مقدّس عرَبی زبان دیگر زبانوں سے کئی لحاظ سے منفرد
ونمایاں خصوصیات کی حامل زبان ہونے کے باوجوداسلامی جمہوریہ پاکستان میں
کوئی ممتاز مقام پانے سے قاصِر رہی۔حالانکہ قیامِ پاکستان کے بعداِس زبان
کی ترویج کی اُمید برآنے کی کافی توقُّع کی جارہی تھی۔اِسلامیانِ پاکستان
کی اُمنگوں کے مطابق نصاب ِتعلیم میں دینی ومذہبی عُلوم کو شامل کرنے کی
ضرورت محسوس کی گئی اور اِس سلسلے میں مختلف اَدوار میں قومی تعلیمی
پالیسیوں میں بھی اِسلامیانِ پاکستان کی نظریاتی اَساس کی حفاظت کے لئے
مختلف تجاویز پیش کی گئیں لیکن آج تک تعلیمی پالیسیوں کی تجاویز پرنہ تو
عملی اقدامات کئے گئے اونہ ہی اِس مقدَّس زبان کواِس کاحق نصیب ہوسکا۔
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کِن وجوہات کی بناء پر اِس بے چاری زبان
کونظرانداز کیاگیا۔
اِسلام کے نام پر معرضِ وُجود میں آنے والے وطن ِ عزیز میں اِس مقدّس زبان
کوآج تک سرکاری سرپرستی میسّرنہ آسکی یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پرائیویٹ تعلیمی
اداروں میں اسے نظر انداز کیاگیا بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی اِس
زبان کی تدریس پرکوئی توجہ نہ دی گئی ۔مقامِ افسوس ہے کہ اپنوں کی کم فہمی
اور کج روی کی وجہ سے عرَبی زبان مسلسل نظرانداز ہوتی رہی۔
دِل کے پھپھولے جَل اُٹھے سینے کے داغ سے
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جناب ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کے دور میں ۱۹۷۳ء کے آئینِ پاکستان میں اسلامی
دفعات شامل کی گئیں۔اس آئین کی دفعہ ۳۱ کے تحت حکومتِ پاکستان کوپابند
کیاگیا کہ وہ اِسلامیانِ پاکستان کی نظریاتی اَساس کی حفاظت کے لئے عرَبی
زبان کی تدریس کاکماحقُّہٗ انتظام کرے۔ ـضیاء الحق مرحوم کے دور میں پہلی
بار اِن اسلامی دفعات پرعمل کرتے ہوئے چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک عرَبی
زبان کو شاملِ نصاب کیاگیا لیکن قومی پیمانے پر اِس پیاری زبان کی ترویج
واِشاعت کے لئے کوئی مربوط منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ جس کانتیجہ یہ نکلاکہ
اِس زبان کی تدریس کو اس کے حال پرچھوڑدیاگیا۔بہرحال جیسے تیسے کرکے اِس
زبان کواپناسفرجاری رکھناپڑا۔
حکومت جن مضامین یاعُلوم کی سرپرستی کرتی ہے وہی عوام میں قبولیت کاشرف
پاتے ہیں کیونکہ لوگ توبادشاہوں کے دین پرہوتے ہیں۔(النّاسُ علَی دِیْنِ
مُلُوْکِھِمْ)۔ لیکن اِس زبان کو کبھی بھی سرکاری سرپرستی نہ مِل سکی۔
کمزوربنیادوں پہ قائم عمارت کب مضبوط ہوسکتی ہے اور شاخِ نازُک پہ
بناآشیانہ کب پائیدارہوسکتاہے؟ یہی حال اِس زبان کاہوا۔ جس قوم کواپنی قومی
زبان کی کوئی پرواہ نہ ہووہ اپنی دینی زبان کی حفاظت کیسے کرسکتی ہے؟
۲۰۰۹ء سے پنجاب بھرکے سرکاری ہائی سکولوں میں عرَبی زبان کی تدریس کے بارے
میں شکوک پیداکردیئے گئے۔ اکثر سکولوں میں اِس پیاری زبان کی تدریس کو ترک
