پاکستان اسلامی جمہوریت کے نام پہ وجود میں آیا،اس کو
بنانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نام نہاد آزادیاں حاصل کر لی جائیں بلکہ اس
کے بنانے کا مقصد یہ تھا کہ انگریز اور ہندودں سے اور ان کے طرز زندگی سے
مکمل طور پر آزادی حاصل کر لی جائے،تاکہ ہم بحثیت مسلمان اپنے الگ اور
جداگانہ تشخص کے مطابق اپنی زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دے کر اپنی اور اپنی
آنے والی نسلوں کو اس راستے کی طرف گامزن کر سکیں جس کا درس نبی آخرازماںﷺ
نے دیا۔مگر آج وہی آزادی ہمیں ڈس رہی ہے۔پاکستان کو فری سیکس سوسائٹی بنانے
کی سازشیں روز افزوں زور پکڑ رہی ہیں۔یہ سارا کام ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ
بتدریج اس کام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔سب سے پہلے پرایئویٹ سکول تعمیر کیے
گئے،بڑا خوبصور ت اور دلکش تعلیمی نظام متعارف کروایا گیا،حقوق نسواں بل
پاس کروائے گئے۔۔۔اور ان پرایئویٹ اداروں کو غیرملکی ایڈ دی گئ اور دی جا
رہی ہے تاکہ وہ ان کے بنائے ہوئے ایجنڈے کو فروغ دے کر ہماری نوجوان نسل کی
سوچ،کردار اور ان کی پوری زندگی کا ڈھانچہ بدل دے۔مشرف حکومت گویا کہ اس
کیل کو ٹھونکنے کا آخری مرحلہ تھا،کیبل کا آنا،مخلوط طرز فکر پر مشتمل
ڈرامے اور فلموں کا آغاز،یہ سب اسی ایک شخص کے ذریعے کروایا گیا،مشرف دور
میں سارا سٹیج تیار کر لیا گیا بلکہ کراچی کے ایک داود پبلک سکول میں بطور
آزمائش سکرپٹ بھی چلا دیا گیا۔۱۹۰۶ ءاس سکول میں سب سے پہلے ایک کتاب
متعارف کراوائی گئی،جس میں سیکس کے حوالے سے مواد موجود تھا،پھر ۲۰۰۹ ء میں
گوجرانوالہ میں ۱۹۰۰۰ لڑکیوں کو خواب کی تعبیر نامی کتاب اور کچھ میٹریل
پڑھایا گیا۔جو کہ بعد میں منظر عام پرآیا۔پھر حال ہی میں لاہور گرائمر سکول
میں والدین سے مشورہ کیے بغیر بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جانے لگی،جب والدین
کو پتہ چلا تو ان کے احتجاج پر اس کو بند کر دیا گیا۔۔۔اب ہم یہ دیکھتے ہیں
کہ یہ سیکس ایجوکیشن کا ایجنڈا کیا ہے؟اسے پاکستان میں کیوں متعارف کروایا
جا رہا ہے؟اس کی بنیاد کیا ہے؟
ایس آر ایچ آر ایک اصطلاح ہے جو آج کل سننے میں آ رہی ہے۔
Sexual and reproductive health and rights
جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق میں چار چیزٰں شامل ہیں
1. جنسی حق
2. جنسی صحت
3. تولیدی حق
4. تولیدی صحت
اقوام نتحدہ نے جنسی صحت کی تعریف اپنے ایک کتابچے میں دی ہے جس کے سر ورق
پر دو ہم جنس پرست لڑکوں کی تصویر دی ہے۔اس کتابچے کی رو سے باہم رضامندی
سے شادی کرنا ایک مسلمہ جنسی حق ہے۔اور باہمی رضامندی سے بغیر شادی کے جنسی
تعلق قائم کرنا بھی ایک حق ہے۔ہم جنس پرستی بھی یک حق ہے اور اگرماں باپ
اولاد سے یا اولاد ماں باپ سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے تو یہ بھی ایک حق
ہے۔اور اگر کوئی ان حقوق کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو یہ جرم ہہے۔ایسے لوگوں
کو جنسی آزادی کے تحت عدم برداشت کی تعلیم دینا چاہیے۔
اس آر ایچ آر کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے میڈیا کے ذریعے سٹیج بنایا جا
رہا ہے،ترکی ڈراموں کا پاکستان میں آغاز اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔کیونکہ ترکی
وہ واحد ملک ہے جس نے مغربی اصولوں پر چل کر ترقی کی ہے۔لہذا ان کو رول
ماڈل کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔تشدد بل اور حقوق نسواں بل کا خاتمہ بھی
اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔تشدد بل کےذریعے بچوں کو کھلی چھٹی دے دی گئ کہ سختی
کرنے اور مارنے پر والدین کوبھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے۔اور یہ دونوں کام
بتدریج اور مہارت کے ساتھ کیے گئے۔پاکستان میں بہت سی این جی اوز اس
گھناونے کام مین شریک ہیں،حال ہی میں حیات نامی ایک این جی او نے اپنے
سائیٹ پر اس حوالے سے مواد شائع کیا اور صرف یہی نہیں بلکہ مخلتلف مکاتب
فکر کت علماء کو دھوکے کے ساتھ اپنے ساتھ ملا گیا ان سے چند سوال پوچھ کر
بعا ازاں انھیں جنسی حقوق کے پمفلٹ پر ان کے نام کے ساتھ شائع کیا گیا،یہ
سارا ڈرامہ ایک ریڈیو پروگرام میں بے نقاب ہوا۔
لہذا ان حالات میں بہت ضروری ہو گیاہے کہ اس پر تحریک چلائی جائے تاکہ
ہماری نسلیں گمراہی سے بچ سکیں۔اس مقصد کے لیے دینی تعلیم اور تربیت جو
بچوں کو دی جانی چاہیے ضرور دیں۔ اور جنسی حقوق کے جس بات کو مغرب جواز بنا
کر یہ گند مچانا چاہ رہے،اس پر بھی غور کرنا چاہیے وہ یہ کے مائیں بیٹیوں
کو اور باپ بیٹوں کو جنسی مسائل سے آگاہ کریں،ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ بچے
ماں باپ کے علاوہ باقی سب سے اس ایشو پہ بات کر رہے ہوتے ہیں،ماں باپ کو اس
پہلو پہ بھی سوچنا چاہیے،جلدی شادی کو رواج دینا چاہیے۔مخلوط معاشرہ اور
مخلوط تعلیم کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے، اللہ ہماری نسلوں کی عزت و آبرو کی
حفاظت کریں اور ہم سب کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق دے۔۔آمین |