بڑے لوگ اونچے شوق ۔۔۔ڈاکٹر معید پیرزادہ

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒاپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت یزید بن اصمؒ کہتے ہیں شام کاایک آدمی بہت طاقتور اور خوب لڑائی کرنے والا تھا وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں آیا کرتا تھا وہ چند دن حضرت عمر ؓ کو نظرنہ آیا تو فرمایا فلاں ابن فلاں کا کیا ہوا؟لوگوں نے کہااے امیر المومنین! اس نے شراب پینی شروع کر دی ہے اور مسلسل پی رہا ہے حضرت عمرؓ نے اپنے منشی کو بلا کر فرمایا خط لکھو یہ خط عمر بن خطابؓ کی طرف سے فلاں کے نام ۔سلام علیک! میں تمہارے سامنے اس اﷲ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور بڑا انعام واحسان کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر حضرت عمرؓ نے اپنی ساتھیوں سے فرمایا تم لوگ اپنے بھائی کے لئے دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو اپنی طرف متوجہ فرما دے اور اس کو توبہ کی توفیق عطا فرمادے جب اس کے پاس حضرت عمرؓ کا خط پہنچا تو اسے بار بار پڑھنے لگا اور کہنے لگا وہ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ کو قبول کرنیوالا اور سخت سزا دینے والا ہے (اس آیت میں) اﷲ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا ہے اور معاف کرنے کاوعدہ بھی فرمایا ہے۔ ابو نعیم کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ وہ اسے بار بار پڑھتا رہا پھر رونے لگ گیا پھر اس نے شراب پینی چھوڑ دی اور مکمل طور سے چھوڑ دی جب حضرت عمرؓ کو اس کی یہ خبر پہنچی تو فرمایا ایسے کیا کرو جب تم دیکھو کہ تمہارا بھائی پھسل گیا ہے اسے راہ راست پر لاؤ اور اسے اﷲ کی معافی کا یقین دلاؤ اور اﷲ سے دعا کرو کہ اسے توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور تم اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو (اور اسے اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ کرو)۔

