حال ہی میں ہم نے یو ٹیوب پر ایک
ویڈیو دیکھی تھی کچھ مزاحیہ تھی ، جس کا تبصر ہ کچھ اس طرح سے ہے ۔ ایک
سردار جی کی بیو ی کو اولا د ہوتی ہے ، سردار جی خوش تو ہو جا تاہے لیکن
دوسر ے ہی لمحے وہ بیو ی سے سوال کرتا ہے کہ ہماری شادی ہوئے صرف تین ما ہ
ہی گز رے ہیں اور اتنا جلدی بیٹا کیسے ہوگیا ؟۔ بیو ی نے کہا ۔ اے جی میر ی
شادی ہو ئے کتنے مہینے ہو ئے ، سردار نے کہا تین مہینے ، تمہاری شادی ہو ئے
کتنے مہینے ہو ئے ، سردار نے جواب دیا تین مہینے ، پھر پو چھا بچہ کتنے
مہینے میں ہوا ؟۔ سردار نے برجستہ جواب دیا تین مہینوں میں ہوا ۔ پھر بیو ی
نے کہا اب پو رے مہینوں کو جما کر و۔ سردار نے کہا ۹ مہینے ۔ بیو ی نے
سردار کو بتایا کہ تب بچہ بھی نو مہینے میں ہی ہوا ہے نا !۔اب ہم یہ بات
بتانا چاہیں گے کہ یہ واقعہ ہم یہاں کیوں بتا رہے ہیں ۔ دراصل کچھ دینی
مدارس میں بچوں کی تعداد کو جھوٹ موٹ لوگوں کے سامنے بتا کر چند ہ حاصل کیا
جارہاہے ۔ مثال کے طورپر ایک مدرسے میں طلبا ء کی تعداد کو تین سو بتایا جا
تا ہے ، حقیقت میں وہاں کی تعداد صرف ایک سو یا ایک سو سے کم ہوتی ہے ، جب
ذمہ داروں کو سوال کیا جا تاہے تو انکا جواب یوں تھا، اگر مدرسے میں ایک
دفعہ میں ایک سو بچے کھانا کھا تے ہیں تو تین مر تبہ کھا نا کھا نے پر تین
سو بچے ہو جا تے ہیں ، شکر ہے کہ جنا ب نے ان سو بچوں کو تیس دنوں کے لئے
حساب نہیں کیا ہے ۔ مدارس اسلامیہ ہماری دین کی بنیادیں ہیں ، ان مدارس سے
فارغ ہو نے والے طلباء ہمارے امام کہلا تے ہیں اور یہاں پر سے نکلنے والے
بچوں کی تربیت اور پر ورش جھوٹ کی بنیا د پر کی جاتی ہے تو اس سے بڑ ا
المیہ کیا ہو گا ۔ جس اسلام نے مسلمانوں کو سچائی ، حق پر ستی ، حق گوئی ،
شفافیت ، ایمانداری کو اپنا نے کا درس دیا ہے اور اگر انہیں اسلام کے
معماروں کی پر ورش جھوٹ کے سہا رے کی جاتی ہے تو یقینا ہماری دنیا اور آخر
ت تبا ہ ہو جا ئیگی ۔ مدارس اسلامیہ کو جھوٹ کی بنیا د پر چلانے کی ہر گز
بھی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی آج ہماری قوم میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں
ہے جو قوم و ملّت کے ان اداروں کو بے سہا ر ا چھوڑ دیں ۔ جن دینی مدارس میں
ہمارے نونہال اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوتے ہیں ، اسلام کو سمجھتے ہیں اور
اسلام کو پھیلانے کے لئے علم حاصل کرتے ہیں انکی پرورش ، انکی ذمہ داریوں
کو اٹھانے کے لئے ہر گز بھی جھوٹ کا سہار ا نہ لیا جا ئے ۔ ہمیں مدارس
اسلامیہ کے منتظمین سے کوئی بیر نہیں ہے بس اختلاف ہے تو جھوٹ کو بنیا د
بنانے کر مدارس چلانے کے نظام پر !۔ جب اﷲ ہمار ا رازق ہے تو ہم جھوٹ کا
سہا ر ا کیوں لیں ؟۔ جب ہمارے سامنے ہمارے دینی مدارس کو چلانے کے لئے
وسائل ، ذرائع اور سہولیات موجود ہیں تو جھوٹ کا سہا را کیوں لیں ؟۔ یہاں
یہ بات بھی قابل فکر اور قابل تشویش بھی ہے کہ آج مدارس اسلامیہ کو چند لو
گ محض اپنے ذاتی مفادات کی بنیا د پر چلا رہے ہیں ، کچھ لوگ ان مدارس کو
سیاسی مقاصد کے لیے چلا رہے ہیں تو کچھ لوگ اپنی روزی روٹی حاصل کر نے کے
لئے چلا رہے ہیں ۔ ایک شہر میں جتنے محلّے اتنے ہی دینی مدارس ، مانو کہ
دینی مدارس کے قیام کے لئے ایک مقابلہ چل رہاہے اور ان مدارس میں طلباء کی