کردیاگیاحالانکہ تمام سکولوں میں عرَبی پڑھانے والے اساتذہ موجود تھے۔ میرے
ایک ہیڈماسٹر دوست نے مجھے بتایا کہ اُن کے حکامِ بالا نے ایک میٹنگ میں
کہا کہ عرَبی اور کمپیوٹردونوں ہیں تواختیاری ہی لیکن آپ نے پڑھاناکمپیوٹر
ہی ہے اوراُنہیں یہ بھی بتایا گیا کہ۲۰۱۳ء کے بعدمضمون عرَبی کاپرچہ نہیں
لیاجائے گا۔
اسی کشمکش میں تدریس عرَبی متائثرہوتی رہی حتّٰی کہ۲۳ اگست۲۰۱۱ء کو محکمہءِ
تعلیم پنجاب کی طرف سے مراسلہ نمبرSO(SE-IV)234/2008 کے تحت تما م ڈی سی
اوز اور ای ڈی اوزکو عرَبی لازمی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیااور اُس میں
کہا گیا کہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک عرَبی کو ۲۰۰۹ء کی تعلیمی پالیسی کے
تحت لازمی مضمون کے طور پررکھاگیاہے جبکہ کمپیوٹر سائنس کو بھی لازمی مضمون
کے طور پر پڑھایاجائے گااور یہ اِضافی ہوگا۔لیکن افسوس کہ تعلیم کے اَربابِ
اِختیار نے اِس نوٹیفیکیشن کی کوئی پرواہ نہ کی اور عرَبی لازمی کے لئے
کوئی اِقدامات نہ کئے اور اِس نوٹیفیکیشن کے باوجودپنجاب ایگزامینیشن کمیشن
کے زیرِ اِنتظام منعقد ہونے والے آٹھویں جماعت کے امتحان سیشن ۲۰۱۲ء /۲۰۱۳ء
کے داخلہ فارم اور ڈیٹ شیٹ میں عرَبی اور کمپیوٹر کوآپشنل مضامین کے طور پر
ہی رکھا گیا۔ موجودہ تعلیمی سال ۲۰۱۴ء کے امتحان کے لئے داخلہ ورجسٹریشن
فارم پر عرَبی زبان کو کمپیوٹر کے ساتھ آپشنل ہی رکھا گیا لیکن جب امتحان
کی ڈیٹ شیٹ جاری کی گئی تواس میں سے عربی /کمپیوٹر اور مطالعہ
پاکستان(تاریخ وجغرافیہ) کو سرے سے ہی نکال دیاگیااور کہا گیا کہ اِن
مضامین کا امتحان متعلقہ سکول خودہی لے لیں گے۔ کیااِن دومضامین کاپرچہ
لینامناسب نہیں تھا؟ اگر کوئی مالی یاانتظامی مشکلات درپیش تھیں تو باقی
مضامین کے امتحانات بھی سکولوں کے سپُردکیوں نہ کئے گئے؟ جن مضامین کاپرچہ
ہی نہ لیاجائے ، اُن کی تدریس پرکون وقت ضائع کرے گا؟
مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کے سابقہ وموجودہ دورمیں تعلیم کا شُعبہ
بالخُصوص انقلاب کی زد میں رہا۔ آنے والے وقت میں جو تبدیلیاں لائی جائیں
گی، اب تک کی تبدیلیاں اُن کے سامنے ماند پڑ جائیں گی۔ابھی تو صرف مطالعہ
پاکستان اور عرَبی کاپرچہ لینے سے انکارکیاگیاہے ،کل کو اسلامیات اور
اُردوکوبھی اِس انقلاب کی بھینٹ چڑھایاجائے گا۔ جب باڑہی گُلشن کولوٹنے
پرآمادہ ہوجائے توکون اُس کی حفاظت کرے گا؟ کیااِس وطن کی باگ ڈور اسی لئے
ان حکمرانوں کی سپرد کی گئی کہ وہ اِس کا نظریاتی تشخُّص تباہ کر کے رکھ
دیں؟ کیااُنہوں نے قیادت سنبھالتے وقت اِس ملک کے ساتھ وفاداری کرنے کاحلف
نہیں اُٹھایاتھا؟ کیاآئین ِ پاکستان کی پاسداری کرنااُن کے فرائض میں شامل
نہیں تھا؟ کیا عرَبی زبان کوجلاوطن کرکے ہم ترقی کی منازل سے ہمکنارہوجائیں
گے؟
جب پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت منعقد ہونے والے آٹھویں جماعت کے
