حسنین اورنعمان کی عمر14سال ہے‘ دونوں نویں کلاس میں
پڑھتے ہیں‘حارث 13سال کا ہے اور وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے، یہ بچے کیا
سوچتے اور کیا کہتے ہیں آئیے سنیں‘ بچوں کا کہنا ہے، ’’ والدین اور اساتذہ
ہمیں سچ بولنے کی نصیحت کرتے ہیں مگر خود سچ نہیں بولتے، فون آتا ہے تو ابو
کہتے ہیں کہہ دو ابو گھر میں نہیں ہیں، جب ہم چھوٹے تھے تو امی کہتی خاموش
ہوجاؤ ڈوگی آرہا ہے حالانکہ ڈوگی ادھر ہوتاہی نہیں تھا، جھوٹ بول کر ہمیں
کھلایا جاتا اور جھوٹ بول کر ہمیں سلایا جاتا، ابو کا دفتر جانے کا موڈ
نہیں ہوتا تو دفتر فون کرکے کہتے ہیں آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سکول میں
میڈم کہتی ہے میں نے فون کرکے تمہاری ساری حرکتیں تمہارے امی ابو کوبتلادی
ہیں حالانکہ انہوں نے فون نہیں کیا ہوتا ، ہم سبزی فروٹ لینے جاتے ہیں تو
دکاندار کہتا ہے خربوزے بہت میٹھے ہیں ‘ سبزی تازہ ہے اور دودھ بالکل خالص
ہے حالانکہ خربوزے میٹھے ہوتے ہیں نہ سبزی تازہ اور دودھ کے برتن میں پڑی
برف تو سامنے نظر آرہی ہوتی ہے۔ بڑے ہمیں نصیحت کرتے ہیں لڑائی جھگڑا بری
چیز ہے، اس لئے لڑناجھگڑنا نہیں چاہیے مگرہمارے ابو اور چچو آپس میں ناراض
ہیں ان کی تین سال پہلے لڑائی ہوئی تھی، سکول میں اساتذہ آپس میں ناراض
رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو سب کے سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع
کردیتے ہیں، پچھلے دنوں ایک استاد صاحب نے ہیڈماسٹر صاحب سے بہت سخت لڑائی
کی تھی، ہم اپنے بڑوں کو بازاروں اور گاڑیوں میں بھی لڑتے دیکھتے ہیں،
سیاست دان بھی ہر وقت آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔ ہم بچے اگر آپس میں لڑتے ہیں
تو فوراً راضی ہوجاتے ہیں مگر بڑے تو کئی کئی سال تک راضی نہیں ہوتے۔
بڑے ہمیں کہتے ہیں غیبت کرنا سخت گناہ ہے مگر ہمارے والدین بلاناغہ دوسرے
لوگوں خصوصاً رشتہ داروں کی غیبت کرتے ہیں، ہمارے اساتذہ ایک دوسرے کی غیبت
کرتے ہیں اکثر اساتذہ پرنسپل صاحب کی غیبت کرتے ہیں،ہمیں کہا جاتاہے فضول
خرچی نہیں کرنی چاہیے فضول خرچی بری چیز ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں ہمارے
اکثربڑے روزانہ سگریٹ پیتے ہیں حالانکہ ڈبی پر لکھا ہوتا ہے ’’سگریٹ نوشی
صحت کیلئے مضر ہے۔ گاڑیوں اور پارکوں میں سگریٹ پینا منع ہے مگر ہمارے بڑے
سب سے زیادہ سگریٹ پارکوں اور گاڑیوں میں ہی پیتے ہیں، ہمیں کہتے ہیں منہ
میں گندی چیزیں نہیں ڈالنی چاہیں مگر خود منہ میں ہروقت پان یا نسوار رکھتے
ہیں اورمسجد میں آ کر صفوں کے نیچے یا نالیوں میں پھینک دیتے ہیں‘‘۔ہمیں
فضول خرچی سے منع کیا جاتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں جہاں ایک بلب یا ٹیوب سے
