اعلیٰ انتظامی سربراہان کے دفاتر
میں امتناع سگریٹ نوشی کے قانون کو دھوئیں میں اڑا دیا گیا،پبلک مقامات پر
سگریٹ نوشی میں نمایاں اضافہ سکولز،کالجز میں اساتذہ "دوسروں کو نصیحت خود
میاں فضیحت "کی مثال بن کے رہ گئے ، چند سال پہلے این جی اوز کے بھرپور
احتجاج اور اقوام متحدہ کے ادارے WHOکے دباؤ پر حکومت پاکستان نے سگریٹ
نوشی کے خلاف آرڈینس /قانون بنایا جسکے مطابق پبلک مقامات ،خاص طور پر
سکولز/کالجز , بس اسٹینڈ ،ریلوے اسٹیشن ،دفاتر میں سگریٹ نوشی پر پابندی
لاگو کرتے ہوئے جرمانے بھی تجویز کیے گئے۔
ـ"Health Ordinance, 2002 (Ordinance No. LXXIV of 2002), governs multiple
areas of tobacco control, including restrictions on public smoking,
sales to minors, and tobacco advertising, promotion and sponsorship.
Several other pieces of legislation augment the terms of this primary
ordinance. With regard to smoke free policies, the Motor Vehicles
Ordinance, 1965 provides the definition of “public service vehicle,” a
definition used in the 2002 Ordinance’s ban of the use of tobacco
products in vehicles meeting that definition. In addition, SRO
653(I)/2003 lists additional places as "places of the public work or
use" to be included in that ban on the use of tobacco products and SRO
51(KE)/2009 requires all of such places to be 100% smoke free. In terms
of tobacco advertising, promotion and sponsorship, SRO 655(I)/2003
establishes the Committee on Tobacco Advertisement Guidelines. The
Committee issued advertisement guidelines in Notification F.13-5/2003,
SRO 882(I)/2007, and, most recently, SRO 53(KE)/2009. Also in exercise
of the powers conferred in the 2002 Ordinance, SRO 863(I)/2010
established the Prohibition of Sale of Cigarettes to Minors Rules, 2010.
These rules place duties on manufacturers, importers, and retail sellers
to take steps to protect against targeting minors and the sale of
cigarettes to minors. Finally, SRO 654(I)/2003 and SRO 277(I)/2011
identify those individuals who are authorized to enforce the 2002
Ordinance."
اس قانون کو پاس کرنے والی حکومت کے سربراہان اگرچہ خود بھی سگریٹ ،سگار کے
دلدادہ تھے لیکن خواتین ،نوعمر بچے،سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس قانون کو
خوش آئند قرار دیااس قانون پر عمل درآمدکروانا اتنا آسان نہ تھا جس بات کا
خدشہ تھا وہی ہوا میں اکثر تقریبات اور کانفرنسز میں اس بات کا اظہار برملا
کیا کرتا تھا کی قانون پر عمل درآمد کروانے والے اداروں کے کرتا دھرتا اس
قانون پرخود عمل نہیں کر پائیں گے تو وہ عام شخص کو کیسے اس کا پابندکریں
گے؟جی ہاں البتہ حکومتی اداروں نے اس قانون کی تشہیر اور دفاتر پر بورڈ
لگوانے پر لاکھوں ضرورخرچ کر دیے ۔آج 2014میں اس قانون کی دھجیاں بکھیرنے
میں حکومتی اداروں کے سربراہان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اعلیٰ
نتظامی سربراہان کے دفاتر میں سگریٹ نوشی معمول کا حصہ بن چکا ہے سگریٹ
نوشی کے قانون کو دھوئیں میں اڑا دیا گیا ہے پبلک مقامات ،بس اسٹینڈ،ریلوے
اسٹیشن ،پر سگریٹ نوشی منع ہے کا بورڈسگریٹ کے دھوئیں میں دھند لا چکا ہے
سگریٹ نوش نوجوان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے امتناع سگریٹ
نوشی کے اشتہارات نے سگریٹ نوش پر کوئی اثر نہیں چھوڑا جسکی وجہ حکومتی
اداروں کے سربراہان کا غیر سنجیدہ رویہ ہے جن میں سے اکثر سگریٹ نوشی اپنے
دفاتر اوقات میں فخر سے کرتے نظرآتے ہیں اساتذہ کا کردار کسی بھی معاشرے
میں مثبت تبدیلیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے لیکن افسوس جنھوں
نے نونہالاںِ وطن کے کردار کی آبیاری کرنی تھی وہ خود سکولز ،کالجز کے
اوقات میں دھوئیں کے غول میں اپنی نصیحتوں ں کو اُڑاتے نظر آئیں گے ۔اس
قانون پرمکمل عمل درآمد اسی صورت ممکن ہے جب قانون کے رکھوالے اور حکومتی
اداروں کے سربراہان خود اس پر عمل پیرا ہوں ٭ |