مٹھی میں وقت قید ہے یا پچھتاوا ؟ نئے سال کا سوال
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
گلوبل پِنڈ ( محمد نواز طاہر )وقت کی
قدرسمجھاتے ہوئے ایک بزرگ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ ان کے پاس ٹائم بہت کم
ہے ،فنا یعنی قیامت بہت قریب آ رہی ہے، تم وقت ضائع مت کرو ،اسے مٹھی میں
لے لو،فنا سے پہلے تباہی سے بچ جاﺅورنہ انسانی و حیوانی وحشت کاشکار بنو گے
اوررینگ رینگ اور سسک سسک کر مرو گے ۔ اس محفل میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا
، اسے سب سے زیادہ بے فکرا،سست ، کاہل اور نکما کہا جاتا تھا۔بزرگ کی بات
سنتے ہی اس نے آسمان کی طرف دیکھا ،، سورج کی روشنی مدہم ہورہی تھی اور
نیچے سرک رہا تھا ۔ یہ غروب ِآفتاب سے ذرا پہلے کاوقت تھا۔ نوجوان نے
نوجوان نے انگرائی لی اور سورج کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ
لالی ختم ہونے تک وہ دو ڈھائی کلومیٹر دور اس مقام تک پہنچ جائے گا جہاں
سورج روز اسے غائب ہوتانظر آتا ہے اور وہ ا س سے پہلے ہی اسے پکڑ لے گا۔
اسے بھاگتے دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا ،کیا ہوا؟ کدھر جا رہے ہو؟تو اس نے مڑ
کر پیچھے دیکھے بغیر ہی بلند آواز میں جواب دیا کہ میں وقت پکڑنے کیلئے جا
رہا ہوں ۔ کچھ لوگوں نے یہ سنتے ہی قہقہہ لگایا ، بزرگ بھی مسکرادیا مگر
انہیں خاموش کراتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کو مذاق مت سمجھولیکن اس کے
باوجود کچھ لوگ ہلکی پھلکی کانا پھوسی میں لگے رہے ۔ محفل یں خلل آگیا تھا
۔ محفل بحال ہونے تک نوجوان کلومیٹرسے زائد سفر کرچکا تھا۔سورج کی لالی
گہرے سائے میں چھُپ چکی تھی ،انسان اور پیڑ بھی ہیولے سے لگنے لگے تھے۔بزرگ
نے دوبارہ گفتگو شروع کی توقہقہے لگانے والے بھی اس میں مگن ہوچکے تھے لیکن
رات ہونے اور سورج کی طر ح نوجوان کے گم ہونے پرانہیں فکر لا حق ہو چکی تھی
کہ وہ کہاں گیا؟۔ چاند بھی آخری دنوںپر ہوتھا، چاندنی بھی تھوڑی دیر کیلئے
تھی۔ اب گفتگو کا محور یہی نوجوان تھااور محفل بھی مزید گرم ہوگئی تھی ۔ سب
نے لنگر پانی بھی یہیں کیا ۔ محفل میں وقت کا ہی پتہ نہ چلااور گرمیوں کی
رات جلد ڈھل گئی ۔ اندھیرا چھٹنے والا تھاکہ نوجوان واپس الٹی سمت
بھاگتاہوا پھر وہاں سے گذرا تو بیک وقت کئی لوگوں نے آوا زدی کہ بھائی میاں
اب کدھر بھاگ رہے ہو؟ اس نے پھرمڑے بغیر جواب دیا کہ میں وقت نہیں پکڑ سکا
، دیر ہوگئی تھی،آج میں وقت کو وہیں سے پکڑوں گا جہاں سے یہ شروع ہوتا ہے ۔
اس کا خیال تھا کہ وقت شروع بھی دوڈھائی کلو میٹر مشرق سے ہوتا ہے اور وہ
لالی کو آگ کا گولا بننے سے پہلے ہی پکڑ لے گا ۔ وہ بھاگتا ہوا کوئی فرلانگ
بھر آگے گیا ہوگا کہ اسے بزرگ کے کہنے پر کئی لوگوں نے آواز دی ، اس نے سنی
ان سنی کردی تو اسے ذرا بلند آواز میں کہا گیا کہ بزرگ کے پاس وقت پکڑنے کا
آسان نسخہ موجود ہے وہ لیتے جاﺅ، نوجوان پلٹا اور محفل میں پہنچ گیا، سانس
بحال ہونے کا انتظار کئے بغیر اس نے بزرگ سے درخواست کی کہ اسے وہ نسخہ جلد
