سائنسدانوں نے ایک ایسا مشینی ہاتھ تخلیق کیا ہے جسے
استعمال کرنے والا فرد عام ہاتھ کی مانند انگلیوں سے کسی چیز کو محسوس کر
سکتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ ہاتھ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو
لگایا گیا ہے اور اٹلی میں ہونے والے آپریشن میں مشینی ہاتھ کو اس کے بازو
میں موجود اعصاب سے جوڑا گیا ہے۔
|
|
ڈینس آبو نامی اس شخص کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’شاندار‘ ہاتھ ہے۔
مشینی ہاتھ کے تجربے کے دوران انھوں نے آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے باوجود اس
سے چیز اٹھا کر ان کی شکل اور سختی کے بارے میں بتایا۔
اس مشینی ہاتھ کی تفصیلات ایک سائنسی جریدے میں شائع کی گئی ہیں۔
اس منصوبے میں روبوٹکس کے شعبے کے اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی سے تعلق
رکھنے والے ماہرین شامل تھے۔
سوئٹزرلینڈ کے ایکول پولی ٹیکنک فیڈرل ڈی لوزان کے پروفیسر سلویسترو
مائکیرا کے مطابق ’یہ پہلا موقع ہے کہ مشینی ہاتھ استعمال کرنے والے معذور
شخص کو چھونے کی حس کا احساس ہوا ہے۔‘
پروفیسر مائیکیرا اور ان کی ٹیم نے مصنوعی ہاتھ میں ایسے سینسر نصب کیے جو
لمس کے بارے میں معلومات جمع کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد کمپیوٹر ایلگورِدمز کی
مدد سے سائنسدانوں نے ان سینسرز سے خارج ہونے والے برقی سگنلوں کو ایسے
پیغام میں تبدیل کر دیا جسے اعصاب سمجھ سکتے ہیں۔
|
|
روم میں ہونے والے آپریشن میں ڈینس کے بازو کے اعصاب میں چار الیکٹروڈ نصب
کیے گئے جنھیں مصنوعی ہاتھ کی انگلیوں میں موجود سینسرز سے جوڑا گیا اور
یوں لمس اور دباؤ کی معلومات براہِ راست ڈینس کے دماغ تک پہنچائی گئیں۔
اس آپریشن اور تجربات کے بعد ڈینس نے کہا کہ ’سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جب
میں کسی چیز کو پکڑتا ہوں تو بغیر دیکھے محسوس کر سکتا ہوں کہ میں کیا کر
رہا ہوں۔ میں اس ہاتھ کو تاریکی میں بھی استعمال کر سکتا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ محسوس کرنا ناقابلِ یقین سا ہے کہ کوئی چیز نرم ہے یا
سخت، چوکور ہے یا گول۔‘ خیال رہے کہ ابھی تک یہ مشینی ہاتھ اپنی ابتدائی
شکل میں ہے اور تجربے کے بعد ڈینس آبو کے بازو سے بھی متعلقہ سینسر اتار
لیے گئے ہیں۔
سائنسدانوں کی ٹیم کے ایک رکن ڈاکٹر ستانیسا راسپوپووچ کا کہنا ہے کہ ’وہ
بہت شاندار لمحہ تھا جب تجربات اور تربیت کے بعد ڈینس ہماری جانب مڑا اور
بولا یہ تو جادو ہے مجھے اپنا کھویا ہوا ہاتھ مل گیا ہے۔‘
اب جبکہ ڈینس کو اس کا پرانا مصنوعی ہاتھ دوبارہ لگا دیا گیا ہے اور اسے
مستقبل میں کسی بھی تجربے کے لیے مشینی ہاتھ سے بدلنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ مجھے اس کی پیشکش کرتے ہیں تو میں اس کے لیے تیار
ہوں۔‘ |