’’ انسان نے پرندوں کی طرح آسمان پر اڑنا،
مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ لیا، پر نہ سیکھا تو ایک انسان کی طرح
انسان بننا نہ سیکھ سکا‘‘۔ یہ جملے کس حد تک درست ہیں اس بارے میں کچھ نہیں
کہا جاسکتا۔ البتہ موجودہ معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو ان جملوں کی حقیقت
محسوس ہوتی ہے۔ ہم خود کو انسان کہتے ہیں، سمجھتے ہیں، مگر یہ بات واقعی
میں قابل غور ہے کہ ہم نے انسان بننے کے بارے میں نہیں سوچا۔ انسان وہ ہے
جس میں انسانیت ہے۔ انسانیت اور حیوانیت میں تھوڑا سا ہی فرق ہے۔ جب کسی
انسان میں انسانیت ختم ہوجاتی ہے تو وہ سطح انسان سے نیچے سطح حیوان کے
زمرے میں آجاتا ہے۔
میں کون ہوں․․․․․․ میری پہچان کیا ہے ․․․․․․․ ؟ اگر میں انسان ہوں تو کیا
واقعی مجھ میں انسانیت ہے․․․․․․؟ یہ وہ سوال ہیں جن کاجواب ڈھونڈنا ہے۔ اگر
آج ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے انسان اپنی تخلیق کو
بھلا بیٹھا ہے۔ یعنی اپنی پہچان کو بھول گیا ہے۔ کیوں کہ اگر انسان خود کو
پہچان لے تو معاشرے کی بہت سی برائیوں نہ صرف اس کی پہچان کی وجہ سے ختم
ہوجائیں بلکہ خود اسے بھی بہت سا فائدہ حاصل ہو۔
ہماری تخلیق اﷲ تعالیٰ نے جس انداز میں کی ہے اسے قرآن کریم میں متعدد بار
دہرایا گیا ہے۔ اگر ہم اپنی تخلیق کے بارے میں جان لیں تو یقینا بہت سے غلط
کاموں سے بچ جائیں۔’’انسان کو بدبو دار گندے پانی سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ (القرآن)
انسان کتنا بھی بلندیوں پر چلا جائے مگر اس کی تخلیق وہیں جو قرآن نے بیان
کردی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہم خود کو بھول کر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔
یہ تنقید کب کی جاتی ہے جب کرنے والا اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ جب وہ یہ
بھول جاتا ہے کہ آیا وہ جس پر تنقید کر رہا ہے کیا وہ اس بات پر خود عمل
پیرا ہے۔ اگر وہ ہے تو کیا اس کے گھر کے افراد ہیں۔ چلیں سب ہیں تو کم از
کم اس میں کوئی دوسری برائی ہوگی جو تنقید کیے جانے والے پر شاید نہیں
ہو۔دوسروں میں عیب نکالنا، برائیاں کرنا اور حقارت کا مظاہرہ کرنا الغرض یہ
تمام چیزیں تبھی سامنے آتے ہیں جب فاعل غلط فہمی کا شکار ہوکر خود کو کچھ
سمجھ رہا ہوتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ انسان ہو اور غلطی نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ، انسان
غلطیاں ضرور کرتا ہے اور یہیں وہ غلطیاں ہیں جن پر تنقید کی جارہی ہوتی
ہے۔یہ غلطیاں ہر انسان کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے وہ کہیں نہ کہیں کبھی نہ
کبھی ضرور کرتا ہے۔ ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ’’غلطی عقل مند بھی کرتا ہے
،بے وقوف بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عقل مند اپنی غلطی کو چھپانے میں مہارت
رکھتا ہوتا ہے جبھی وہ نظروں میں نہیں آتا جبکہ بے وقوف ظاہر کر بیٹھتا ہے۔
بات ہورہی تھی کہ ہم خود کو بھول کر دوسروں پر تنقید کردیتے ہیں۔ تنقید
کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں، کچھ اخلاقیات
ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے تنقید کی جائے تو وہ تنقید برائے اصلاح ہوتی
ہے، جس کے ساتھ اصلاح کا ارادہ کر رہے ہوں گے اس انداز کہ وہ بھی پسند کرے
گا، بصورت دیگر وہ اس اصلاح کے دوسرے طریقے کو اپنی بے عزتی اور توہین
سمجھے گا۔ ہر چیز کا ایک محل و وقوعہ ہوتا ہے۔ کب اور کہاں بات کرنی ہے،
کسے سمجھانا ہے اور کیسے سمجھانا ہے۔ یہ ساری باتیں مد نظر رکھتے ہوئے جب
کسی کی اصلاح کریں گے تو شاید اس انداز سے اصلاح کا محتاج بات کو ناصرف
توجہ سے سنے گا بلکہ وہ عمل بھی کرے گا۔
ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ بس رہے ہیں۔ ایک تو وہ جو اپنے آپ کو بہت
بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہیں وجہ ہوتی ہے
