اتوار کا دن نہ صرف سرکاری ملازمین اور عام لوگوں کیلئے
آرام و اطمینان کا دن ہوتا ہے کیونکہ اس دن وہ اپنے گھریلو بکھیڑوں شادی
غمی سمیت بچوں کو سیر کیلئے کہیں آسانی پر لے جاسکتے ہیں کیونکہ ایک تو رش
نہیں ہوتی اور دوسری سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو بھی کم ہوتا ہے اور ہمارے
جیسے پیدائشی ملازمین بھی اس دن خبروں کیلئے زیادہ ذہنی تنائو کا شکار نہیں
ہوتے کیونکہ اس دن ایک تو سرکاری دفاتر کی چھٹی ہوتی ہیں تو دوسری طرف
سیاسی پارٹیوں کے لوگ بھی گھر میں آرام سے رہتے ہیں تو صحافی بھی اتوار کے
روز مٹر گشتی کرتے رہتے ہیں لیکن اتوار 26 جنوری کا دن نہ صرف ہمارے پشاور
کے صحافیوں کیلئے ذہنی تنائو کا دن رہا بلکہ اس دن پشاور کے شہریوں نے
مولانا فضل الرحمان کی شان میںجتنی گستاخیاں کی اگر وہ مولانا کو من و عن
پہنچ جائے تو شائد وہ میدان سیاست سے بھی توبہ کرے کیونکہ اسلام لانے کے
دعویداروں نے پشاور شہر کے ٹریفک کا حلیہ ہی بگاڑ دیا یعنی جی ٹی روڈ کو ہر
قسم کی ٹریفک کیلئے انتظامیہ نے بند کردیا اور ان کی پارٹی کو کھلی چھٹی
دیدی کہ مہنگائی بدامنی ڈرون حملوں سمیت متعدد ایشوز پر آکر زندہ اور مردہ
باد کریں انتظامیہ کی کھلی چھٹی کے باعث صبح دس بجے سے شام سات بجے تک جی
ٹی روڈ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند رہا جبکہ سارا زور دلہ زاک روڈ سمیت رنگ
روڈ پر رہا اور شہری سارا دن خوار ہوتے رہے کیونکہ پولیس نے بلاک رکھ کر
شہریوں کرفیو زدہ ماحول میں مبتلا رکھا یعنی اسلام کے نام پر دکانداری کرنے
والے ایک سیاسی پارٹی کا حال ہے - بھائی اگر مظاہرہ بھی کرنا ہے تو اس شہر
کے گرائونڈ بھی ہیں رنگ روڈ بھی ہیں جہاں پر لاکھوں لوگ آسکتے ہیں بڑے شوق
سے جلسے جلوس کریں لیکن اس شہر کے عوام کا ناطقہ تو بند نہ کریں مہنگائی کے
خلاف ہونیوالے مظاہرے پر مولانا کو سلام پیش کرنے کی ضرورت ہے یعنی خود
وفاق میں اتحادی بھی ہیں اور اپنے سمیت تین وزارتوں کے عیاشیاں بھی کررہے
ہیں اور پھر بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں کیا مہنگائی کنٹرول کرنا
صوبائی حکومت کا کام ہے مزے کی بات کہ ایسے ایسے اجنبی اور عید کے نام
رکھنے والے لوگوں نے بڑے بڑے بینرز اور ہولڈنگ سمیت اخبارات میں اسلام لانے
کے دعویدار پارٹی کے جلسے کے حوالے سے لاکھوں روپے کے اشتہارات جاری کئے
تھے جن کے بارے میں بہت ساری چہ میگوئیاں ہورہی ہیں ساتھ میں خواتین کے
کپڑوں پر بھی اعتراض کیا کہ خواتین جینز پہنتی ہیں اللہ کی شان ہے اس شہر
میں اتنی عمر گزر گئی جینز والی عورتیں ہم نے اپنے شہر میں بہت کم ہی دیکھی
ہیں ہمارے ہاں تو شٹل کاک برقعہ ہی چلتا ہے لیکن مولانا نے خواتین کے جینز
کو اپنی تقریر میں اتنا نشانہ بنایا جیسے اسلام میں جینز حرام ہولیکن خیر
پیسے کا اپنا ایک زور ہے جو ہر جگہ چلتا ہے - یعنی اتوار کے روز مولانا کی
پارٹی نے شہر کے وسط میں جلسہ کرکے اپنی دھاک تو بٹھا دی لیکن اس کا زور
عوام سے نکل گیا کیونکہ اس شہر میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کی دن کی دیہاڑی
لگی رہتی ہیں اور اس دن انہیں روزگار بھی نہیں ملا اور نہ یہ ٹرانسپورٹ
روڈوں پر آیا جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ جن میں بزرگ خواتین اور بچے تک
شامل تھے پیدل جاتے ہوئے خصوصی دعائیں مولانااور ان کی پارٹی کی شان میں
کرتے رہیں-
حیرانگی ہمیں تبدیلی والی سرکار کے روئیے پر بھی ہوئی جنہوں نے ایک سیاسی
پارٹی کو روڈ جلسے کیلئے دیدیا کیایہ جمہوریت اورآزادی و تبدیلی ہے کہ
شہریوں کا جینا حرام کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کو آزادی دی جائے حکمران خود
توآرام سے اپنے وی وی آئی پی بنگلوں میں رہے اور بعد میں انہی وی آئی پی
گاڑیوں میں بیٹھ کر حیات آباد پہنچ گئے جہاں انہوں نے بھی آوے اور جاوے کی
سیاست کی ہمارے ہاں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ پہلے جو حکمران تھے وہ دھرنے
اور سیاست نہیں کرتے تھے دل پشوری کرتے تھے اب دل پشوری بھی کرتے ہیں اور
ساتھ میں دھرنے بھی دیتے ہیں سمجھ نہیں آتا کہ ان کے حکمران بن جانے سے
صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کیا فائدہ ملا -خیر سیاسی شعور سے بے بہرہ کچھ
لوگ ان دونوں اطراف کے جلسوں میں شریک ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کے شان میں
گستاخیاں بھی کیں جسے ہم جیسے صحافیوں نے مرچ مصالحہ ملا کر پیش کیا یعنی
کوئی اخبار کیلئے خبر بنا گیا اور کوئی ٹی وی و چینل کیلئے سیاست کے میدان
کے شہ سواروں کی باتیں تو بنا گیا جیسے اس ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ
یہ لیڈر یا پھر سیاست کا میدان ہے کسی نے اس دن تباہ حال معیشت دھماکوں سے
متاثرہ شہر کے شہریوں کے بارے میں نہ تو کچھ لکھا اور نہ ہی انہیں درپیش
مسائل کے بارے میں بات کی ایک پارٹی گلبہار میں بیٹھ کر اسلام کے نام پر
ڈفلی بجاتی رہی تو تبدیلی والی حیات آباد رنگ روڈ پر امریکہ مردہ باد کی
ڈفلی بجاتی رہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوںحکمرانی کے مزے بھی لے رہی
ہیںلیکن اس کے ساتھ افسوس کی بات یہ کہ ایک خاص حد تک لوگ جن کے پاس عقل و
شعور کی کمی ہے دونوں اطراف کے جلسوں میں شریک ہوئے اور آوے اور جاوے زندہ
اور مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے اور ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں
کیلئے سینکڑوں پولیس اہلکار صبح سے شام تک ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے-
حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے اتوار کے روز پشاور کے مختلف
یونین کونسلوں میں پولیو مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کیلئے باقاعدہ
سیکورٹی پلان بھی منظور کیا گیاتھا اور پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں بھی منسوخ
کی گئیںساتھ میں سینکڑوں ٹریفک اہلکاروں کو پولیس لائن پشاور راتوں رات
بلایا گیا تھا کہ صبح ڈیوٹی کیلئے جانا ہے پولیو کے بارے میں حال ہی میں
اخبارات میں پتہ چلا ہے کہ پاکستان اور خصوصا ہمارا شہر وفاٹا اس مہلک
بیماری کا گڑھ ہے اسی وجہ سے اس کی روک تھام کیلئے کوششیں کی جارہی تھی اور
اتوار کے روز چلائی جانیوالی مہم بھی اسی کا حصہ تھی لیکن صبح سویرے پتہ
چلا کہ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر یہ مہم ملتوی کردی گئی اور اگلے اتوار کو
یہ مہم چلائی جائیگی میری طرح کے یار لوگوں نے بڑی بڑی بریکنگ چلا دی کہ
سیکورٹی وجوہات کی بناء پر مہم ختم کردی گئی اور اگلے اتوار کو چلائی
جائیگی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ انتظامیہ کو تبدیلی والی سرکار اور اسلام
کے نام پر سیاست کرنے والے پارٹی کے لیڈروں کا خیال ہے جن کیلئے پولیس کی
ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں جو کہ جلسوں کے دوران ڈیوٹی دینگے سو غریب غرباء کے
بچے اگر پولیو کے قطروں کیلئے ایک ہفتے مزید انتظار کریں تو کوئی مضائقہ
نہیں کیونکہ ایک ساتھ تو تین کام ہونہیں سکتے پولیواتنی اہم تو نہیں
حکمرانی کے مزے کرنے والوں کی سیکورٹی بہت اہم ہے ویسے بھی طالبان بہت
زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں اور حکمرانی میں آنے کے بعد یہ لوگ کچھ زیادہ ہی
نازک ہوجاتے ہیںاور زمین پر خدا بننے کی کوشش میں اوپر کے خدا کو بھول جاتے
ہیں-لیکن جانا تو سب کو اسی زمین کے اندر ہی ہے - خیراتوار کے روز یعنی 26
جنوری کو پشاور شہر کے دو مختلف روڈوں پر سیاسی مداری دکانداری کرتے رہے
پولیس روٹین سے ہٹ کر زیادہ ڈیوٹی انجام دیتی رہی اور غریب شہری ناکوں پر
خوار ہوتے رہے کیونکہ یہ ان کی ازلی قسمت ہے کہ اس سے پہلے بھی حکمران تھے
اور آج بھی تبدیلی والے سے لیکر اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے بھی
حکمران ہیں اور حکمرانوں کے کھیل اور نخرے نرالے ہوتے ہیں-
|