بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’عدل‘‘ سے مراد کسی کا اپنی حدود میں رہناہے،اس کا مترادف لفظ ’’انصاف‘‘
بولاجاتاہے جس کا مطلب آدھاآدھاکرنا ہے ۔معاشرتی قوانین میں عدل سے مراد
مدعی کو اس کا حق دلوانا ہے اور اگر عدالت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو
متنازعہ شے کو آدھاآدھا تقسیم کر دینا انصاف ہے جس سے کسی حدتک فریقین کی
داد رسی ممکن ہوجاتی ہے۔ظلم اورطاغوت دو ایسے الفاظ ہیں جو عدل کے متضاد کے
طور پر بولے جاتے ہیں،طاغوت کا لفظ طغیانی سے نکلا ہے جو دریاکی اس حالت کو
کہتے ہیں جب وہ اپنی حدود سے باہر آجائے اور ظلم کا لفظی مطلب اگرچہ
اندھیراہے لیکن اس کا مفہوم بھی طاغوت سے ملتاجلتاہے کہ جب کوئی اپنی جائز
حدود سے متجاوز ہوجائے تو کہاجاتا ہے کہ وہ ظالم ہو گیاہے۔اگر ’’عدل‘‘کامطلب
حدودمیں رہنااور ’’ظلم کا مطلب حدود سے باہر نکل جانا ہے توسوال یہ ہے کہ
’’حدود‘‘کیاہیں اور انہیں کون مقررکرنے کا اختیار رکھتاہے؟؟اگر یہ اختیار
انسان کو دیا جائے تو آخر ایک انسان کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے کے لیے
’’حدود‘‘مقررکرے؟دولت ،رنگ،نسل،اقتدار،صحت اور علم وغیرہ کی برتریاں وہ
تفوقات ہیں جو انسانوں کو دوسرے انسانوں کے لیے قانون سازی کا اختیار دیتی
ہیں،لیکن ان بنیادوں پر جب بھی حدود مقرر کی گئی ہیں وہ ہمیشہ ظلم پر ہی
مبنی رہی ہیں اور ان کی مدد سے کبھی عدل و انصاف کی منزل حاصل نہیں کی
جاسکی۔جس طرح طالب علموں کے لیے کوئی طالب علم قانون نہیں بناسکتااور جس
طرح قیدیوں کے لیے کوئی قیدی قانون نہیں بناسکتااور مسافروں کے لیے کوئی
مسافر قانون نہیں بناتااسی طرح انسانی معاشرے کے لیے کوئی انسان اگر قانون
بنائے گا تو ظلم سے اس قانون بنانے کا آغاز کرے گا کیونکہ اپنے ہی جیسے
دیگر انسانوں کے لیے قانون بناکر وہ اپنی حد سے آگے بڑھ رہاہوگا۔
پھرجس طرح طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص قانون بنائے جس کے لیے سب
طالب علم برابر ہوں اور قیدیوں کے لیے وہ فردقانون بنائے جس کے مفادات
قیدیوں سے جداہوں اور مسافروں،مزدوروں،ملازموں وغیرہ سب کے لیے وہ قانون
سازی قبول ہو گی جو ایسے شخص کے ذریعے سے ہو جس کا ان طبقات سے کوئی مفاد
وابسطہ نہ ہو کیونکہ قانون سازی میں مفادات یاتعصبات داخل ہوجائیں توعدل کا
امکان جاتارہتاہے،بالکل اسی طرح انسانی معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایسی
ہستی قانون بنائے جو انسانوں سے بالاتر ہو اور کل انسانوں سے اسکا کوئی
مفاد یاکوئی تعصب وابسطہ نہ ہو۔ایسی ہستی کا انسانوں میں سے ہونا ناممکن ہے
کیونکہ جب بھی کوئی انسان دوسرے انسانوں کے لیے قانون بنائے گااور حدودکا
تعین کرے گاتووہ اپنی ذات کے لیے،اپنے خاندان اور نسل کے لیے یا اپنی قوم
اور علاقے کے لیے ضرور کوئی ڈنڈی مار جائے گا۔دنیابھر میں سب مذاہب ایسے
قوانین پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں دعوی کیاجاتا ہے کہ وہ آفاقی قوانین
ہیں اور کسی بالاترقوت نے انسانوں کے لیے بنائے ہیں۔بجاطور پر جب وہ قوانین
نازل ہوئے تھے تو حق و عدل پر ہی مبنی تھے لیکن بعد میں انسانوں نے ان
قوانین میں اپنے لیے مراعات داخل کر دیں اور برہمنیت سمیت کتنے ہی قوانین
ان مذاہب میں پائے جاتے ہیں جو صرف کسی ایک طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے
ہیں۔اسلام کے قوانین اس لحاظ سے بے مثل ہیں کہ اس کی بنیادی کتاب قرآن مجید
