ہم وہ مگر مچھ ہیں ۔۔۔۔

ڈاکٹر مبشر ندیم

دنیا بھر میں معاشرے کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، تعمیری سوچ رکھنے والوں اور تعمیری کام کرنے والوں کا خاص مقام ہوتا ہے ۔ استاد ، ادیب اور سوشل ور کر کو ہر جگہ عزت دی جاتی ہے ،علم دوست اور انسانیت دوست لوگوں کو دنیا کا ہر معاشرہ اپنے لیے سرمایہء افتخار سمجھتا ہے، ایسے لوگوں کو خصوصی اعزازات سے نوازا جاتا ہے ،لیکن ہم عجیب لوگ ہیں ، ایسے افراد کو ہم انعام کی صورت میں موت دیتے ہیں ۔جو بھی معاشرے کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے ، ہم اس کے دشمن بن جاتے ہیں اسے موت کی نیند سلا دیتے ہیں یا ایسی کوشش کرتے ہیں ۔ہماری پولیس ،ہمارے انٹیلی جنس ادارے جو بے گناہوں کو دھرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ایسی نابغہ روزگاراور کسی بھی معاشرے کیلئے اثاثہ سمجھی جانے والی شخصیات پر حملہ کرنے والوں کو آج تک گرفتار نہیں کر سکے ۔ گرفتاری تو دور کی بات ہے ایسے کیسز کی سنجیدگی سے تحقیقات بھی نہیں ہوتیں، نجانے کس کے کہنے پر ایسی فائلیں سُرخ فیتے کی نذر ہو جاتی ہیں ۔ حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بیٹھے "بڑے" اخبارات اور ٹی وی کی حد تک خوب خوب نوٹس لیتے ہیں ، حکومتی عہدیدار اور دیگر سیاستدان دو چار تگڑے بیان داغتے ہیں پھر خامشی چھا جاتی ہے ہمیشہ کیلئے ۔ یہ سب بھی دنیا کو دکھانے کیلئے ہوتا ہے ورنہ دل میں تو وہ خوش ہوتے ہوں گے ایسے افراد کی موت پر کہ چلو معاشرے میں شعور بیدار کرنے والے ایک اور سے جان چھُو ٹی ۔ اصغر ندیم سید بھی دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اپنی تحریروں کے زریعے اس معاشرے میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،وہ صرف ایک ڈرامہ نگار ، شاعر اور ادیب ہی نہیں بلکہ ایک معلم بھی ہیں اور گذشتہ 33 سالوں سے اس قوم کو زیور تعلیم سے بھی آراستہ کر رہے ہیں ۔ انکی محنتوں کا ہم نے یہ صلہ دیا کہ ان کے سینے پر گولی کا تمغہ سجا دیا، ان کی زندگی تھی اس لیے بچ گئے ورنہ ان کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی ۔ میرا ان سے کوئی ذاتی تعلق اور جان پہچان نہیں کبھی ان سے ملا بھی نہیں ،ان کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا ہوں جتنا اخبار پڑھنے والے اور ٹی وی دیکھنے والے باقی لوگ جانتے ہیں، لیکن ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر مجھے دلی دکھ اور صدمہ ہوا ، ایک ادیب اور ایک معلم کیساتھ ایسا سلوک ایک مسلم معاشرے میں جن کا نبی ؐ کہے کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔اس معاشرے میں معلم پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ، یہاں برسوں سے یہی ہو رہا ہے ، اصغر ندیم سید سے بھی زیادہ قیمتی لوگوں کو ہمارے معاشرے میں اسی طرح بے دردی سے مار دیا گیا ۔ ہم نے تو حکیم سعید جیسے علم دوست ، انسان دوست ، ادب دوست اور محب وطن شخص کو مار دیا اصغر ندیم سید کس قطار شمار میں ۔ وہ حکیم سعید جس نے اپنا سب کچھ معاشرے کیلئے وقف کر دیا ،ساری زندگی لوگوں کی بہتری کیلئے صرف کر دی ، علم کو عام کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیا ، جس نے اپنی کوئی ذاتی جائیداد نہیں بنائی اور زندگی کے آخری ایام اپنی بیٹی کے گھر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر گزارے، اس کو بھی معاشرے نے وہی صلہ دیا جو اصغر ندیم سید کو دینے کی کوشش کی گئی ۔ آج تک ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا جو پکڑے گئے تھے ان کو بھی چھوڑ دیا گیا ۔ کس نے مارا اور کیوں مارا ،یہ معلوم کرنا اتنا مشکل نہ تھا اگر معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ، کوئی اور ملک ہوتا تو وہ دن رات ایک کر دیتے یہ جاننے کیلئے کہ ایسا ملک دشمن کون ہے جو علم دوست اور انسان دوست اس عظیم شخص کا قاتل ہے ، لیکن ہم جانتے بوجھتے بھی کچھ نہیں جاننا چاہتے کیونکہ ہمیں تو ایسے لوگ عزیز ہی نہیں ۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی کے ایڈیٹر،نڈر ، بے باک ، سچے اور کھرے صحافی صلاح الدین کو بھی روشنی کی تلاش میں تاریک راہوں میں مار دیا گیا ، اچھے لوگ ہمیں اس معاشرے میں شائد قبول ہی نہیں ،یہ معاشرہ جی حضوری اورچڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں کا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرو گے تو صحافی ہونے کے باوجود کرکٹ بورڈ کے چیئر مین بن جاؤ گے اور اگر سچ کہو گے تو انجام صلاح الدین ، ولی خان بابر، سلیم شہزاد اور وزیرستان کے حیات اﷲ جیسا ہو گا ۔ پروین رحمان جیسی بے مثال خاتون جو ایشیاء کی سب سے بڑی کچی بستی کی ایک طرح سے نگہبان تھی ، جو غریبوں کو جینا سکھاتی تھی ، ہم نے اسے بھی نہیں بخشا ۔ وہ ساری زندگی دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتی رہی اور ہم نے اسی کا جسم زخم زخم کر دیا اور اس کے خاندان کو نہ مندمل ہونے والا زخم دے دیا ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک جیسا سکالر جو سب کی بھلائی کی بات کرتا تھا وہ بھی ہمارے ظلم کا شکار ہوگیا۔ بلوچستان کے ماہر تعلیم فضل حق میر جنہوں نے بلوچستان کے لوگوں کو بہتر تعلیم دینے کیلئے دِن رات ایک کر دیا ،جن کو بلوچستان کا سر سید بھی کہتے ہیں ان پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ان کا کسی سیاسی ، مذہبی یا لسانی گروہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ، نہ وہ کسی خاص مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں پھر بھی ان کو نشانہ بنایا گیا ،معلوم نہیں عبدالستارایدھی ابھی تک کیسے بچے ہوئے ہیں؟ غرض کس کس کا ذکر کروں ایک طویل فہرست ہے ایسے لوگوں کی ،در اصل ہم وہ بد قسمت قوم ہیں جو چھوٹے چھوٹے ذاتی ، گروہی ، سیاسی اور مسلکی مفادات کی خاطر اپنے ہی محسنوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ۔قوم نہیں بلکہ ایک بے ہنگم ہجوم ہیں ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم بھیڑوں کا ریوڑ ہیں ، لیکن بھیڑیں کم از کم ایک دوسرے کوتو نقصان نہیں پہنچاتیں،اپنی خبر گیری کرنے والوں کوزخم تو نہیں دیتیں، ہم تو وحشی درندے ہیں جو موقع ملنے پر نہ صرف ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے ہیں بلکہ اُن کو بھی معاف نہیں کرتے جو ہماری بہتری چاہتے ہیں،ہم بھیڑوں کا ریوڑ نہیں بھیڑیوں کا غول ہیں۔ہم وہ مگرمچھ ہیں جو اپنے بچے خود کھاجاتاہے،ا ﷲ ہمارے حال پے رحم فرمائے،لیکن اﷲ نے بھی اپنے محبوب پیغمبرﷺ کے ذریعے پیغام دے دیا ہے کہ میں اُس پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔
Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 12244 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More