امتحانات میں سال ۲۰۱۳ء کے بعد عرَبی کاپرچہ نہ لینے کا منصوبہ کافی پہلے
کاتھاتوکیوں اِس بارے میں عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکی گئی؟اگریہی
کرناتھاتو داخلہ ورجسٹریشن فارم میں عرَبی یا کمپیوٹر کی آپشن پوچھنے
کاتکلُّف کیوں کیاگیا؟
وہی ہوا جس کی بازگشت کافی عرصہ سے سُن رہے تھے۔ بالآخر عرَبی زبان کو
پنجاب کے سرکاری سکولوں سے دیس نکالا دے دیاگیا۔عرَبی زبان کو ایسے ہی
جِلاوطن کیا گیا جیسے عرَبوں کو اُندلس سے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عرَبوں
کواپنے اعمال کی سزابھگتناپڑی جبکہ عرَبی کو بے گناہ ستم کانشانہ بنایاگیا۔
اُنہیں نکالنے میں غیروں کی کاروائیاں عُروج پر تھیں اور اِسے نکالنے میں
اپنوں کی کج ادائیاں۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ عرَبی زبان کی کَلی بِن کھلے
مُرجھاگئی۔
اِس بارے میں نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ردِّعمل سامنے آیا ہے
اورنہ ہی کوئی دینی ومذہبی جماعت اِس بارے میں کرداراداکرنے پرآمادہ نظرآتی
ہے۔نہ عرَبی زبان سے وابستہ سکولوں کے اساتذہ کو اِس بارے میں کوئی
فکرلاحِق ہے اورنہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شعبہ عرَبی سے منسلک
اَفرادکو کوئی اِحساس۔ جِس درخت کی جڑیں کاٹ دی جائیں وہ کب تک سرسبز رَہ
سکتاہے؟ جب سکولوں میں نرسری تیارنہیں ہوگی تو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں
اِن شعبوں میں کون آئے گا؟
کبھی بھی اِس بے چاری زبان کی ترویج کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
سنجیدگی سے کوششیں نہیں کی گئیں کیونکہ اِس کی پُشت پر کوئی عالمی طاقت
نہیں ہے۔ نہ ہی اسے امریکہ بہادر کی تائید حاصل ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی
این جی او کی حمایت۔ نہ اِسے USAIDکی تیکنیکی ومالی معاونت حاصل ہے نہ
UKAIDکی۔نہ کوئی CIDAاس کے ساتھ ہے نہPCDSPََ۔ نہ کوئی عرَب ملک اس کی
ترویج کاخواہاں ہے اورنہ کوئی عرَب شہزادہ۔ ایسے حالات میں کب تک اِس زبان
کا بوجھ برداشت کیاجاسکتاہے؟
ہماراہر کام ڈالر کے ساتھ منسلک ہے تو ہم کیونکر اِس بے مایہ زبان پر وقت
ضائع کرسکتے ہیں۔ سمجھدار تاجر ہمیشہ منافع بخش سودے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
اب اِس وطن میں کسی قومی نصاب تعلیم اور قومی اقدار پر مبنی نظامِ تعلیم کی
زیادہ اُمید ہرگِز نہ رکھی جائے تو بہترہے ورنہ بلڈپریشر اور بے چینی جیسے
اَمراض کا شدیدخطرہ لاحِق رہے گا۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتارہا
اب اِس اسلامی جمہوری مُلک میں اسلامی جمہوریت کے سائے تلے اِس زبان کے لئے
کوئی جگہ نہیں رہی لھٰذا اِس مقدّس زبان سے معذرت کے ساتھ عرض ہے:
ہائے مقدّس عرَبی زبان الوداع
ہم نہ کرسکے تیری پہچان الوداع
دل ہیں بہت پریشان الوداع
جا اﷲ ہو گاتیر ا نگہبان الوداع
|