برمی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا

انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ میانمار میں بودھ مذہب کے ماننے والے انتہاپسندوں نے صرف دو سالوں میں ۵۲ ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل کرکیا ۔فسادات کے دوران بڑی تعداد میں مسلم خواتین کو عصمت دری کے بعد قتل ،جب کہ سینکڑوں مساجد کو نذر آتش کیا گیا ۔مسلمانوں کے قتل عام میں سیکورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔ بعض دیگر رپورٹوں کے حقیقی اعداد شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا دوبارہ آغاز مارچ ۱۱۰۲ میں ہوا۔مارچ کے آخری ہفتے میں ۰۰۱ کے قریب مسلمانوں کو گولی مار دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق میانمر سے ۰۵ ہزار سے زائد مسلمان ہجرت کر چکے ہیں، ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش،بھارت،تھائی لینڈ،ملائیشیاء اور انڈونیشیا منتقل ہو گئے، جہاں انھیں قانونی مسائل کا سامناہے۔بنگلہ دیش سمیت بعض ممالک نے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے ۔بودھ مت کے دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسز کے سامنے مسلمانوں کو قتل کیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بودھ مذہب کے پیروکاروں نے مسلمانوں کی املاک کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ امریکی تجزیہ کار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ملک میں ۹۲۹ تحریکیں بودھ مذہب کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔تاحال مسلم دنیا کے کسی بھی رہنما نے مشکلات کا شکار اس ملک کا دورہ کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام ۰۵ سال سے جاری ہے لیکن ۱۱۰۲ کے دوران اس میں شدت آئی ہے ،اس سے قبل اقوام متحدہ نے گذشتہ روز اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ریاست رکھائن میں گذشتہ ہفتے ہونے والے فسادات میں ۸۴ روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب یہ خبر پھیلی کہ روہنگیا مسلمانوں کے بنگلہ دیش ہجرت کرنے کے دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا ہے۔اس افواہ کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔مقامی بدھوں نے سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں ایک گاؤں پر دھاوا بول کر ۸۴مسلمانوں کا قتل کر دیا۔انسانی حقوق کے گروپ ’’فورٹی فائی رائٹس ‘‘نے دعوی کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران سلسلے وار حملے کیے گئے تاہم حکومت اور مقامی حکام نے قتل و غارت کے دعوں کو مسترد کر دیا۔

سینئر صحافی امیر حمزہ لکھتے ہیں جب میں برما گیا تو وہاں موجود ایک نوجوان محمد یونس جس کی عمر تقریباً19برس تھی مجھے بتلانے لگا ۔میرے والد کا نام محمد امین ہے بڑے نیک انسان ہیں وہ علاقے میں تبلیغ کیا کرتے تھے تمبر ولاو میں رہتے تھے ۔وہاں ایک روز میں اپنے والد کے ہمراہ بازار جا رہا تھا ،اس وقت میری عمر کوئی تیرہ برس کے لگ بھگ تھی اچانک برمی فوجی آئے اور میرے والد کو پکڑ لیااور باریش والد کو تھپڑ مارنا شروع ہو گئے، پھر تلاشی لینا شروع کی تو میر ے والد کی جیب سے دوسوا کیات (برمی سکہ) نکلے۔انہوں نے وہ بھی رکھ لیے اور پھر میرے والد کو کہنے لگے اذان دو والد نے ڈرتے ہوئے اذان کہی،ابھی اﷲ اکبر کہا ہی تھا کہ بدھ فوجی نے اپنے بوٹ کا ٹھڈا میرے ابا جی کے منہ پر مارا۔ ابا جی گر پڑے سارا بازار دیکھ رہاپھر وہ اٹھے تو فوجی کہنے لگے چلے جاؤ،چلے جاؤ،یہاں سے اور یوں ہم باپ بیٹا روتے ہوئے اپنے مولا سے فریادیں کرتے ہوئے گھر چلے آئے حقیقت یہی ہے ۔سڑکوں ،گلیوں اور بازاروں میں ہمارے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے ان کا مقصد ہے کہ ہم برمی مسلمان یہاں سے بھاگ جائیں اراکان مسلمانوں سے پاک ہو جائے۔

خواتین کی نیلسن مینڈیلا ،آنگ سان سوچی کے دیس میں مسلمانوں پر ہونے والے حملے اور ہجرت کوئی نئی بات نہیں۔ 1978میں بھی مسلمان آبادی پر ہونے والے حملوں کے بعد تین لاکھ مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 1982ء میں برمی حکومت نے مسلمانوں پر ایک اور بم اس وقت گرایا جب اس نے ملک میں موجود تمام مسلمانوں کو اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ برما میں موجود تمام مسلمان تارکین وطن ہیں ،انہیں یہاں کی شہریت نہیں دی جا سکتی ۔1992ء میں برما حکومت کی حکم پرپولیس نے بنگلہ دیش میں سے واپس آنے والے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد سے مسلمانوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے ،اسی طرح بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے بھی کسم پرسی کی زند گی گزار رہے ہیں خیمہ بستیوں میں صفائی کے فقدان کے باعث ملیریا اور دست جیسے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ بہرکیف برما میں گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلمانوں کیخلاف دہشت گردوں کی کاروائیوں کے باوجود عالم اسلام کی جانب سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آ یا۔تاہم بعض ممالک میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل آیا۔کچھ عرصہ قبل شروع ہونے والے فسادات کی ابتداروہنگیا کی ایک بودھ لڑکی کے اسلام قبول کر نے سے شروع ہوئے تھے۔ بودھ مت کے ماننے والے اب یہ کہاں برداشت کر سکتے تھے انہوں نے لڑکی کو قتل کر کے اس کے اغوا اور پھر زیادتی و قتل کا الزام مسلمانوں پر لگا دیا۔ تین مسلم نوجوانو کو گرفتار کیا گیا 28مئی کو مسلمانوں نے پولیس تھانے کے باہر یہ کہہ کر چھوٹا سا مظاہرہ کیاکہ ان بے گناہوں کو رہاکیا جائے۔3جون کو دارالحکومت رنگون سے آنے والی ایک تبلیغی جماعت جو یہاں سے واپس جا رہی تھی کی بس کو بدھ مت کے پیروکاروں نے روک لیے اور پھر ساری جماعت کو اتار کر قتل کر دیا۔ساتھ ہی کئی ایک کے سر اور چہرے مونڈھ کر انہیں سرخ چولے پہنا کر ہنگامہ کر دیا کہ مسلمانوں نے بودھ راہب کو شاگردوں کے ہمراہ قتل کر دیا۔ بس پھر کیا تھا چار اطراف سے بودھ مت کے پیروکاریہاں ٹوٹ پڑے، ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے تلواریں تھیں سریے تھے۔ جو ان کے سامنے آیا اسے کاٹ کر رکھدیا ۔ صرف ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں 30ہزار سے زائد بے کس و بے بس مسلمان عورتیں بچے اور بوڑھے بے دردی سے ما ر دئیے گئے مسلمانوں کی 700سے زائد جھونپڑیاں جلا دی گئی تھی۔ ہزاروں قرآن نذر آتش کیے گئے۔ صورتحال یہ تھی کہ سارے علاقے کے ندی نالوں جنگلات ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھی ۔ مسلم دنیا میں شام،مصر،عراق،فلسطین،افغانستان اور دیگر ممالک میں خون کے ارزانی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے مذہبی و سیاسی رہنما سر جوڑ کر اس مسئلہ کا حل تلاش کیوں نہیں کرتے،کب تک یوں ہی معصوموں کا خون بہتا رہے گا؟
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54940 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More