زنا بالجبر ایک ایسا فعل ہے جس
کی سزا موت ہونی چاہیے۔ جنسی زیادتی ایک بھیانک جرم ہے۔ قتل سے بھی زیادہ
سنگین جرم۔ قتل کی صورت میں تو ایک بارجان چھین لی جاتی ہے، جب کہ جنسی
درندگی کا نشانہ بننے والا جسم بار بار مرتا ہے۔ اس کی روح کو اس طرح نوچا
گیا ہوتا ہے کہ وہ گھائل روح زندگی کی طرف کبھی نہیں لوٹ پاتی۔ جسم تو زندہ
رہتا ہے لیکن وجود مرجاتا ہے۔
کسی بھی انسان کے قتل کا کوئی جواز ہوسکتا ہے، مگر کسی کو بے عزت کرنے کا
کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا، سوائے اس کے کہ انسانیت درندگی کی غلام بن
جائے۔
میں یہ بات بہ بانگ دہل کہتی ہوں کہ اس درندگی کے مرتکب شخص کو سرعام
پھانسی دی جائے، تاکہ آئندہ کوئی کسی کی زندگی کو گدھ بن کر نوچنے کی ہمت
نہ کرسکے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق زنابالجبر کے مجرم کی سزا عمر قید ہے۔
یعنی زیادہ سے زیادہ چوبیس سال قید۔ یہ عرصہ دن رات ملا کر بارہ سال ہوجاتا
ہے۔
اس معاملے میں اول تو جرم ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے، کیوں کہ جائے وقوع
پر چار عاقل بالغ افراد کا موجود ہونا ضروری ہے، جو کہ اس سنگین جرم کے
حوالے سے فقط ایک مذاق ہے۔ وہ عورت جو زیادتی کا نشانہ بنتی ہے، کیس ممکن
ہے کہ وہ زیادتی کا نشانہ بننے سے پہلے چار گواہ اکٹھے کرے اور پھر ظلم کا
شکار ہو۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں بھی جہالت کا سارا سامان ہم نے
ایک گٹھری میں باندھ رکھا ہے اور ہمارا قانون اس گٹھری کو سر پر رکھے ناچ
رہا ہے۔ چار گواہوں یا گواہیوں کی یہ شرط دراصل صرف زنابالرضا کے لیے ہے،
اور بعض علماء اس کی مصلحت یہ بتاتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے
جہاں کم از کم بے حیائی عام یا کھلے عام نہ ہو۔ جہاں تک زنا بالجبرکا تعلق
ہے تو یہ ایک اور طرح کا جرم اور نہایت خوف ناک ظلم ہے۔
اﷲ تعالی نے انسان کو عقل، سمجھ بوجھ دے کر پیدا کیا، ورنہ انسان اور جانور
میں کیا فرق رہ جاتااور آج ہم اس دور میں رہتے ہوئے بھی حالات اور تقاضوں
کو ایک طرف رکھ کر زنابالجبر کا جرم ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی بات
کرتے ہیں۔ قارئین! لمحہ بھر کے لیے سوچیے، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدا جو
انسان سے بے حد محبت کرتا ہے اپنے دین میں ایسے سخت قوانین دے سکتا ہے،
ہرگز نہیں۔ یہ قتل نہیںِ، یہ چوری نہیں، یہ ڈاکا نہیں، یہ روح کو زخم زخم
کردینے والا وار ہے۔ یہ عورت کی بدترین تذلیل ہے۔ یہ معصوم بچوں کی معصومیت
چھین لینے والا بھیانک فعل ہے۔ ایک سنگین جرم، تو ہم آج کے سائنس اور
ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہوئے زنابالجبر کے مقدمات میں ڈی این اے رپورٹ
کی گواہی کو کیوں کر مسترد کرسکتے ہیں۔
کاش کہ ہمارا قانون اس عقلِ سلیم کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے جو اﷲ
تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے۔
کچھ دنوں پہلے آبروریزی کے حوالے سے بنائے گئے قانون میں ترمیم کا ایک بل
سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت جنسی زیادتی کے مقدمات میں ناقص تفتیش
پر بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس تجویز کو قانون کی شکل اختیار کرنی
چاہیے، مگر سزا تو آپ اس وقت تجویز کریں جب ان پر عمل درآمد کیا جارہا ہو،
یہاں تو جرم ثابت ہی نہیں ہوتا۔
انسدادِ زنابالجبر کے ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ تھانے، اسپتال،
دارالعلوم اور فلاحی اداروں سمیت کسی بھی جگہ کوئی سرکاری اہل کار اپنے
زیرنگرانی کسی خاتون یا کسی بھی شخص کے ساتھ زنابالجبر کا مرتکب ہو تو اسے
سزائے موت یا عمرقید کی سزا دی جائے۔ اس بل میں کم عمر بچوں اور حاملہ
خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے اہل کاروں کے لیے بھی موت یا عمر قید
کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ترمیمی بل میں اجتماعی زیادتی کے مرتکب ایسے اہل
کار جن کے عزائم مشترک ہوں، کے لیے بھی یہی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ بل
کہتا ہے کہ زنابالجبر کا شکار عورت یا متاثرہ شخص کا نام ظاہر نہ کیا جائے
اور نہ ہی اخبارات میں شایع کیا جائے۔ ایسا کرنے والے کو دو سال قید یا
جرمانے کی سزا دی جائے۔ ساتھ ہی زنابالجبر کے مقدمے میں بہ طور تفتیشی افسر
فرائض میں کوتاہی اور عدالت میں مقدمے کی مناسب پیروی نہ کرنے کے عمل کو
جرم مانا جائے۔ ایسی کوتاہی کے مرتکب اہل کاروں کو تین سال کی سزا دی جائے
اور ان پر جرمانہ عاید کیا جائے۔ ترمیمی بل کے اس مسودے کے تحت عدالتوں کو
پابند کیا گیا ہے کہ مقدمے کی کارروائی مکمل کرکے چھے مہینے کے اندر فیصلہ
سنائیں۔ تاخیر کی صورت میں متاثرہ شخص کو متعلقہ ہائی کورٹ میں مقدمہ جلد
نمٹانے کے لیے درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں یہی تو اچھی بات ہے کہ یہاں قوانین بہت بنائے جاتے
ہیں․․․لیکن ان پر عمل کم کم ہی ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے کے بعد ایک
فرد جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے، جب کہ ہر چار سے آٹھ دنوں میں اجتماعی
زیادتی کا ایک واقعہ سامنے آتا ہے۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو رپورٹ کیے جاتے
ہیں، کیس کا سامنے نہ آنا اور متاثرہ خاتون کا خاموش رہنا جرم کو چھاپنے
میں کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کو بے انتہا مسائل
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں تعلیم کی کمی بھی اس قسم کے جرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ہمارے یہاں، خاص طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں، چوں کہ جنس کی
بنیاد پر مرد کو برتر تصور کیا جاتا ہے اور عورت کو صرف ایک شے سمجھا جاتا
ہے، اس لیے زورآور مرد عورت کو زیادتی کا نشانہ بنانے جیسے فعل پر بھی
شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ مردوں کو فوقیت دینے والے ہمارے سماج میں یہ خیال
تقویت پاچکا ہے کہ عورت فقط ایک ایسی شے ہے جسے صرف مرد کے جنسی فوائد حاصل
کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
دوسری طرف جرم کرنے والا یہ بات جانتا ہے کہ اس کا جرم ثابت نہیں ہوسکے گا
اور اگر ثابت ہوبھی گیا تو اپنے اثرورسوخ کی بنا پر وہ سزا سے بچ جائے گا۔
ایسے کتنے کیس ہیں جن میں زیادتی کرنے والے نے سزا پائی ہو یا اپنی سزا کی
مدت مکمل کی ہو۔ کوئی بھی سفارش اور پیسہ اسے بچانے کے لیے کافی ہے۔
جنسیات وہ موضوع ہے جس پر ہمارے معاشرے میں کھل کر بات نہیں کی جاتی، جب کہ
ہم میں سے ہر ایک اس حقیقت سے واقف ہے کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک تنزلی کا
شکار ہوچکا ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر اور این جی اوز اس
طرح کے معلوماتی پمفلٹ شایع اور آگاہی کے پروگرام مرتب کریں، جن میں جنسی
بے راہ روی کے نقصانات کے بارے میں بتایا جائے اور خواتین کی عزت اور
احترام سے متعلق بنیادی باتوں کا شعور دیا جائے۔ ساتھ ہی خواتین کو بھی اس
بارے میں آگاہی دی جائے کہ وہ کس حد تک کسی غیرمرد سے رابطے میں رہیں، تاکہ
انھیں اپنی حدود کا علم اور حفاظت کا خیال رہے۔
پاکستان میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا پر
دکھائے جانے والے ہیجان انگیز مناظر بھی ہیں۔ ایسے مناظر جنس کی طرف مائل
افراد کی نفسیات پر بہرحال اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں
بڑے سے بڑا جرم کرنے والے بھی سزا سے بچ نکلتے ہوں، وہاں یہ مناظر بھی کسی
انسان کو درندہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔
حکومت ہو، میڈیا یا معاشرہ، اپنے سماج کو اس درندگی سے بچانے کے لیے ہم سب
کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو کتنی ہی عزتوں کو پامال کرچکی ہے۔ |