صحت ایک بنیادی اور لازمی ضرورت ہے جوکہ پاکستان میں ملنا
بے حد مشکل معلوم ہوتی ہے جسے دیکھو کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس
بیماری کی وجہ سہولیات کا ناکافی ہونا تو ہے ہی ٹینشن ، ڈپریشن،آسمان سے
چھوتی مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب نے پاکستانیوں بالخصوص جنوبی پنجاب کے
لوگوں کو جانی ان جانی بیماریوں کی نذرکردیا ہے اور انسان جب بیمار ہونے کے
بعد ہسپتال کا رخ کرتا ہے تو وہاں کے حالات اسے مزید مریض بنادیتے ہیں۔
ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور بے حسی،ڈاکٹروں کی بے جاہڑتال۔ میڈیکو سٹاف کی من
مانیاں اور کرپشن، پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس کی بھرمار، اودیات کا مہیا
نہ ہونا اور اگر ملنا تو ناقص اور مضر صحت ہونایہ سب عوامل مل کر مریض کے
ساتھ ساتھ اس کے تیماردار کو بھی ذہنی مریض تو لازمی بنادیتے ہیں
ضلع لودہراں میں بھی ہسپتالوں اور ان میں تعینات ڈاکٹرز اور سٹاف کابھی یہی
حال ہے بلکہ اس سے بھی بد تر ہے آئے روز کوئی نہ کوئی mishape ہوا رہتا ہے
کبھی ڈاکٹرز ڈیوٹی پر موجود نہیں تو کبھی مریض کو صحیح ٹریٹ نہیں کیا
گیا۔کبھی انجکشن غلط لگادیا تو کبھی ڈوز زیادہ ہونے سے مریض چل بسا۔ کہیں
پر زخمیوں کو غیر صحتمندانہ ماحول میں مرہم پٹی کرنے کی شکایات ہیں تو کہیں
وارڈ بوائے اور سویپر ڈاکٹرز کے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے مریضوں کے زخم سی
رہے ہوتے ہیں۔ کبھی میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ نہ جاری کرنے کا جھگڑ ا ہے تو
کبھی رشوت کے بل پر زخمی کی مرضی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا واویلا۔جس کی
بنا پر ڈاکٹر کو MLC کیلئے بین بھی کیا گیالیکن پیسے کی چمک پر پھر سے بحال
کردیا گیا۔اور آج کل پولیس اور دو نمبر عادی و اشتہاری مزے لوٹ رہے ہیں۔
ان سب سے قطع نظر ایک بات جو کہ نہایت شد و مد کے ساتھ دیکھی اورمحسوس کی
جاتی ہے کہ ایمرجنسی کے معاملے میں پورے ڈسٹرکٹ لودہراں صورت حال انتہائی
خراب ہے ۔ایمرجنسی کو ڈیل کرنے کا معاملہ زیرو ہے ۔ کہروڑپکا ہو کہ دنیا
پور یا کہ خود لودہراں ایمرجنسی کو ڈیل کرنے کی تکلیف نہیں کی جاتی اور بہت
سے کیس ایسے سامنے بھی آئے ہیں کہ اگر انہی ہسپتالوں میں مریض کو ایمرجنسی
میں ٹریٹ کرلیا جاتا تو شایدوہ جانبر ہوسکتے۔ مثلا کسی ہارٹ اٹیک کی صورت
میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر پہلے تو غائب ہوتا ہے بالفرض محال موجود بھی ہو
تومریض کو ابتدائی طبی امداد دیئے بغیر کوئی بات پوچھے ،بتائے بغیر فورا ہی
بہاولپور ریفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پھرایمبولینس والی کی ڈھونڈ پڑتی
ہے جو کہ اپنے یا کسی ڈاکٹر کے ذاتی کام کی وجہ سے ڈیوٹی پر موجود نہ ہوتے
ہوئے بھی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اس کے پہنچنے اور پھر مریض کو ہسپتال تک پہنچنے
میں اتنا وقت ضائع ہو چکا ہوتا ہے کہ مریض بہاولپور پہنچنے سے پہلے ہی داعی
اجل کو لبیک کہہ چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی زیادہ زخمی ہوجائے تو اسکے ساتھ
بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور جب رپورٹ آتی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے
کہ بلیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے مریض کی ڈیتھ ہوئی ہے یعنی اگر تحصیل لیول
پر ہی بلیڈنگ کو روکنے یا کم کرنے کا کوئی مناسب انتظام ہوجاتا تو شاید
مریض بچ جاتا ۔
اس قسم کے واقعات بہت سے سوال چھوڑ جاتے ہیں کہ کیا ان ہسپتالوں میں موجود
ڈاکٹرز اور عملہ ایمرجنسی ڈیل کرنیکی اہلیت نہیں رکھتا؟ کیاان ڈاکٹرز کو
ایمرجنسی سے نمٹنے کی ٹریننگ نہیں دی جاتی؟ اگر دی جاتی ہے تو پھر فورا ہی
کیوں بہاولپور ریفر کردیا جاتا ہے؟اور اگر نہیں دی جاتی تو پھر ایمرجنسی
وارڈ کا لیبل لگوانا اور لگانا کیوں ضروری ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے
ایکویپمنٹ مہیا نہیں کئے جاتے؟ اگر نہیں کئے جاتے پھر ایمرجنسی کا لیبل
ہٹوا کر وہاں پر لکھوادیا جائے کہ ایمرجنسی کی کوئی سہولت موجود نہیں تاکہ
مریض کو ہسپتال میں لاکر ٹائم ضائع کرنے اور مریض کی زندگی کوخطرے میں
ڈالنے کی بجائے ڈائریکٹ ملتان یا بہاولپور لے جایا جاسکے۔اور اگر ادویات و
آلات دیئے جاتے ہیں تو پھر ان کا پراپر اور بروقت استعمال کیوں نہیں ہوتا
ہے؟اور اگر ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے سہولیات اور ٹریننگ نہیں ہوتی تو پھر
کیا کبھی کسی ایم ایس نے ارباب اختیار کے نوٹس میں یہ بات ڈالی ہے کہ جناب
ہمیں اس قسم کے آلات و حالات سے نمٹنے کیلئے ضروری میشنری و ادویات مہیا کی
جائیں اور میری معلومات کے مطابق شاید ہی ایسا کبھی ہوا ہویا زبانی جمع خرچ
سے آگے بات بڑھی ۔
ایک بات اور کیا ڈاکٹرز نرسز اور عملہ صرف اور صرف آوٹ ڈور مریضوں کو دوائی
لکھ کر دینے کیلئے تعینات کیا گیا ہے؟ آپریشن کے معاملے میں بالخصوص
کہروڑپکا میں کوئی پیش رفت دیکھنے اور سننے کونہیں ملی۔عام طور پر یہاں پر
تعینات سرجن میٹرنٹی کا معاملات کو دیکھتے ہیں اور وہ بھی اگر کوئی زیادہ
اپروچ والایا پھر دینے دلانے والا آجائے تو بادل نخواستہ اسے ٹائم دے کر
احسان کردیا جاتا ہے ورنہ روٹین یہی ہے کہ اسے کسی پرائیویٹ ہسپتال کا
راستہ دکھایا جاتا ہے جس کے تمام اخراجات مریض سے وصول کئے جاتے ہیں
ایک بڑی خوفناک اور انتہائی افسوسناک بات سامنے آئی ہے کہ مریض کو بہاولپور
ریفر رنے میں اپنی جان چھڑانے کے ساتھ ساتھ ایمبولینس والے سے بھی ملی بھگت
سامنے آئی ہے کہ جتنے زیادہ کیسز لے کر جاتا ہے اس کی وہ اپنی مرضی سے مریض
اور لواحقین سے ایندھن کی مد میں فیس بٹور لیتا ہے جس کا حصہ مبینہ طور پر
ہونہار ڈاکٹرز کو بھی جاتا ہے ۔یہ نہایت ہی مکروہ فعل ہے اور ملوث افراد کے
حوالے سے انکوائری کرکے انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔اس حوالے سے کہروڑپکا
میں ایمبولینس ڈرائیور اور ہونہار ڈاکٹر کے خلاف انکوائری hold ہوچکی ہے۔
جس میں مذکورہ بالا موصوف guilty بھی پائے گئے۔لیکن معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں وزیر اعلی پنجاب جو کہ صحت کے
حوالے سے مشہور ہیں وزیر صحت سیکرٹری ڈائریکٹر ای ڈی اوہیلتھ اور ڈی ایچ او
اس معاملے کو زمینی حقائق کے طور پر لیں اور اگر ایمرجنسی وارڈمیں ایمرجنسی
کیلئے سہولیات ادویات اور آلات ناکافی ہیں تو ان کا فوری بنیادوں پر انتظام
کیا جائے تاکہ قیمتی جانوں کو بچایاجاسکے۔ مزید یہ کہ در ج بالا حالات کے
پیش نظرایم ایس کے معاملے کو بھی دیکھا جائے اور guilty اور ملوث افراد کے
خلاف ضابطہ کی کارروائی کی جائے۔
|