تعداد نہ کہ برا بر اور ان بچوں کو معقول تعلیم کے لئے محدود وسائل ، ایسی
بھی کیا ضرورت ہے جو لوگ ا س قدر دینی مدارس کے قیام کے لئے بھا گ دوڑ
کررہے ہیں ۔ ہماری نظر وں کے سامنے ہیں کہ ان مدارس میں ہمارے مقامی طلباء
کم بیر ونی علاقوں کے طلباء زیادہ ، کچھ مدارس میں تو طلباء کو خرید کر لا
یا جا تاہے ایسے علاقوں سے جہاں پر مسلمان غربت اور بھو ک مر ی کا شکا ر ہو
تے ہیں جن کے والدین مجبو ری میں ان بچوں کو مدارس اسلامیہ کے حوالے کر
بیٹھتے ہیں اور یہاں کچھ مدارس کے ذمہ دار ان بچوں کی تعداد کو دکھا کر
اچھے خاصے چند ے وصول کرتے ہیں با لکل اسی طرح جس طرح سے چڑ یا گھر میں
جانو روں کو دکھا نے کے لئے جانوروں کو دکھا یا جاتاہے ۔ غور کیجئے ہمارے
مدارس میں کس میعار کی تعلیم دی جارہی ہے ، دینی مدارس میں دینی تعلیم سے
واقفیت کر انا ضروری ہے لیکن یہاں کے زیر تعلیم طلباء کو جدیدتعلیم ، فنونی
و تکنیکی تعلیم سے بھی واقف کر ا نا بے حد اہم ہے ۔ کیو نکہ جتنے علماء
مدارس سے فارغ ہو تے ہیں اتنے ہمارے یہاں مساجد و مدارس نہیں ہیں اور
مستقبل میں ان فارغین کو اپنی روزی روٹی کے لئے پر یشان ہو نا پڑھتاہے ۔
اگر ہمارے علماء دینی مدارس سے فارغ ہو تے وقت انجینئرنگ ، پیارا میڈیکل
کورسس اور ٹکنیکل تعلیم کی بھی اسنا د اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں تو دین کو
پھیلانے ، دین کے لئے کام کر نے اور دینی ماحول کے قیام کے لئے بہت اچھا
ماحول بن سکتاہے ، مثال کے طو رپر اگر ایک حافظ قرآن پیا ر ا میڈیکل کورس
کے ذریعے لیا ب ٹکنیشین بن کر باہر آتا ہے تو وہ کسی اسپتال میں خدمات
انجام دے سکتاہے جہاں پر وہ دین اسلام کے تعلیمات کو عام کرسکتاہے ، کوئی
طالب العلم حافظ قرآن کے ساتھ ساتھ ڈپلوما ہولڈر بنتاہے تو وہ کسی کمپنی
میں روزی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے دیگر مسلمانوں کے درمیان دینی
تعلیمات کو عام کرسکتاہے ۔ آج یہودیوں و عیسائیوں کی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں ، عیسائیوں کا ایک فادر ڈاکٹر بن کر باہر آتاہے وہ گر جا گھر میں اسکی
عبادت کرنے کے بعد اپنے پیشے کے ذریعے خدمات بھی انجام دیتاہے اور یہی اسکی
روزی روٹی ہوتی ہے ، اپنا گزارا کر نے کے لئے وہ گر جا گھر سے تنخواہ نہیں
لیتا۔ اسی طرح سے ایک یہودی کو ہن (مذہبی امام) بھی سائنسدان ، ماہر سیاست
، ماہر اقتصادیات میں سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ قومیں آج پو ری دنیا میں
اپنا دبدبہ قائم کئے ہوئے ہیں ۔ ان باتوں کو چھوڑئیے!، ہمارے خلفائے راشدین
نے کبھی بھی امامت و خلافت کے لئے تنخواہ نہیں لی ہے ، اگر تنخواہ لے کر
نماز پڑھائی جاتی ہے تو وہ عبادت کہاں ہوگی ؟۔ ہمارے اسلاف میں سے بھی شاید
کسی نے دین وحدت کی تعلیمات کو عام کر نے کے لئے تنخواہ قبول کی ہے ۔ اس
لئے ہمارے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ ہمارے دینی مدارس کو جھوٹ کی بنیادوں
پر نہ چلائیں بلکہ حقیقتوں کا سہارا لیں ۔ وہاں سے ہونے والے فارغین کے
مستقبل کو صرف مسجد اور مدرسے تک محدود نہ رکھیں بلکہ دنیا بڑی ہے اس بڑی
دنیا میں پھیل کر دین کی تبلیغ ، مسلمانوں کی امامت اور اپنی روزی آپ حاصل
کر نے والا بنا ئیں ۔یہ وقت کا تقاضہ ہے اور قوم کی ضرورت ہے ۔
|