کہ وہ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی کو بھی خاطر میں نہیں
لاتے اور یہ ان کے کم ظرف ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ اﷲ نے ہمیں ایک آدم سے
پیدا کیا ہے۔ ہم سب کا مقام برابر ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز
یہ سبق ہمیں نماز اور حج سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ ان دونوں مقامات پر کوئی کسی
سے بڑا نہیں ہوتا۔ سب برابر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کسی کا مقام زیادہ نہیں ہے۔
اگر فوری طور پر اﷲ نے کسی کو برتری عطا کی ہے تو وہ اس کی آزمائش ہوسکتی
ہے کہ آیا وہ اسے کس انداز میں بسر کرتا ہے۔ اسی لئے کسی کو حقیر سمجھتے
ہوئے کبھی بھی فخر نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بیچارے ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا وجود اس
دھرتی پر بوجھ ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے
نفرت کرتے ہیں۔ اکثر سننے میں آتا کہ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے۔ مجھے خود کو
اچھا نہیں لگتا اور ناجانے کیا کچھ۔ یہ وہ افرد ہوتے ہیں جو احساس کمتری کا
شکار ہوتے ہیں۔ جو ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ جو ان کے پڑوس میں ہے اس کے پاس
کیوں نہیں۔ وہ خوبصورت ہے تو یہ زیادہ خوبصورت کیوں نہیں۔ اس کے پاس اتنے
پیسے کیوں نہیں کہ وہ بھی بیرون ممالک جاکر عیش و عشرت کر سکے چلیں اتنے
پیسے نہ سہی کم سے کم اس کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کچھ تو رقم
ہو۔ وہ بیٹھے بیٹھے اکثر جذباتی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کا اختتام ان سے
مایوسی کے اظہار میں سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ وہ
بیکار میں دنیا میں آگئے ہیں۔ کیا فائدہ ہے ان کی پیدائش کا جب ان کے پاس
کچھ بھی تو نہیں ہے۔
حالانکہ تھوڑا سا فرق ہوتا ہے، پہلے والے افراد اور ان میں ۔ وہ اس پر
اتراتے ہیں کہ ان کے پاس دنیا کی ہر سہولت ہے اور یہ اس پر کہ ان کے پاس
کچھ نہیں ہے۔ اب اگر حساب لگایا جائے کہ ان دونوں قسم کے افراد میں ٹھیک
کون ہے تو دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ یہ اپنی خلقت پر تنقید کرتے ہیں، اپنی ذات
کو نشانہ بناتے ہیں اور وہ دوسروں کی ذات کو نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔
سوال پھر وہیں آجاتا ہے کہ ان دونوں قسم کے افراد نے خود کو پہچانا ہی نہیں
ہے۔ اگر وہ پہچان لے تو کبھی فخر نہ کرے، کبھی کسی کو برا نہ سمجھے، کبھی
کسی تحقیر نہ کرے۔ اسی طرح اگر یہ سمجھ لیں تو یہ کبھی خود کو کمتر محسوس
نہ کریں۔ بھلا یہ کس بات پر خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔ اﷲ نے صحیح سالم ہاتھ
پاؤں دئیے ہیں۔ اچھا بھلا خوبصورت چہرہ ہے۔ گھر ہے، خاندان ہے، بھائی ہیں
بہنیں رشتے دار ہیں معاشرے میں پہچان ہے، لوگ جانتے ہیں۔ تعلیم ہے، ڈگری ہے
سب کچھ تو ہے۔ کیا کبھی اس نے یہ سوچا کہ اﷲ نے اسے بھوکا سلا دیا ہو ،
ایسے بھی تو ہیں جو کئی دن تک بھوکے رہتے ہیں۔ کبھی اس کا ایک ہاتھ کام
کرنا چھوڑ گیا، ایسے بھی تو جن کے دونوں ہاتھ شروع سے ہی نہیں۔ خوبصورت شکل
و صورت ہے، ایسے بھی تو ہیں جن کے چہرے مسخ ہیں۔
یقینا یہ سب کچھ ہے تو پھر اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر
کیوں قناعت نہیں کرتے جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ یہ دیکھنے اور سوچنے کی بجائے
کہ فلاں ایسا ہے فلاں کے پاس سب کچھ ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ ہم جیسے ہیں
بہت اچھے ہیں۔ ہماری یہ حالت بہتوں سے اچھی ہے۔ اگر آج ہم میانہ روی اور یہ
جان لیں کہ ہم ہر حال میں ٹھیک ہیں تو کبھی مایوس نہ ہوں۔ یاد رکھیں ملتا
وہیں ہے جو ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے بس خود کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ہم
ہمیشہ خوش رہیں گے۔ |