کام چل سکتا ہے وہاں گھروں، دفتروں ، سکولوں اور مسجدوں میں کئی کئی بلب
اور ٹیوب لائٹس جل رہی ہوتی ہیں، شادی کے موقع پر پیسے پھینکے جاتے ہیں او
ناچ گانے والوں پر نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے؟ ہم
اخبارا ت میں پڑھتے ہیں ہمارے ملک کے حکمران بہت زیادہ فضول خرچ ہیں وہ بیت
المال کا پیسہ فضول کاموں میں اڑا دیتے ہیں، جہاں ایک گاڑی کی ضرورت ہوتی
ہے وہاں پانچ پانچ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں،قومی خزانے کومال غنیمت سمجھ
کربے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں نصیحت کی جاتی ہے ہم بڑوں کا ادب واحترام
کریں جبکہ ہماری امی ہماری دادی کا بالکل احترام نہیں کرتیں، کہتی ہیں یہ
بڈھی کب مرے گی، ہمارے نئے اساتذہ پرانے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے، کلاس
میں کہتے ہیں یہ کب ریٹائرڈ ہوں گے کہ ہماری ترقی ہوگی، اب انہیں سکول کی
جان چھوڑ دینی چاہیے، ٹیلی ویژن میں روزانہ ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں
جن میں عورتیں اورمرد اپنے بڑوں سے لڑائی کررہے ہوتے ہیں وہ اپنے ماں باپ
کو کہہ رہے ہوتے ہیں آپ پرانے زمانے کے لوگ ہیں، آپ کو کیا پتہ نئے دور کے
تقاضے کیاہیں،ہمارے سکول میں ایک بڑی عمر کے مالی ہیں ان کی داڑھی سفید ہے،
پرنسپل اور سارے اساتذہ ان کو کرمو کہہ کر بلاتے ہیں، اساتذہ کے دیکھا
دیکھی طلباء نے بھی اس بزرگ کو کرمو کہہ کر بلانا شروع کردیا ہے۔
ہمیں چوری سے منع کیا جاتاہے مگرہم دیکھتے ہیں ہمارے بڑے کیسی کیسی چوریاں
کرتے ہیں،بڑے بجلی چوری کرتے ہیں پانی چوری کرتے ہیں گیس چوری کرتے ہیں اور
نہ جانیں کیا کیا چوری کرتے ہیں، ہمارے اساتذہ عموماً پیریڈ میں لیٹ آتے
ہیں اور تھوڑا بہت پڑھانے کے بعد کہتے ہیں جو سمجھ میں نہ آئے شام کو ٹیوشن
کیلئے آؤ گے تو سمجھ لینا، کیا اساتذہ کا وقت پر نہ آنا اور اچھی طرح نہ
پڑھانا چوری نہیں ہے؟ہماری کتابوں میں لکھاہے ہمیں قانون کی پاسداری کرنی
چاہیے مگر ہم روزانہ کتنے بڑوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سگنل توڑ کر گزرجاتے
ہیں، اگر پولیس والے گاڑی کو روک لیں تو ڈرائیور کنڈیکٹر کو کہتا ہے جاؤ
تیس چالیس روپے اسے دے آؤ وہ کاپی میں پیسے رکھ کر پولیس والے کے پاس جاتا
ہے اور آکر کہتا چلو استاد جی ہڈی ڈال آیا ہوں۔ ہمیں وقت کی پابندی کرنے کی
تلقین کی جاتی ہے مگر ہمارے بڑے وقت کی پابندی نہیں کرتے، نہ دفتر وقت پر
جاتے ہیں، نہ شادی میں وقت پر آتے ہیں، نہ تقریبات میں مہمان خصوصی وقت پر
آتے ہیں، نہ جہاز وقت پر اڑتاہے، نہ ٹرین وقت پر آتی ہے اور نہ بس وقت پر
روانہ ہوتی ہے،ہم روزانہ دیکھتے ہیں سٹرک پر پولیس والے بے چارے چارچار
