الحمد اللہ رب العلیمن
والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
آج کے اس دود جدید میں جہاں انسان دیگر معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہے وہاں
ایک برائی ایسی بھی ہے جس کا اس کو ذرا بھر احساس نہیں کہ وہ اس میں مبتلا
ہے اور کس حد تک اس میں لت پت ہے ، یہ برائی دیمک کی طرح اس کی روحانیت کو
چاٹتی جا رہی ہے اور اسے احساس تک نہیں ہو پا رہا ۔یہ برائی سرطان کی طرح
اس معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ بڑا ہو یا چھوٹا ، بوڑھا ہو یا جوان ، مرد
ہو یا عورت بمشکل اس برائی سے بچ پا رہے ہوں گے ۔
یہ برائی ہے کیا ؟ یہ برائی ہے زبان کا غلط استعمال ۔
آج کون سوچتا ہے کہ میں جو الفاظ زبان سے ادا کر رہا ہوں ان کی اہمیت کیا
ہے ، ان کا اثر کیا ہے ؟
اسی زبان سے محبتوں کے پھول بھی نچھاورہو سکتے ہیں اور اسی زبان سے نفرتوں
کے نشتر بھی برساۓ جا سکتے ہیں ، حمد باری تعالی و نعت مصطفی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اور درود و سلام کے گجروں سے زبان و دل کی پاکیزگی بھی حاصل ہو
سکتی ہے کوئی زبان کو مغلظات سے نجس بھی کر سکتا ہے ، مگر سوچتا کون ہے؟
مگر زبان کی احتیاط کہاں ہے ؟
بے سوچے بے سمجھے الفاظ نکل رہے ہوتے ہیں
کوئی جھوٹ بول بول کر اپنی عاقبت خراب کر رہا ہے تو کوئی غیبت جیسے کبیرہ
گناہ میں مبتلا ہے ، کسی کو فضول گوئی کی لت لگی ہوئی ہے تو کوئی فحش کلام
ہے، کوئی گب شپ کے نام پر اعلانیہ اپنے گناہوں کو فخریہ بیان کرنے کی برائی
میں مبتلا ہے تو کوئی بناوٹی گفتگو کی بیماری میں مبتلا ہے۔
اور بسا اوقات تو حد یہاں تک بڑھتی ہے کہ زبان سے کفریات نکل رہے ہوتے ہیں،
ضروریات دین کا انکار ہو رہا ہوتا ہے ، اللہ رسول کی بارگاہ میں بے ادبی ہو
رہی ہوتی ہے ،کہیں ہسنے ہسانے کے نام پر فرشتوں پر، قیامت پر لطیفے بنا بنا
کر اور سنا سنا کر بے ادبی کی جارہی ہے ۔کہیں علم کی کمی کی وجہ سے انبیاء
کو اپنے جیسا کہہ کر گستاخی ہو رہی ہے گویا کہ زبان کی بے احتیاطیوں کی بنا
پر وہ دین و ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر احساس تک نہیں ہوتا کہ زبان
کے غلط اور بے سمجھے استعمال کی وجہ وہ گمراہی کے کس گڑھے میں جا گرا ہے ،
نہ دین قائم رہا نہ ایمان اور نہ نکاح قائم رہا اور اگر تجدید ایمان و
تجدید نکاح نہ کیا تو اب جو اولاد ہو گی وہ بھی زنا کی پیداوار اور حرامی ۔
مگر افسوس صد افسوس ، اس نازک ترین اور حساس مسئلے سے کوئی آشنا ہی
نہیں۔۔۔۔
مجھے یہاں اعلی حضرت، امام اہلسنت ، الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی
اللہ عنہ کی ایک بات ، ایک نصیحت یاد آرہی ہے اور شدد سے یاد آرہی ہے جو
انہوں نے اپنے رسالے تمہید ایمان میں ارشاد فرمائی تھی کہ "دیکھو اور گناہ
تو نرے گناہ ہوتے ہیں جن پر عذاب کا استحقاق ہو ، مگر ایمان نہیں جاتا ،
عذاب ہو کر خواہ رب کی رحمت ، حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ،
بے عذاب ہی چھٹکارا ہو جاۓ گا یا ہو سکتا ہے مگر یہ محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کا مقام ہے ، انکی عظمت ، انکی محبت مدار
ایمان ہے قرآن پاک کی آیتیں سن چکے کہ جو اس معاملہ میں کمی کرے اس پر
دونوں جہاں میں خدا کی لعنت ہے دیکھو جب ایمان گیا ، پھر اصلا، ابدالآباد
تک کبھی ، کسی طرح ہرگز ، اصلا ، عذاب شدید سے رہائی نہ ہوگی۔"
یعنی جب کفر بکنے کی وجہ سے یا ضروریات دین کے انکار کی وجہ سے ایمان سے
ہاتھ دھو بیٹھے تو کیا بنے گا ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ مقدر بنے گی ۔ دیکھیں
زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے کہاں تک پہنچا؟
زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے حقوق العباد بھی پامال ہو رہے ہیں ، لوگوں
کی دل آزاری کی جا رہی ہے اور حقوق العباد کو اللہ عزوجل توبہ کے باوجود تب
تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ بندہ جس کے ساتھ ذیادتی ہوئی وہ معاف نہیں
کرے گا۔
علماء کرام (اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ ان کے دامن کرم سے وابستہ رکھے۔آمین)
فرماتے ہیں " کہ تیروں کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں مگر الفاظ کے زخم ہمیشہ
تازے رہتے ہیں"
جب زبان کا معاملہ اتنا حساس ہے تو کبھی بھی زبان سے الفاظ نکالتے وقت بے
توجہی کا شکار نہ ہونا، سوچ کے بولنا ، سمجھ کے گفتگو کرنا ، پھر اس کے جو
شرعی تقاضے ہیں اور آداب ہیں ان کو ملحوظ خاطر رکھنا اور ہر وقت زبان کو
راہ راست پر لگاۓ رکھنا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلے میں اپنی امت کو محتاط کیا
اور زبان کے کردار کو واضح کرتے ہوے اور اسلام میں اس کی حیثیت کو اجاگر
کرتے ہوے ارشاد فرمایا کہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری شریف)
مطلب کیا ہوا کہ انسان کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ سوچ ،
سمجھ کر ، احتیاط سے ، الفاظ کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوے گفتگو کرے کہ
کہیں کسی مسلمان کی غیبت میں مبتلا ہو کر، کسی مسلمان پر الزام لگا کر ،
کسی مسلمان کے متعلق جھوٹ کا ارتکاب کر کے اسکی دل آزاری کا باعث نہ بن جاۓ
اور کسی مسلمان کو نقصان نہ پہنچا بیٹھو۔
زبان کے استعمال میں جو احتیاط برتتا ہے اور خوب سوچ بچار کے بعد الفاظ منہ
سے نکالتا ہے اور ہر لفظ تول کر بولتا ہے اس کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا ارشاد جنت نشان ہے کہ "جو شخص مجھے اپنے دو اعضاء کی ضمانت دے گا میں
اسے جنت کی ضمانت دوں کا، ایک وہ جو دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور
جو اسکی ٹانگوں کے درمیان عضو ہے " (بخاری شریف)
مطلب یہ کہ زبان کے استعمال میں احتیاط کرو گے اور اس پہ قابورکھو گے تو
جنت کے مالک بن جاؤ گےاور اس کی ضمانت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم دے رہے ہیں۔
امام غزالی دحمۃ اللہ علیہ" لباب الاحیاء " کے اندر فرماتے ہیں کہ "جان لو
! زبان کا خطرہ بہت بڑا ہے اور اس سے نجات صرف خاموشی ہے"
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان کے خطرات ہلاکتوں اور تباہ
کاریوں سے بچنے کے لیے ارشاد فرمایا
"جو خاموش رہا اس نے نجات پائی" (ترمذی شریف)
اور ارشاد فرمایا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
خاموشی حکمت ہے اور اسے اختیار کرنے والے کم ہیں (شعب الایمان)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہماری گفتگو پر بھی مئواخذہ
ہو گا؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اے ابن جبل ! تیری
ماں تجھ پر روۓ ، لوگوں کو ان کے نتھنوں کے بل جہنم میں گرانے والی زبان کی
کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو) کے سوا کیا ہے۔ (جامع ترمذی)
آداب زبان کے بارے میں مزید معلو مات کے لیے حضرت علامہ مولانا مفتی ڈاکٹر
اشرف آصف جلالی دامت ارکاتھم العالیہ کی کتاب "آداب زبان " کا مطالعہ
فرمائیں۔ لنک نیچے ہے
https://siratemustaqeem.net/books/f1/f109/index.htm
اور حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف "لباب الاحیاء " کا مطالعہ
فرمائیں
https://www.dawateislami.net/books/bookslibrary.do#!section:bookDetail_247.ur
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی حیاء مبارک کا صدقہ ہمیں گفتگو کہ آداب اور سلیقہ عطا فرماۓ
اور خاموش رہنے کی ہمیں نعمت عطا فرماۓ اور ہماری زبان اللہ و رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے ہر وقت تر رہے ۔۔ آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
طالب دعا و طالب غم مدینہ
سگ بارگاہ غوث و رضا ، ڈاکٹر صفدر علی قادری |