میں آج تک کوئی تغیروتبدل نہیں پیش کیاجاسکااور یہ قوانین اور حدوداس لیے
بھی عدل پر مبنی ہیں کہ ان میں کسی ایک طبقے،فرقے،نسل یاگروہ کے مفادات کا
تحفظ نہیں کیاگیا۔کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا فنڈ ’’زکوۃ‘‘ہے
اور نبی علیہ السلام تعلیمات وحی کی بنیادپراپنی ہی اولاد کو زکوۃ سے محروم
کر گئے یہ محض ایک مثال ہے کہ جس سے دیگ کا ایک چاول چکھ کر اندازہ
کیاجاسکتاہے کہ یہ قوانین اور حدود محض حق و عدل پر مبنی ہیں اور کوئی
انسانی عنصر ان میں داخل نہیں ہے۔
میثاق مدینہ ی دستاویزکو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتاہے کہ عدل اجتماعی کی اس
بڑھ کر کوئی نظیر نہیں ہو سکتی،تاریخ میں پہلی بار ایک علاقے کو کسی تحریر
کاپابندبنایاگیااور اس کے حکمران اور وہاں پر رہنے والے گروہ جو مذہب کے
اعتبارسے،نسل کے اعتبارسے اور کسی حد تک زبان کے اعتبار سے بھی مختلف تھے
لیکن سب مل کر ایک دستورکے پابندہوئے۔آپ ﷺ نے معاشرے کے اندر ان
اقدارکورواج دیا کہ پساہواطبقہ اوپر آتاچلاگیااور خاص طور پرعدل و انصاف کے
میدان میں رنگ،نسل،زبان حتی کہ مذہب کو بھی خاطر میں نہیں لائے اورمدعی اور
مدعاعلیہ کے درمیان محض حق کی بنیادپر فیصلے صادر فرمائے جس کہ کئی مثالیں
کتب سیرت میں موجود ہیں۔خود اﷲ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’اے نبی ﷺ ہم
نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ آپ اﷲ تعالی کی عطاکردہ
دانش کے مطابق لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور دغابازوں کے حامی
نہ بنیں۔‘‘سورۃ نساء آیت105۔اپنے آخری خطبے میں آپ نے واضع طور فرمادیاکہ
تمہارے خون،تمہاری عزتیں اور تمہارے مال ایسے ہی محترم ہیں جیسے کہ آج کا
یہ دن محترم و مقدس ہے پھر آپ ﷺ نے قرآن مجید کی وہ آیت پڑھی کہ کسی عربی
کو عجمی پر اورکسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے اور تم
سب آدم کی اولاد ہواورآدم مٹی سے بنے تھے۔
خلافت راشدہ میں اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر انسانی معاشرے نے عدل اجتماعی
کا مظاہرہ دیکھا۔تاریخ انسانی میں سب سے پہلے ایساہواکہ کسی حکمران نے اپنی
نسل سے ہٹ کر محض معیار کی بنیادپر کسی غیر کو اپنا جانشین نامزدکیاہواور
پھر یہ سلسلہ چارمسلسل حکمرانوں تک چلا۔خلافت راشدہ کے دوران تاریخ انسانی
میں پہلی مرتبہ عدلیہ کو انتظامیہ سے جداکیاگیااور قاضیوں کومکمل آزادی کے
ساتھ عدل وانصاف کرنے کا موقع فراہم کیاگیا،تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ
ایسا ہوا کہ شہری پولیس کو فوج سے الگ کردیاگیا اور شہریوں کو فوج کے
ناروارویے سے محفوظ و مامون کر دیااور کل انسانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
اس آسمان نے دیکھا کہ حکمران وقت کو عدالت نے طلب کیااور اسکے خلاف فیصلہ
صادرکیااور حکمران نے اس پر کوئی اظہار ناپسندیدگی نہیں کیا۔خلافت راشدہ کے
نظام میں کوئی روڈ ٹیکس نہ تھا اور پوری اسلامی سلطنت میں ایک کونے سے
دوسرے کونے تک بغیر کسی چونگی محصول کے تاجر حضرات سفر کیاکرتے تھے اور
پولیس کو یہ اجازت نہ تھی کہ کسی شہری کو روک کر اسکی جامہ تلاشی شروع کر
دے سوائے کسی حتمی اطلاع کے۔
اسلامی تاریخ اس لحاظ سے پوری انسانی تاریخ سے جدا ہے کہ یہاں کے معاشروں
میں عدل اجتماعی کا مظاہرہ ہوتارہا۔مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دوراقتدارمیں
