خواب اور حقیقت

وہ کہتے ہیں نہ کہ ـ ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ اس کہاوت کا سہی پتا تب چلتا ہے جب کوئی بیٹا اپنی ماں سے ، کوئی باپ اپنے بچوں سے ، کوئی بھائی اپنی بہن سے، کوئی شوہر اپنی بیوی سے ، بہت دور ،سب کچھ چھوڑ چھاڑ کسی دوسرے ملک جا کر زندگی بسر کرتا ہے۔ لیکن جب وہاں مزدوری کی سختی کا پتا چلتا ہے تو اسے گھر بہت یاد آتا ہے ۔سخت گرمی میں بنا کسی سائے کے تیز اور جہنم کی سی آگ برساتی دھوپ میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ضروریات ِ زندگی کے تمام کام خود کرنے پڑتے ہیں۔

اپنا ملک چاہے جیسا بھی ہو سونے کی مرغی کی طرح ہوتا ہے۔ اپنے گھرجیساہوتا ہے۔ سب اپنے پاس ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت تمام رشتہ داروں، دوست ، احباب سے جب چاہے مل سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات ماں باپ ، بھائی بہن ،بیوی بچے پاس ہوتے ہیں اور ان کے پاس بیٹھ کر اپنا وقت گزار سکتا ہے اور اپنے دکھ سُکھ ایک دوسرے سے شیئر کر سکتا ہے۔ جبکہ پردیس میں صرف تنہائی ساتھ ہوتی ہے ۔

لیکن اگر کوئی کسی دوسرے ملک جا کر کماتا ہے تو اس کو بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے اور اس کو سوسائٹی میں ایک عزت دار آدمی سمجھا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے پوری سوسائٹی اس کی عزت کرتی ہے۔جو لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں وہ دوست بن جاتے ہیں اور روٹھے ہوئے لوگ دوبارہ سے اس کے پاس آ جاتے ہیں۔ جن رشتوں میں دڑاڑیں آ جاتی ہیں وہ دوبارہ سے مضبوط ہو جاتے ہیں۔

’’خواب کیا ہے اور حقیقت کیا ہے‘‘

اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کوئی کسی دوسرے ملک میں جا کر کمانے کا شوق رکھتا ہو ، جب کسی کو دوسرے ملک جا کر کمانے کی خواہش ہوتی ہو۔ اپنے ملک میں موجود تمام سہولتیں اسے کم لگتی ہوں، اسے تھوڑی محصوس ہوتی ہوں اور وہ سوچتا ہے کہ اسے دوسرے ملک جا کر تمام سہولتیں میسر آ جائیں گی اور وہاں ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے گا۔ اس کے پاس ایک اچھی نوکری ہوگی، اپنا گھر بنالے گا، اچھے کپڑے پہنے گا، رشتہ داروں، دوستوں میں سب سے زیادہ عزت دار بن جائے گا۔ ایک عالی شان زندگی بسر کرے گا۔ ارے بھئی اب آپ ذرا سوچئے کہ اگر کوئی انسان یہ سب کچھ پا بھی لے تو جب تک اس کے گھر والے اس کے ساتھ نہیں ہونگے تو وہ پھر بھی ادھورا ہی رہے گانا۔

اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی ایک دنیا بسا لیتا ہے ۔ جس کی حقیقت بہت خوفناک ہوتی ہے ۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔

اسے نہیں معلوم ہوتا کہ پردیس میں جتنی مشکلات پیش آئیں گی۔ اسے جتنی تکلیفات ، مسائل ، دکھ برداشت کرنا پڑینگے ۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں رہ کر کمائی کرے ۔اپنا ملک اس کے لیے ایک محل کی طرح ہے۔لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور جب وہ اپنے خوابوں کا ایک بستہ لیے پردیس پہنچتا ہے تو اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور کیونکہ ایک بھیانک سچ اس کے سامنے آ چکا ہوتا ہے ۔ جو اس کے دل کو بہت ٹھیس پہنچاتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ
مجھے پردیس میں رہ کر وہ برابر یاد آتا ہے
وہ ٹوٹا ہی سہی لیکن گھر بہت یاد آتا ہے

حقیقت یہ ہی کہ جو لطف اپنے ملک میں اپنوں کے بیچ رہ کر ملتا ہے ۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر کبھی نہیں ملے گا ۔کیونکہ اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے۔

Muhammad Owais
About the Author: Muhammad Owais Read More Articles by Muhammad Owais: 2 Articles with 1350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.