آج میں لکھنا تو کچھ اور چاہتاتھا مگر لکھنے کچھ اور بیٹھ گیا ہوں، اَب میں
اِس اُمید کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ آج کا میرا یہ کالم بھی میرے پڑھنے والوں
کو ضرورپسند آئے گا،اَب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ”زندگی “ پانچ حرفوں ” ز،
ن ، د ، گ، اور ی “کا ایک خُوبصورت اور حسین مرکب ہے اور جب ہم اِن پانچ
حرفوں کو ملاتے ہیں توروئے زمین پر ہر سانس لینے والی مخلوق کے لئے ایک
انتہائی خُوبصورت اور حسین لفظ ”زندگی“ وجود میں آتاہے، یہی وہ دلکش اور
دلفریب لفظ زندگی ہے جس سے متعلق دنیا بھر کے ہر مذہب و ملت اور ہر رنگ و
تہذیب کے اہلِ دانش نے اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں ایسے اقوال زریں پیش
کئے ہیں کہ اِنسانیت زندگی کوکچھ سمجھ پائی ہے اور کچھ سمجھنے سے بھی
قاصررہی ہے ،کیونکہ کچھ اہلِ دانش کے خیال میں زندگی مُسرتوں ، شادمانیوں
کی حسین وادی ہے اور کچھ اِس بات پر بضد ہیں کہ زندگی آزمائشوں ، امتحانوں،
اور مصائب و پریشانیوں کے سِواکچھ نہیں ہے، مگر اِن دونوں کے علاوہ دنیا
میں کچھ اہلِ دانش ایسے بھی ہیں کہ جن کا خیال یہ ہے کہ زندگی خوشیوں اور
مُسرتوں کے ساتھ ساتھ آزمائشوں اور امتحانات کے بغیرکچھ بھی نہیں ہے، میں
یہاں دنیا اُن تیسرے نمبر والے اہلِ دانش سے متفق ہوں جنہوں نے زندگی کو
خوشیوں اور غموں کے ملے جھلے لمحات سے تعبیرکیا ہے تو یوں میں بھی یہ بات
اچھی طرح سمجھتاہوں کہ دراصل زندگی مُسرتوں اور غموں کے راستے کا ہی نام
ہے،اور اِس کے ساتھ ہی لفظ زندگی سے متعلق یہ میری تھیوری اور میرامشاہدہ
ہے کہ لفظ زندگی کے پہلے حرف کا ”ز“ زن، زمین اور زر“کی طرف اشارہ کرتاہے،
اورزندگی کا دوسراحرف” ن“ نادانی“ کے زمرے میں آتاہے، زندگی کا تیسراحرف ”
د“ درندگی“ کا احاطہ کرتاہے اور زندگی کا چوتھاحرف” گ“ گندگی“ کے معنی میں
استعمال ہواہے اور اِسی طرح زندگی کا پانچواں حرف”ی“ ہمیں چیخ چیخ کر یہ
بتاتاہے کہ ” یہ ہے پیارے زندگی“یوںمیرے ذہن میں زندگی کے حرفی لحاظ سے
حقیقت پر مبنی جو معنی اور مفہوم تھے وہ میں نے بیان کردیئے ہیں ، اوراَب
میں یہ بھی مانتاہوں کہ ضرور ی نہیں ہے کہ آپ میری اِس تھیوری اور میرے
مشاہدے سے متفق بھی ہوں ، آپ کا یہ حق ہے کہ آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں
اورآپ سے میں یہ کہناچاہوں گاکہ اگر زندگی سے متعلق آپ کے پاس اُوپری
سطورمیں میرے بیان کردہ معنی اور مفہوم کے علاوہ بھی کوئی اور خوبصورت
تصورہے تو مجھے ضروربتائیں ورنہ میری بات پر تنقید برائے تنقیدکرنے سے بھی
ضرور اجتناب برتیںتواچھاہوگا۔
ایک مرتبہ سقراط سے کسی نے پوچھاکہ کیا اِنسانوں کے لئے موت سے بھی سخت تر
کوئی چیز ہے..؟تو پتہ ہے ..؟ سقراط نے کیاجواب دیا..؟اُس نے کہاکہ ”ہاں موت
سے بھی سخت تر ایک چیز ہے اور وہ ہے ”زندگی“لوگوں کو یہ سُن کر حیرانگی
ہوئی تو سقراط نے کہا کہ ” اِس میں حیران اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں
ہے آج میں تم کو بتاتاہوں کہ زندگی موت سے زیادہ سخت کیوں ہے ..؟ اُس نے
کہا ” کیونکہ ہر قسم کے رنج و آزار اور مصیبتیں زندگی میں ہی برداشت کرنی
