پیگی نونن، دو امریکی صدور، رونالڈ ریگن اور جارج بش
سینئر کی تقاریر لکھا کرتی تھیں۔
وہ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ انسان کا دماغ حیرت انگیز چیز ہے، جو
انسان کے پیدا ہوتے ہی کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بقول اُن کے، انسانی دماغ
اس وقت تک کام کرنا بند نہیں کرتا، جب تک وہ انسان تقریر کرنے کے لئے کسی
مجمعے کے سامنے کھڑا نہیں ہوتا۔
|
|
پیگی کے مطابق، ایک حالیہ سروے سے پتا چلا ہے کہ ان تمام چیزوں میں کہ جن
سے ڈرا جا سکتا ہے، لوگ سب سے زیادہ کسی اجتماع سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ تقریر کرتے وقت اسٹییج کا خوف آدھا چیلنج ہوتا ہے۔ پہلا
خوف یہ ہوتا ہے کہ تقریر میں کہنا کیا ہے، کیونکہ لوگ سجھتے ہیں کہ تقریر
کرنا کوئی جادو ہے جو ایک عام آدمی کر ہی نہیں سکتا؛ جبکہ، حقیقت میں تقریر
معلومات اور رائے کا مجموعہ ہوتا ہے جو کاغذ پہ لکھا اور منہ سے ادا کیا
جاتا ہے۔ اور، اگر کوئی فکر انگیز گفتگو کر سکتا ہے تو وہ تقریر بھی کر
سکتا ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے مضمون ’ہاؤ ٹو میک اے اسپیچ‘ میں پیگی نونن تقریر کرنے
کے خواہش مندوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تقریر 20 منٹ سے طویل نہیں ہونی چاہئے۔
ان کے مطابق، بات جتنی ہی ضروری ہوتی ہے اسے کہنے کے لئے اتنا ہی کم وقت
درکار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ لوگوں کو ٹی وی
پہ ہر 15 منٹ بعد وقفے کی عادت ہو گئی ہے۔
آرٹیکل کے مطابق، تقریر کرنے والے کو اپنی تقریر کو ایک موضوع پر مرکوز
کرنا چاہئے اور اتنی ہی تفصیل میں جانا چاہئے جو کہ ان کے موقف کو واضع کرے۔
ساتھ ہی، اپنے الفاظ کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تقریر کے
الفاظ پہلی ہی مرتبہ میں سجھ آجائیں۔
|
|
پیگی نونن کے مطابق، تقریر میں جوش سے زیادہ ہوش کی اہمیت ہوتی ہے، جس میں
مزاح کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس سے تقریر کرنے والے اور سننے والے
دونوں سکون میں آ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، جس موقع پر تقریر کی جا رہی ہے اس میں
مدعو کئے جانے پہ شکریہ ادا کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، کینیڈا میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے
کینیڈئن باشندوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی ’ایشیئن کینیڈئن
ایسوسئیشن‘ کے بانی اور صدر، خالد محمود میمن جو کہ کینیڈا کے ساتھ ساتھ
پاکستانی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے ہیں، کہتے ہیں کہ تقریر کرنے کے لئے یہ
جاننا بہت ضروری ہے کہ تقریر کس موضوع یا موقع پہ کی جا رہی ہے، تاکہ سننے
والوں کے حساب سے الفاظ اور باتوں کا انتخاب کیا جا سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تقریر کے شروع میں ہی ہلکی پھلکی بات یا مذاق کرنے سے
مدد ملتی ہے۔ لیکن، تیاری اور ریسرچ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،
کیوں کہ تقریر میں نئی بات کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، پرانی باتیں
’دہرانے‘ سے سننے والے بور ہو جاتے ہیں۔ |