آج کل آزادکشمیر کے نوجوان سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی طرف
سے ملازمتوں کے سلسلے میں میرٹ کی پامالی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ان کا
کہنا ہے کہ سرکاری محکموں باالخصوص محکمہ تعلیم میں بھرتی کے سلسلے میں
تعلیم یافتہ، قابل اور اہل امیدواروں کو نظر انداز کرکے سیاسی مداخلت کے
ذریعے نااہل افراد کو ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔یہ معاملہ کسی ایک حلقہ
کا نہیں بلکہ پورے آزادکشمیر کے نوجوان سوشل میڈیا پر میرٹ کی پامالی اور
ناانصافی کے خلاف سرپہ احتجاج ہیں۔ انہیں کون بتلائے کہ اس معاشرے میں
انصاف اور میرٹ کہاں۔ ان حکمرانوں سے انصاف کی توقع کرنا دھکتے ہوئے شعلوں
میں عافیت تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ جعل سازی سے منتخب ہوتے ہیں ان
سے جو لوگ میرٹ کی امید رکھتے ہیں، ان سے زیادہ بے وقوف آخر کون ہو سکتا
ہے۔ جب تک اس نظام کی آخری اینٹ تک نہیں اکھاڑ پھینکی جاتی تب تک خیر کی
توقع کرنا اپنے آپ کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔
اس طرح کی اطلاعات پر مجھے رنج بھی ہوتا ہے اور بے ساختہ ہنسی بھی نکل آتی
ہے۔ رنج اس بات کا کہ ہمارا معاشرہ کب تک نااہل کرپٹ اور خودغرض لوگوں کے
سپرد رہے گا اور انسانیت کب تک حق سے محروم رکھی جائے گی اور ہنسی اس بات
پر آتی ہے کہ جعلی انتخابات میں یہی نوجوان اپنے امیدواروں کے حق میں مہم
چلاتے ہیں، نعرے بازیاں کرتے ہیں اور انتخابی دھاندلی کے مرتکب ہوتے۔ اپنے
ہاتھوں سے اپنا مستقبل کرپٹ لوگوں سے حوالے کرتے ہیں۔ نام نہاد کامیابی پر
شادیانے بجاتے ہیں اور ان نام نہاد لیڈروں کے لیے اپنی جان تک کی بازی
لگاتے ہیں پھر انہی سے خیر اور میرٹ کے قیام کی توقع بھی کرتے ہیں اور
مطالبات بھی کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دھکتے ہوئے انگاروں سے کوئی
عافیت پاسکے۔
مجھے اس حوالے سے دو واقعات یاد آرہے ہیں، پہلا واقعہ ۱۹۹۶ء کے عام
انتخابات کا ہے۔ حسب روایت پولنگ ڈے سے ایک روز قبل ہمارے پولنگ سٹیشن کے
نام نہاد معززین کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں پولنگ ڈے کے حوالے سے
معاملات زیر غور آئے۔میں بھی انتخابی عمل کے سلسلے میں گاؤں میں موجود تھا
اور ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی بھی کرتا تھا۔ مجھے بھی اس جرگے میں شرکت
کا موقع ملا۔ اجلاس کا پہلا ایجنڈا یہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین اپنے
مردوں کے کہنے پر ووٹ ڈالتی ہیں، اس لیے انہیں پولنگ سٹیشن تک لانے کا تردد
نہ کیا جائے بلکہ مرد ہی اپنی خواتین کے ووٹ کاسٹ کریں۔ میں نے اس سے اتفاق
نہ کیا تاہم کثرت رائے سے یہ تجویز منظور ہو گئی۔ ایجنڈے کا دوسرا پوائنٹ
یہ تھا کہ ایک فرد ایک ووٹ کے بجائے پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ ہی سارے ووٹ
کاسٹ کردیں۔ اس پر فارمولہ طے ہونے لگا کہ کس امیدوار کو کتنے ووٹ دئیے
جائیں۔ میں نے پولنگ کروانے پر اصرار کیا تو مجھے ایک پڑھے لکھے وکیل صاحب
نے کہا کہ چوھان صاحب آپ اسلام آباد میں ہوتے ہیں، آپ کو ہماری روایات کا
پتہ نہیں، فیر پولنگ تو کہیں کوہالے سے پار ہوتی ہوگی، یہاں یہی کچھ ہو گا۔
خاصی دیر بحث مباحثہ جاری رہا، جب مجھے مطلوبہ ووٹ مل گئے تو میں نے اس شرط
پر اتفاق کر لیا کہ سب سے پہلے ہمارا پولنگ ایجنٹ ووٹ کاسٹ کرے گا۔ ایسا ہی
ہوا، صبح نو بجے تمام پولنگ ایجنٹوں نے اپنے، اپنے ووٹ کاسٹ کیے اور ساڑھے
نو بجے پولنگ سٹیشن کا رزلٹ جاری کر دیا گیا۔ ہم اپنے پولنگ سٹیشن کے نتائج
کی چٹ لے کر دس بجے باغ مرکزی الیکشن آفس پہنچ گئے۔
دوسرا واقعہ 2012 ء کے عام انتخابات کا ہے۔ پولنگ سے دو روز قبل مجھے چیف
الیکشن کمشنر آزادجموں کشمیر کے اسلام آباد آفس جانے کا موقعہ ملا۔ اتفاق
سے چیف الیکشن کمشنر خواجہ سعید صاحب بھی دفتر میں موجود تھے، ان سے ملاقات
ہوئی، دوران ملاقات میں نے کہا کہ خواجہ صاحب آزادکشمیر میں تو ون وئے
پولنگ کا رواج عام ہے، جس میں فوت شدگان اور غیر موجود لوگوں کے ووٹ بھی
کاسٹ کر دئیے جاتے ہیں ، آپ اس کا تدارک کریں۔ میری بات سن کرانہوں نے حیرت
کا اظہار کیا۔ اس دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن اور کچھ دیگر افسران بھی ان
کے دفتر میں آگئے۔ خواجہ صاحب نے حیرت سے ان سب کو بھی بتایا کہ چوہان صاحب
یہ کہہ رہے ہیں۔ ان سب نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا تو مجھے کچھ غصہ بھی
آگیا۔ میں کہا کہ آپ کہیں لندن یا امریکہ سے تو نہیں آئے، اسی معاشرے کا
حصہ ہیں۔ جو کچھ ہوتا رہا، وہ تو دنیا کے سامنے ہے، میں کوئی راز تو فاش
نہیں کررہا ، یہ پوری دنیا کے سامنے ہوتا ہے۔خیر انہوں نے کہا کہ اس بار
ایسا نہیں ہوگا، ان سب افسران نے مجھے بہت مطمئن کیا کہ اس بار بڑے اچھے
انتظامات ہیں، آپ دیکھیں گئے کہ کتنے شفاف انتخابات ہوں گے۔ خدا کی کرنی
کیا ہوئی کہ الیکشن کے دوسرے دن اخبار ات میں یہ خبر شائع ہو گئی کہ چیف
الیکشن کمشنر خواجہ سعید صاحب کا ووٹ اسلام آباد، مظفرآباد اور فارورڈ
کہوٹہ تینوں جگہ درج تھا ور تینوں جگہ پول بھی ہو گیا۔ اب خدا ہی جانتا ہے
کہ چیف صاحب نے کس حلقے میں خود اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور باقی حلقوں میں کس
نے کاسٹ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تین حلقوں میں ووٹ درج ہونے کی بناء
پر وہ اپنی اور اپنے محکمے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگتے
اور اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے۔ لیکن جولوگ پوری ڈھٹائی سے جرم کرتے ہیں،
ان کے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں، انہیں غلطی تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس غلیظ نظام کی کھوک سے جنم لینے والی حکومتیں کیا قرار پاتی ہے، میں کچھ
نہیں کہہ سکتا تاہم ان سے میرٹ کی امید رکھنا، عقل سے پیدل فرد ہی رکھ سکتا
ہے۔ میں اپنے نوجوانوں سے یہی کہوں گا کہ اگر وہ اس ملک سے ظلم کے نظام کو
خاتمہ چاہتے ہیں تو قرآن کو اس ملک کا دستور بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ جب
قرآن کا نظام غالب ہو گا تو جبر اور ناانصافی کی ہر شکل مٹ جائے گی۔ یہ
میرے اﷲ کا وعدہ ہے۔ یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ جب تک قرآن کو ہم اپنا دستور
نہیں بنالیتے نہ انصاف مل سکتا ہے، نہ امن ہو سکتا اور نہ سکون میسر آسکتا
ہے۔مجھے یہ اپنے ہم وطنوں کو یہ بھی یاددلانا ہے کہ وہ ووٹ دیتے وقت، اپنی
قیادت کا انتخاب کرتے وقت جو میرٹ اور معیار مقرر کرتے ہیں، جس طرح برادری
ازم، دھڑہ بازی اور علاقائیت کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سب کچھ اسی کا نتیجہ
ہے۔ جس دن ووٹر میرٹ کو معیاربناکر قیادت منتخب کریں گے اور افراد ،برادری،
علاقے اور دوستی کے بجائے نظریہ اسلام کو بنیاد بنائیں گے، اس دن قوم کو ان
مصائب سے نجات مل جائے گی۔ |