پڑتی ہیں اور موت اِن سے نجات دلاتی ہے“۔اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ زندگی ایک
ایساہیراہے جسے تراشنا اِنسان کا کام ہے، اور اپنی زندگی اختصار سے ایسے
گزارنی چاہئے کہ اِس کے مقاصد حاصل ہوجائیں نہ کہ بے کار رہ کر اِسے گزار
کر گزر جائیں،نہ کہ ہم دنیا میں آنے کے بعدبے عمل زندگی گزار ئیں اور ہر
لمحہ خود کو موت سے پہلے موت کے دہانے پر لے جائیں۔
بہرحال...!آج میںاپنے معاشرے کے جن زندہ اِنسانوں کے جھرمٹ میں رہ کر اپنی
سانسیں لیتاہوں ، اُن اِنسانوں کی زندگی اتنی مصروف ہے کہ اِنہیں دیکھ کر
مجھے ایسالگتاہے کہ جیسے یہ سب کے سب زندگی کو سمجھے بغیر ایک تیزرفتارمشین
کے کسی بے جان پُرزے کی طرح اِسے گزاررہے ہیں ، اِنہیں تو شاید یہ بھی نہیں
معلوم کہ زندگی کے معنی اور مفہوم کیا ہیں..؟ وہ تو بس زندگی کے معنی یہ
سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں زبردستی بھینک دیئے گئے ہیں ، مزا اور قصوراِن
کے بڑوں کا تھااَب دنیا میں آنے کے بعدساراخمیازہ اِنہیں ہی
بھکتناپڑرہاہے،تب ہی یہ زندگی کے خُوبصورت اور حسین معنی و مفہوم سمجھے
بغیر اپنی زندگیوں کو عذاب سمجھ کر مادی ہوس میں یوں گزاررہے کہ اِنہیں اِس
کے بغیر زندگی کا لفت حاصل ہوہی نہیں سکتاہے ۔
یوں آج کے اِنسان بالخصوص میرے نوجوانوں اور مردوںکے نزدیک لفظ زندگی کے
آخری اور پانچویںحرف ” ی“ کی بڑی اہمیت ہے ،کیونکہ آج کے معاشرے کے نوجوان
اور مردیہ سمجھتے ہیں کہ اِن کی زندگی کا محوراور مرکزتین چھوٹی ” ی“ ہیں
اِس کے بغیر اِن کی زندگی بے کاراور بے معنی سی ہے، بالخصوص میرے معاشرے کے
نوجوانوں اور مردوں کے ذہنوں میں زندگی کا ایک خُوبصورت تصوریہ ہے کہ سب سے
پہلے زندگی گزارنے کے لئے ”سرکاری نوکری‘ ‘”اچھی بیوی/اچھی چھوکری“
اور”اچھی گاڑی“اور اگر اِن تین چھوٹی ”ی“میں سے پہلے نمبر والی چھوٹی ” ی “
یعنی ” سرکاری نوکری “کسی کے پاس ہے تو وہ قسمت کا دھنی ہے اور اِسے باقی
کی دوچھوٹی ” ی“ میرامطلب ہے کہ ” اچھی بیوی / لڑی ´چھوکری اور اچھی گاڑی
“خودبخود مل جائیں گیں اور اگر اِس کے پاس پہلی ہی والی چھوٹی ”ی“ یعنی
سرکاری نوکری “ نہیں ہے تو پھر اِسے باقی کی دوچھوٹی ”ی“ کا حصول محض خواب
ہی رہے گااوریوں اِسے اپنی زندگی کی چھوٹی ” ی “ بھی کاٹ کھانے کو دوڑے گی،
اور وہ تنگدستی کی چھوٹی ”ی“ کی وجہ سے خودکشی کی چھوٹی ” ی“ کو گلے لگالے
گا۔اَب ایسے میں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ آج میرے معاشرے
کے نوجوان اور مردسرکاری نوکری کی چھوٹی ”ی “ کی توجستجومیں یوں غرق ہوگئے
ہیںاِنہیں اِس کے سِواکچھ نظرہی نہیںآتاہے مگر کیا وجہ ہے کہ یہ زندگی
گزارنے کے لئے توسرکاری نوکری کے لئے بیتاب ہیں مگریہی لوگ سرکاری تعلیم،
سرکاری علاج اور سرکاری دیگر سہولیات سے کیوں انکاری ہیں.؟میرے معاشرے کے
اِنسانوں کو تین چھوٹی ”ی“ کے حصول کے حسین ودلفریب تصور سے نکل کر زندگی
گزارنے کے لئے حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کے کلّیئے کو بھی اپناناچاہئے
اور یہ تسلیم کرلیناچاہئے کہ سرکاری نوکری کے بغیر بھی تو زندگی حسین گزاری
جاسکتی ہے۔(ختم شُد) |