گھنٹے کھڑے رہتے ہیں اس لئے کہ وی وی آئی پیز وقت پر نہیں آتے، وقت کی قدر
کوئی بھی نہیں کرتابس سارے باتیں ہی کرتے ہیں۔ ہمیں نصیحت کی جاتی ہے نیک
کام کرنے چاہیں، نیک کام کرنے سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے مگر ہمارے بڑے نیک
کام تو دور کی بات نماز بھی نہیں پڑھتے،اذان ہورہی ہوتی اس کے باوجود سب
اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوتے ہیں، کئی سارے لوگ تو رمضان میں روزے بھی
نہیں رکھتے اورزکوٰۃ تو بہت کم لوگ دیتے ہیں اسی طرح حقوق العباد کا خیال
بھی نہیں رکھتے ‘پورے ملک میں سینما، وڈیوکی دکانیں اورکلب بھی بڑوں ہی نے
کھول رکھے ہیں۔ ہمیں کہا جاتاہے دھوکہ نہیں دینا چاہیے مگر جب ہم دکان پر
جاتے ہیں تو دکاندار ہمیں بچہ سمجھ کر خراب فروٹ اور گھٹیا چیزیں دے دیتے
ہیں، سکول میں اساتذہ کہتے ہیں اگر یہ کام کرکے دکھاؤ گے تو تمہیں انعام
دیا جائے گا، جب ہم وہ کام کرلیتے ہیں تو کہتے ہیں اچھا ابھی یہ کام بھی
کرلو تو پھر انعام ملے گا مگر انعام پھر بھی نہیں ملتا۔ ہمیں صفائی کی
نصیحت کی جاتی ہے مگر آپ بتائیں کیا گھروں سے باہر کوڑا کرکٹ ہم پھینکتے
ہیں؟ کیا گلیوں میں اورسٹرکوں پر پانی ہم چھوڑتے ہیں؟ کیا پارکوں میں سگریٹ
کے پیکٹ، منرل واٹر کی بوتلیں، جوس کے ڈبے، شاپنگ بیگ ہم پھینکتے ہیں؟ہمیں
کہا جاتاہے ہم محنت کرکے بڑے آدمی بن جائیں گے مگر ہم محنت کیوں کریں؟ ہم
سوچتے ہیں اگر ہم محنت کرکے بڑے آدمی بن گے تو کہیں ہمارا حشر بھی بھٹو،
ضیاء الحق، ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر سلطان بشیرالدین، حکیم سعید، مصحف علی
میر اور جنرل آصف نواز کی طرح نہ ہو۔
انکل! بات یہ ہے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں ان حالات میں اور اس ماحول میں پروان
چڑھ کر ہم اچھے انسان بن جائیں گے تو یہ محال ہے، ہم8 کروڑ بچے وہی کچھ
سیکھ رہے ہیں جو ہمارے 10کروڑ بڑے کررہے ہیں، ہمارے بڑے جھوٹ بولتے ہیں،
غیبت کرتے ہیں، لڑتے جھگڑتے ہیں، فضول خرچی کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، چوری
کرتے ہیں، قانون کا احترام نہیں کرتے، وقت کی پابندی نہیں کرتے، بڑوں
کااحترام نہیں کرتے، صفائی کا خیال نہیں رکھتے، رشوت لیتے ہیں، کرپشن کرتے
ہیں، میرٹ کا خیال نہیں کرتے، جی بھرکرقومی خزانہ لوٹتے ہیں، وعدہ پورا
نہیں کرتے، ظلم و زیادتی کرتے ہیں توایسے ماحول میں پل بڑھ کر ہم اچھے
انسان کیسے بنیں گے؟؟؟ انکل! اگر ہمارے بڑے چاہتے ہیں ہم اچھے انسان بنیں
تو پہلے خودانہیں اچھا بننا پڑے گا۔ اگربڑے خود اچھے نہیں بنتے توپھر ہمیں
نصیحتیں کرنے کا کوئی فائدہ ہوگا اور نہ ہی بڑوں کو ہم سے کوئی توقع رکھنی
چاہیئے ‘‘۔ نوٹ: حسب وعدہ بچوں کے اصل نام نہیں لکھے گئے۔ |