از جلد دیا جائے کیونکہ اس کے پاس وقت کم ہے تو بزرگ نے اسے پاس بلا کر
تھپکی دی ، پانی پلایا اور بتایا کہ تم وقت کو پکڑ چکے ہو، سب لوگ بزرگ کی
اس ”احمقانہ“ بات پر ہکا بکا رہ گئے کہ نوجوان کے ہاتھوں میں تو صرف پانی
کا پیالہ تھا وہ بھی واپس کر دیا گیا ہے اور اب اس کے دونوں ہاتھ خالی ہیں
۔ سب کو متجسس دیکھ کر بزرگ بولا تم سب نے سے میری بات سنی، کسی نے نسخے کی
بابت بات نہیں کی، اس نوجوان کو علم ہی نہیں تھا کہ میرے پاس کوئی نسخہ ہے
لیکن اس نے میری بات آدھی سمجھ کر ہی اپنی باقی آدھی سمجھ استعمال کی اور
وقت پکڑنے کیلئے بھاگ نکلا، یہ وقت نہیں پکڑ سکا، جب اسے معلوم ہوا کہ میرے
پاس نسخہ موجود ہے اسے حاصل کرنے کیلئے آیا ہے ،اس کا عمل ہی درحقیقت نسخہ
ہے، اس نے کوشش کی ہے، تم لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا ہے اور وقت ضائع کیا
ہے جبکہ اس نے اتنا وقت جدوجہد میں لگایا ہے اور یہ اس کا آغاز ہے، یقینا
یہ انجام تک بھی پہنچے گا۔ بزرگ نے نوجوان کو نسخہ دیا، وقت کو پہروں میں
تقسیم کیا اور ہر پہر کا عمل بھی بتایا، یہاں موجود کئی لوگوں کا کہنا تھا
کہ دن اور رات کو پہروں میں تقسیم اور اس کے مطابق کام وہ بھی کرتے ہیں، تب
بزرگ نے واضح کیا کہ اس نوجوان کو بے فکرا ، کاہل اور سست کہا جاتا تھا، اس
نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں، یہ کچھ کرنا چاہتا تھا،
اسے بتانے والا کوئی نہیں تھا، اس کو سمت بتانے کی ضرورت تھی۔ بزرگ سے
اجازت لے کر نوجوان اپنے گھر کی طرف چلا گیا اور محفل بھی برخاست ہونے لگی،
کچھ لوگ ابھی الوداعی کلمات کہہ رہے تھے اور سورج نکلنے کا وقت بھی قریب ہی
تھا، انہوں نے دیکھا ایک بار پھر وہ نوجوان کلہاڑا پکڑے وہاں سے گزرا لیکن
اس کا رخ اس سمت نہیں تھا جدھر سے سورج آگے بڑھ رہا تھا، کسی نے پوچھا کہاں
جا رہے ہو؟ تو اس نے بتایا کہ میں بزرگ کے نسخے کے مطابق وقت کو قید کرنے
جا رہا ہوں، دو ایک لوگوں نے قہقہہ لگایا کہ کل تو سورج کے پیچھے بھاگ رہا
تھا ، آج اسے آگے جا کر کیوں نہیں پکڑ لیتا اور وہیں قید کیوں نہیں کر لیتا؟
تو اس نے صرف ایک جملہ ادا کیا کہ تم ناسمجھ ہو، وقت کو ہاتھ سے نہیں عمل
سے مٹھی میں قید کیا جاتا ہے، تب بزرگ نے مداخلت کی کہ میں نے اسے کل یہی
نسخہ بتایا تھا، وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جا رہا ہے اور اپنے مقررہ وقت
میں آج کا کام آج ہی ختم کرے گا، اس طرح آج کا وقت اس نے اپنی مٹھی میں قید
کر لیا ہے۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہاں سے چل دیئے۔ معلوم
نہیں کسی کو یہ بات سمجھ میں آئی یا نہیں۔۔۔۔ البتہ مجھے اتنا معلوم ہے کہ
عیسوی سال کا آخری سورج غروب ہو گیا ہے اور نئے سال کا سورج طلوع ہوا چاہتا
ہے، پچھلے سال ہم نے مملکت، تعلیم ، معیشت ، جمہوریت اور انسانیت کیلئے کئی
کام کئے اور کئی کسی نہ کسی وجہ سے چھوڑدیے ،نئے سال میں جانے میری اور آپ
کی مٹھی میں کیا ہو گا، ہاتھ خالی ؟ ، وقت مٹھی میں بند یاگئے دنوں کا
پچھتاوا ہوگا ؟؟؟۔ |
|