پھر دیر ہوچکی ہوگی

ملک کا کونہ کونہ چھلنی ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک کوئی علاقہ نہیں بچا جہاں دہشت گردوں نے اپنا خونیں کھیل کھیلا نہ ہو۔ یہ کھیل گزشتہ دہائی سے جاری ہے اور دہشت گرد اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر اس کی شدت میں کمی بیشی لاتے رہتے ہیں ۔ اب پھر دہشت گردی کی لہر شدت اختیار کر گئی ہے۔ کراچی سے خیبر تک کوئی ان وحشی درندوں کی مذموم کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہا۔ بنوں میں فرنٹیر کور کے 24جوانوں کی شہادت کے بعد، پشاور اور راولپنڈی میں اسی نوعیت کے حملوں اور دھماکوں کی اس لہر نے ایک مرتبہ پھر ملک وقوم کو لہو میں نہلا دیاہے۔ اس سے پہلے بھی ہم کئی بار اس قسم کی خونیں بھنور کا شکار ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہنگو میں ایک کھلونا بم پھٹنے سے ایک ہی خاندان کے چھ بچے شہید ہوگئے۔ اس علاقے میں پہلے بھی کھلونا بم بہت سے معصوم بچوں کی جان لے چکے ہیں۔ بہت سی ماؤں کی گود اجاڑ چکے ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہ خونیں لہر بلند ہوئی۔ مستونگ میں زائرین کی بس دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ جس میں 25افراد شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ بھی نیا نہیں تھا۔ماضی میں بھی اس علاقے میں اسی قسم کے بہت سے افسوسناک واقعات پیش آچکے ہیں۔ یہ بھی انہی کا تسلسل تھا۔ دہشت گردی کی اس لزرزہ خیز واردات میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء نے اپنے پیاروں کی نعشوں کو سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کیا۔ان کا یہ احتجاج شدید سردی میں کئی گھنٹے جاری رہا۔ اس طرح کا احتجاج اور مظاہرہ وہ پہلے بھی کرچکے ہیں۔وہ پہلے بھی فریاد کرچکے ہیں کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
اس طرح ملک کے کونے کونے میں لگی دہشت گردی کی یہ خوفناک آگ کسی کو نہیں دیکھ رہی۔کسی کا لحاظ، کسی کا پاس نہیں کررہی۔ یہ اس قدر بے قابو ہوچکی ہے کہ لپیٹ میں آنے والی ہر چیز کو بھسم کرتی چلی جارہی ہے۔مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان،عورتیں بچے، مسجدمندر، گھر دکان، گلی محلہ، شہر گاؤں کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ طالبان اور دہشت گرد گروپ بڑے دھڑلے اور سینہ زوری سے ظلم کے اس کھیل تماشے کی کی ذمہ داری قبول کرتے جارہے ہیں۔

مگر ہم اب بھی اس جنگ کو اپنی جنگ ماننے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے ہم اب بھی تقسیم ہیں۔ ہماری سوچ تذبذب کا شکار ہے۔ ہمارے دلوں اور دماغوں میں اب بھی کنفیوژن ہے۔ہمارے26ہزار فوجی افسر اور جوان، سول سیکورٹی اداروں کے اہلکار اور کارکن اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بہت سے شہریوں سے زندگی چھین لی گئی ہے۔ جو ان دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں زخمی ہوئے، ان میں سے بہت سے معذور ہوچکے۔ جن کے پیارے ان سے بچھڑے وہ زندہ درگورہوچکے ہیں۔ لیکن افسوس ہم میں سے بہت سے لوگ اب بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وہ اب بھی بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ ان کی جنگ نہیں ہے۔ وہ اب بھی اس مغالطے کا شکار ہیں کہ ان دہشت گردوں کو مذاکرات سے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ انہیں اب بھی یہ غلط فہمی ہے کہ دہشت گرد مذاکرات کے بعد شریف شہری بن جائیں گے۔ وہ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ دہشت گرد اس ملک کے آئین کا احترام کریں گے ۔ کاش ایسا ہو۔ مگر بھئی، ان دہشت گردوں کی لڑائی ہی پاکستان کے آئین اور نظریے کے خلاف ہے۔ اگر وہ مذاکرات سے رام ہوگئے تو لڑائی کس بات کی۔ وہ تو دلیل کی بجائے زور اور طاقت پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ تو پاکستان میں اپنی مرضی کا نظام لانا چاہتے ہیں۔وہ تو پاکستان اور اس کے اداروں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی لئے تو مذاکرات کا دعوت نامہ بھی انہوں نے بنوں کے ایف سی جوانوں کے خون سے تحریر کیا ہے۔

ان حقائق کے باوجود جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں وہ ہنگو میں اس بدقسمت ماں سے پوچھیں جس کی ساری کلیاں ایک ہی پل میں مسل دی گئیں۔ ان سے پوچھیں جن کے پیارے پشاور، راولپنڈی اور مستونگ دھماکوں میں بھک سے اڑا دیئے گئے۔ان کی اداسی اور کرب آپ کو یہ بتائے گا کہ یہ کس کی جنگ ہے۔ اس تمام تباہی اور بربادی کے پس منظر میں ان کی کنفیوژن پرکف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہ ان کی سیاست کا تقاضا ہو، مصلحت ہو یا خوف․․․ یہ طے ہے کہ ہم کنفیوز ہیں کنفیوژن پیدا کررہے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ طالبان ہرگز کنفیوژن میں نہیں ۔ وہ ریاست پاکستان کو جس طے شدہ ایجنڈے کے تحت کمزور بنانے کے متمنی ہیں، عین اس پر بڑی دیدیہ دلیری سے عمل پیرا ہیں اور ہماری تفریق، معاندانہ رویوں اور عدم اتحاد سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ہنس رہے ہیں کہ ہم نے اس قوم کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجاتے چلے جارہے ہیں اور اب بھی یہ ہماری جنگ نہیں پر مصر ہیں۔

چلیں ہم سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ محو تماشہ ہوجاتے ہیں اور ان دہشت گردوں کو مذموم کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی دہراتے رہتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے خواہ دہشت گردہمارے وطن پاکستان اس کے اداروں ، شہریوں اور قومی وقار کی تمام علامتوں کو ایک ایک کرکے ختم کردیں۔ شاید ہماری آنکھیں تب کھلیں اور ہمارا کنفیوژن اس وقت ختم ہو جب یہ دہشت گرد خدانخواستہ اک دن ہمارے گلی محلوں میں ہمارے بچوں کو بارودی کھلونا ’’تھما‘ جائیں گے ۔ اگر وقت ہماری آنکھ کھلی تو بہت دیرہو چکی ہوگی۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 38871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.