قارئین! کہا جاتا ہے کہ بڑے لوگوں کے شوق بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اونچی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اشرافیہ طبقے کے یہ لوگ عام لوگوں سے مختلف زندگی گزارتے ہیں اس اشرافیہ طبقے میں ملک کے حکمران، سیاستدان، جاگیردار، صنعتکار، بڑے بڑے بیورو کریٹس، شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگ اور آج کل قلم کار طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ صحافی بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کے دن مختلف ہیں اور راتیں جدا، ان لوگوں کا انداز زندگی اور طرز فکر عام لوگوں سے بالکل مختلف ہے اسی طرح ان لوگوں کے پسندیدہ شوق بھی عام لوگوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ شہاب نامہ کے مصنف قدرت اﷲ شہاب اپنی تاریخی دستاویز میں لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں کے شوق کیا کیا تھے۔ قدرت اﷲ شہاب نے مہاراجہ ہری سنگھ سے لے کر نواب آف بہاولپور تک اور نواب آف حیدر آباد سے لے کر مختلف ریاستوں کے سربراہان کا تذکرہ بھی کیا ہے اسی طرح اردو صحافت میں ہندوستان وپاکستان کے بڑے بڑے ناموں میں سے ایک دیوان سنگھ مفتون نے بھی اپنی آپ بیتی میں بڑی بڑی ریاستوں کے بڑے بڑے مہاراجوں کا تذکرہ کیا ہے جس سے ان کی زندگیوں کو سمجھنے میں کچھ مدد ملتی ہے۔ قدرت اﷲ شہاب بیورو کریسی کی ناک سیکرٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور دیگر لوگوں کا کچھ نقشہ کھینچتے ہیں اور ایک ضلع کے اندر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی آپس کی پنجہ آزمائی کا بھی کچھ تذکرہ کرتے ہیں کہ جس کے مطابق ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ جب اپنی اپنی طاقتوں کا مقابلہ شروع کرتے ہیں تو عدالت اور ڈپٹی کمشنر کا دربار اونچے اونچے درختوں پر لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور مزید نقصان سے بچنے کے لئے مزید بڑے لوگوں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے پاکستان کا تو سب سے بڑا سانحہ ہی یہی ہے کہ احراریوں اور خاکساروں کی اس مٹی کی تحریکوں کے بعد عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور عنایت اﷲ مشرقی کے بعد قیادت کا ایک فقدان دکھائی دیا اور قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی مسلم لیگ کو ٹوانوں، چٹھوں، چیموں، راجوں اور ایسے لوگوں نے ہائی جیک کر لیا جن کے آباؤ اجداد اور وہ خود انگریزوں کے کتے نہلاتے تھے، گوروں کے گھوڑوں کی مالش کرتے تھے اور انگریز حاکم کے جوتے پالش کرتے تھے یہ غدار وہی تھے کہ جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران مخبریاں کیں اور جن کی غداری کے نتیجے میں بڑے بڑے علماء کرام اور حریت پسندوں کو انگریز نے توپ دم کر دیا، جلاوطن کر دیا اور جلا کر راکھ کر دیا انہی غداریوں کے نتیجے میں یہ لوگ جو کسی بھی حیثیت کے مالک نہ تھے انگریز حاکم نے انہیں جاگیریں دیں، اختیار دیا اور ان کے ناموں کے ساتھ ’’صاحب بہادر، سر، ممبر آف برٹش ایمپائر، آرڈر آف برٹش ایمپائر ‘‘ سمیت دیگر خطابات اور القابات دیئے گئے اور بدقسمتی سے یہی لوگ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہو کر اقتدار کے مالک بن بیٹھے اور انہی لوگوں کے متعلق سردار عبدالرب نشتر نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر یہ شعر کہا تھا
بس اتنی بات پر چھینی گئی تھی رہبری ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
اور انہی لوگوں کے متعلق عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کرچلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح ِبے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

یہ وہی لوگ تھے کہ جنہوں نے بعد ازاں 22گھرانوں سے بڑھ کر 122گھرانے تشکیل دیئے جو آج بھی پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں یہ وہی 122گھرانے ہیں کہ جن کے تمام ارکان ملک کی ایلیٹ کلاس یعنی اشرافیہ کہلاتے ہیں اور اس کلاس میں جاگیردار، صنعتکار، سرمایہ کار، سٹاک ایکسچینج کے مین سٹیک ہولڈرز، بڑے بڑے بیورو کریٹس شامل ہیں۔ قلم کار طبقہ ابھی تک اس ایلیٹ کلاس کا حصہ نہیں بنا اور باوجود کوششوں کے جرنلسٹ برادری ابھی تک حرفِ انکار پر قائم ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا صحافتی طبقہ خطرناک ترین ماحول میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔

قارئین! اس لمبی تمہید کے بعد آئیے اب چلتے ہیں کالم کے موضوع کی جانب۔ ہم نے ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93میرپور کے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی ایک خصوصی قسم کی شرارت پر ایک انتہائی شرارتی قسم کا موضوع اپنے ریڈیو پروگرام کے مذاکرے کا عنوان بنایا ’’ملک کے بڑے بڑے لوگوں کے پسندیدہ شوق کیا ہیں‘‘اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر آزاد کشمیر حکومت عبدالماجد خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کے لوگ مخصوص قسم کی مذہبی اور معاشرتی روایات پر یقین رکھتے ہیں سیاستدان سے لے کر عوام تک کسی کے جنازے میں شرکت کرنا، فاتحہ خوانی کرنا، شادی بیاہ کی محفلوں میں بھرپور انداز میں شریک ہونا اور خوشی غمی کے مختلف مواقع پر ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو بانٹنا ہمارا قومی کھیل ہے یہ بات اپنی جگہ پر کہ وہ لوگ جو سیاست میں ہوتے ہیں وہ سماجی سطح پر لوگوں سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے کی خاطر ان محفلوں میں زیادہ شریک ہوتے ہیں لیکن اس بات کو یہ کہہ دینا کہ یہ سیاسی سٹنٹ ہے درست نہ ہوگا۔ آزاد کشمیر کی نئی نسل اور سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ چوہدری غلام عباس، خورشید حسن خورشید، سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات خان کی زندگیوں سے سبق سیکھیں موجودہ سیاسی قیادت میں راجہ فاروق حیدر خان کا مطالعہ اور ان کی تقاریر اس اعلیٰ معیار کے ہیں کہ میں انتہائی شوق سے ان کی گفتگو سنتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں گفتگو کے دوران کیا۔ پروگرام میں معروف تجزیہ کار ڈاکٹر معید پیرزادہ اور میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ آف ہوم اکنامکس کی چیئرپرسن پروفیسر نسرین طارق نے بھی شرکت کی۔ ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ نے انجام دیئے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے معروف ومشہور تجزیہ کار سینئر صحافی ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہا کہ پاکستان کے سیاستدان اور بڑے لوگ اپنے اپنے شوق کی تکمیل کرتے ہوئے گالف کھیلتے ہیں بڑی بڑی پارٹیز اٹینڈ کرتے ہیں، شادی بیاہ میں شرکت کرتے ہیں ٹی وی پروگراموں میں جانا پسند کرتے ہیں اور جو بات پسند نہیں کرتے وہ عوامی مفاد کے لئے کوئی منصوبہ بندی یا ریسرچ ہے۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ نے کہا کہ میں نے تعلیم کی غرض سے امریکہ اور برطانیہ میں جو وقت گزارہ ہے اس سے میں نے سیکھا ہے کہ ان ممالک کے سیاستدان اور بڑے لوگ عوامی مفاد کے لئے تحقیق کرتے ہیں امریکن صدر جان ایف کینیڈی کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے پاس ایک سو سے زائد نوجوان ریسرچ کے لئے ہوتے تھے جو مختلف بل پاس کرنے کے لئے ریسرچ کرتے رہتے تھے اور روزانہ کی بنیاد پر امریکن صدر کینیڈی کو سفارشات پیش کرتے تھے کہ اس بل کے پاس کرنے سے یہ یہ فوائد حاصل ہونگے پاکستان میں سیاستدان اور دیگر پالیسی میکرز کی اس حوالے سے کارکردگی انتہائی ناقص ہے ڈاکٹر معید نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو پاکستان ایک واحد ملک ہے جو تسلیم کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو اس وقت اس حکومت کو دنیا کے تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای تسلیم کرتے تھے اور اسی طرح ترکی نے جب سائپرس کو یونان سے جنگ کر کے آزاد کروایا تو ترکی کے علاوہ دنیا کے کسی ملک نے سائپرس کی حکومت یا مملکت کو تسلیم نہیں کیا۔ آزاد کشمیر کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے آزاد کشمیر کے سیاستدان اسی وقت بین الاقوامی برادری میں جا کر کشمیر کی آزادی کا کیس پیش کر سکتے ہیں کہ جب پاکستانی حکومت انہیں اس کی اجازت دیتی ہے یا سازگار ماحول فراہم کرتی ہے اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں 1976ء تک ایکٹ 370کے تحت کچھ محکمے خود مختار حیثیت میں کام کر رہے تھے اور مقبوضہ کشمیر میں علامتی طور پر صدر کاعہدہ موجود تھا لیکن بعد ازاں اندرا گاندھی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا اور آج پوری بین الاقوامی برادری کشمیر کے حوالے سے بھارت پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈال رہی کہ جس سے مجبور ہو کر بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہاکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر دونوں اطراف کی سیاسی قیادت کو اگر بھارت اور پاکستان مل بیٹھنے کاموقع دیں اور اپنے مستقبل کے تعین کے لئے کشمیریوں کو خود فیصلہ سازی کا اختیار دیں تو تب ہی اس مسئلے کا حل سامنے آسکتا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ڈاکٹر معید پیرزادہ نے کہا کہ میرا اپنا پسندیدہ ترین شوق یہ ہے کہ میں اپنے فارغ اوقات میں تفریح کے لئے اچھی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور میں تمام اہل وطن کو ایک کتاب پڑھنے کا ضرور کہوں گا جو آج کل میرے زیر مطالعہ ہے ’’دی لاسٹ ہسٹری، The Lost History‘‘ نامی یہ کتاب مائیکل مورگن نامی مصنف نے لکھی ہے اور اس کتاب میں چھٹی صدی سے لے کر سترھویں صدی تک مسلمانوں کی جانب سے سائنس، میتھ، الجبرا، خلائی سائنس، کیمسٹری، فزکس اور دیگر ایجادات میں جو جو کارنامے انجام دیئے گئے ان پر بات کی گئی ہے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسٹ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم اکنامکس کی چیئرپرسن پروفیسر نسرین طارق نے کہا کہ میرے نزدیک وہ صاحب اختیار قابل عزت نہیں ہے جس کے قول وفعل میں تضاد ہے اور جو قوم کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کھڑی کرتا ہے میری نزدیک وہ انسان عظیم انسان ہے کہ جو چاہے جوتے مرمت کرتا ہے لیکن اپنے بچوں کا پیٹ رزق حلال سے پالتا ہے۔

قارئین! یہاں ہم آپ سے بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے خیال میں بڑا آدمی کون ہے اور اس کے شوق کیا کیا ہونے چاہئیں۔ وزیر حکومت عبدالماجد خان کو جب ہم نے بتایا کہ معید پیرزادہ نے یہ بتایا ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے لوگ گالف کھیلنا پسند کرتے ہیں آپ بتائیں کہ کشمیر کے بڑے بڑے لوگ گالف کھیلتے ہیں کہ نہیں اس پر عبدالماجد خان کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے چونکہ آزاد کشمیر میں لینڈ ہولڈنگز کم ہیں اس لئے یہاں پر گالف کھیلنا ممکن نہیں ہے عبدالماجد خان نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر معید پیرزادہ اور ان کے پورے خاندان کو میں انتہائی قریب سے جانتا ہوں اور اس خاندان کے کشمیر پر بڑے بڑے احسانات ہیں اور ذاتی طور پر بحیثیت تجزیہ کار میں ڈاکٹر معید پیرزادہ کی علمیت اور مطالعے کا بہت بڑا فین ہوں اور ان کی گفتگو ہمیشہ انتہائی شوق سے سنتا ہوں ہم اپنے تمام دوستوں سے گزارش کریں گے کہ آج کے اس کالم میں زیر بحث موضوع کے حوالے سے اپنی معلومات اور تجربات کو ہمارے ساتھ شیئر کریں اس کے لئے آپ ہمیں ہمارے ذاتی موبائل نمبر 0341-5192606 اور 0322-5125065پر کال بھی کر سکتے ہیں اور فیس بک پر ہمارا پیج Junaid Ansariلائک کر کے تبصرے بھی کر سکتے ہیں۔

قارئین! کچھ بھی ہو ہمیں ہمارے اجداد نے سکھا یا ہے کہ
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی

رہی بات پاکستان وآزاد کشمیر کی ایلیٹ کلاس کی تو یقین جانیے یہ لوگ انسانی خون پر پلنے والی وہ جونکیں ہیں کہ جو انسانیت کی بقاء پر کسی بھی قسم کا کوئی یقین نہیں رکھتیں یہ میرا اور آپ کاووٹ ہے کہ جو انہیں فیصلہ سازی کی پوزیشن میں لے کر آتا ہے ہمارے ریڈیو پروگرامز میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن، پاکستان کے اربوں روپے کے قرض حسنہ کی سکیم لانچ کرنے والے ڈاکٹر امجد، لارڈ نذیر احمد، عمران خان سے لے کر پاکستان کے بڑے بڑے محسنوں نے انٹرویوزدیتے ہوئے انتہائی درد دل سے قوم سے یہ اپیل کی ہے کہ خدارا اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیے اور فیصلہ سازی کرنے والے سیاستدانوں کو ووٹ سوچ سمجھ کر دیجئے کیونکہ یہی لوگ اگر بے ضمیر اور ایمان فروش ہونگے تو یہ پاکستان کی بنیادیں تک بیچ کھائیں گے اور پوری قوم ان کے شوق کی نذر بالکل اسی طرح ہو جائے گی کہ جس طرح زوال کے دور میں رنگیلے شاہ کے نام کے ایک مغل بادشاہ کے دور اقتدار میں دہلی جل رہا تھا اور بادشاہ سلامت حلوہ پکانے کا آرڈر دے رہے تھے بقول چچا غالب ہم کہتے چلیں کہ
بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیء اشیاء مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریامرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں؟
بیٹھا ہے بتِ آئینہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیء گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ وصہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے ہے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلا مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یو مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو، اچھا مرے آگے

قارئین!یہ ضرب المثل عام ہے کہ جن کے گھر میں دانے ہوتے ہیں ان کے کملے بھی سیانے ہوتے ہیں اصل پنجابی کہاوت کچھ یوں ہے ’’جنہاں دے کار دانے، انہاں دے کملے وی سیانے‘‘ اور یہ بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ غربت اور فاقہ انسان کو کفر تک لے جاتے ہیں۔ پاکستان وآزاد کشمیر کے تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ ایماندار اہل پڑھی لکھی اور دیانتدار قیادت سامنے لائی جائے جو تمام مسئلے حل کرے ڈاکٹر معیدپیرزادہ نے انٹرویو میں یہ بات بھی کہی کہ بطور تجزیہ کار وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کا حالیہ پاکستانی الیکشن میں یہ کارنامہ نہیں ہے کہ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت بنا لی بلکہ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قوم کے پڑھے لکھے طبقے طلباء وطالبات کو ووٹ دینے پر مجبور کر دیا اور یہ پڑھی لکھی نئی نسل ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئی اور سوچ کی اسی تبدیلی اور نوجوانوں کی آواز کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے پاکستان کی وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت بزنس یوتھ قرضہ سکیم، مفت لیپ ٹاپ سکیم اور دیگر منصوبے سامنے لانے پر مجبور ہو چکے ہیں تبدیلی کا یہ پیغام ابھی مزید آگے بڑھے گا اﷲ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں درست قیادت نصیب کرے۔ آمین

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
خانہ جنگی کے دوران امریکی صدر ابراہام لنکن نے ملک کے تمام جرنیلوں کو حکم دیا کہ ہر واقعہ کی رپورٹ مجھے روانہ کی جائے ایک دن ابراہام لنکن کو تار ملا جس میں لکھا تھا
’’جناب عالی! چھ گائیں ہاتھ لگی ہیں ان کا کیا جائے‘‘
ابراہام لنکن نے فوراًجواب لکھا
’’ان کا دودھ نکال کر استعمال میں لایا جائے‘‘

قارئین! ابراہام لنکن کی طرح دیگر ترقی یافتہ اقوام کے سربراہان اور قائدین ترقی کے دودھ کو عوام تک پہنچانے کے لئے شب وروز مطالعہ کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ’’وہ بلّا ‘‘ آج عدالت میں پیش ہونے سے کترا رہا ہے جس نے کھربوں روپے کا دودھ پیا تھا اور ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ لگانے والا یہ جھوٹا جنرل اب پاکستانی ڈاکٹروں پر علاج کی غرض سے اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور امریکہ بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔اﷲ ہمیں لٹیروں سے بچائے اور اچھے لیڈر نصیب کرے۔ آمین

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 375181 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More