غلام بھی اپنی قابلیت و لیاقت کی بنیادپر مسنداقتدارتک پہنچے جبکہ یہ مواقع
کسی اور مذہب یا تہذیب نے اس طبقے کو فراہم نہیں کیے چنانچہ ہندوستان میں
خاندان غلاماں تخت کی زینت بناجس میں ایک بادشاہ کی وفات کے بعد سرداران
قوم جمع ہوتے اور خلافت راشدہ کی طرزپر کسی دوسرے اہل تر شخص کو مسند
اقتدارپر بٹھادیتے اور گزشتہ بادشاہ کی اولااور خاندان منہ دیکھتے رہ
جاتے،مصر میں مملوک خاندان کی حکومت بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔شورائیت
اور بیت المال کے تصورنے تو اسلام کے عدل اجتماعی کو گویا چارچاند لگا دیے
ہیں۔بادشاہ وقت خود جمعہ کا خطبہ دیتااور پنج وقتہ نماز مسلمانوں کے درمیان
آن کراداکرتا،جب ہر مسلمان اپنے حکمران تک پہنچ رکھتاتھاتو کسی سرکاری عہدے
دارکو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ کسی پر ظلم کاکوڑا برسا سکے اورنتیجے کے
طورپر معاشرے کے اندرعدل و انصاف کا دوردورہ رہتاتھا۔
ایک آدمی آیا اور بادشاہ وقت سلطان محمود غزنوی سے شکایت کی کہ رات گئے ایک
بدمعاش میرے گھرگھس آتاہے اور میری بیوی سے زبردستی زیادتی کرتاہے۔بادشاہ
نے کہا کہ اب جیسے ہی وہ آئے مجھے بلا لینا،رات گئے وہ آدمی آیااور بادشاہ
ننگی تلوار لیے اسکے ہمراہ ہولیا،بادشاہ دروازے کی بجائے دیوار پھلانگ کر
اسکے گھر میں داخل ہوا،کمرے میں داخل ہوتے ہی چراغ گل کردیا،اس بدمعاش کو
پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا پھر اسکی شکل دیکھ کر شکر الحمداﷲ
پڑھااور گھروالے سے کہا کہ مجھے فوراََ پانی پلاؤ۔گھر والے نے پوچھا آپ
دیوار پھلانگ کر کیوں آئے،بادشاہ نے کہا دروازے سے داخل ہونے پر وہ کھٹکا
سن کر بھاگ جاتا،پھر گھروالے نے پوچھاآپ نے چراغ کیوں بجھادیااس نے جواب
دیا کہ میرا خیال تھا کہ یہ میرا بیٹاہی ہو سکتاہے جو شہزادگی کے خمار میں
یہ حرکت کرتاہو سو میں نے چراغ بجھادیا کہ انصاف کی راہ میں شفقت پدری حائل
نہ ہو،گھروالے نے پوچھا آپ نے اسکی شکل دیکھ کر شکر الحمداﷲ کیوں پڑھا
،بادشاہ نے جواب دیاکیوں کہ وہ میرا بیٹا نہ تھاتب آخر میں گھر والے نے
پوچھا کہ آپ نے پانی کیوں مانگاتو سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ جب سے تم نے
مجھے شکایت لگائی تب سے میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک تمہارے ساتھ انصاف
نہ کرلوں گا کچھ بھی کھانا پینا نہیں کروں گا۔
تف ہے سیکولر تہذیب کے ان اداروں پر جنہیں
جمہوریت،پارلیمان،اسمبلیاں،عدالتیں ،ذیلی عدالتیں،پولیس ،فوج،اور عالمی
عدالت انصاف،اقوام متحدہ،انٹرپول اور نہ جانے کیاکیااور کیسے کیسے قوانین
اور میڈیا کی بھرمارشورشرابادھوم دھڑپا،مزاکرات،معاہدات،قراردادیں اور
سینکڑوں قسم کی قانون سازیاں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیامیں مشرق سے
مغرب تک دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانی خون بہ رہا ہے ،غربت اورجہالت
انسان کو ننگاناچ نچوارہی ہیں اگردنیاکے کسی حصے میں خوشحالی نظر بھی آتی
ہے تو سود اور سرمادانہ معیشیت نے وہاں کے لوگوں کی نیندیں اور آرام و سکون
برباد کر دیے ہیں ،جنسیت اور بے راہ روی نے انسانوں کے اندرون تک سیاہ کر
ڈالے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ اوپر بیٹھے ہوئے انسان ہی انسانوں کے لیے قانون
سازی کرتے ہیں ،آج بھی عدل اجتماعی ممکن ہے مگر صرف اس سوتے سے جہاں سے
کوثر اور سلسبیل کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ |