیل دینے کی جستجو میں
رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ فن پارہ جس کا عنوان ’لیونارڈو ڈا ونچی کا
آخری کھانا‘ ہے۔ وائگن کا ماننا ہے کہ چھوٹی چیزیں بھی بہت عظیم ہو سکتی
ہیں۔
|
|
اپنے انتہائی چھوٹے فن پاروں کی تیاری کے لیے درکار خصوصی اوزار بھی وائگن
نے خود ہی تیار کیے ہیں۔ جن میں ہیرے اور یاقوت احمر کی باریک سوئیاں شامل
ہیں اور پھر کام کے دوران کاٹنے کے کام کے لیے خوردبین۔ وائگن محض وہی فن
پارے لوگوں کے سامنے نمائش کے لیے پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں پرفیکٹ
ہوتے ہیں اور ان میں کوئی خامی نہیں ہوتی۔
|
|
یہ ننھی سے قینچی وائگن ہی کے ابرو کے ایک بال پر رکھی نظر آ رہی ہے۔ یہ
وائگن کے لیے ایک اہم اوزار بھی ہے۔ آئی لیشز یا ابرو کے بالوں کو وائگن
اپنے فن پاروں میں بنائے جانے والے مجسموں اور عمارات کو رنگ کرنے کے لیے
بھی استعمال کرتے ہیں۔
|
|
اپنے اس کام کے لیے ولارڈ وائگن کا جسم سب سے اہم ٹُول یا اوزار ہے جس کی
مدد سے انہوں یہ ’ییلو سب میرین‘ یعنی پیلی آبدوز تخلیق کی ہے۔ ان کے کسی
ایک فن پارے کی تیاری میں قریب دو ماہ کا وقت لگتا ہے اور وہ بھی روزانہ 18
گھنٹے کام کریں تو۔
|
|
ولارڈ وائگن جنہیں کبھی اسکول میں ناکامی کا خوف دامن گیر تھا آج ایک معروف
فنکار ہیں جن کے فن پاروں کو بڑے بڑے انعامات ملتے ہیں۔ ان کے کام کی نمائش
ہیمبرگ کے عجائب گھر ’میوزیم فار آرٹ‘ میں 16 اپریل 2014ء تک جاری رہے گی۔
|