پشاور میں ایک ہوٹل پر خود کش
حملے کے نتیجے میں10افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے، دھماکے میں 6
کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے حملے
سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔تفصیلات کے مطابق
پشاورشہرکے تاریخی مرکز قصہ خوانی بازارکی پشت پرواقع کوچہ رسالدارمیں پاک
ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ایک شخص داخل ہوا جس نے ریسٹورنٹ میں چائے پی اور اس
کے بعد اس نے کھانا کھانے میں مصروف لوگوں کے درمیان جاکر خود کو دھماکے سے
اڑا دیا، دھماکے کے بعد ہرطرف انسانی جسم کے اعضاء بکھرگئے ۔خودکش حملے کے
نتیجہ میں پاک ہوٹل کے سامنے واقع امام بارگاہ علمدار اور اردگرد کی
عمارتوں کونقصان پہنچا اور کئی مکانات کے شیشے ٹوٹ گئے دھماکہ اتنا زور دار
تھاکہ پوراعلاقہ لرزاٹھااوراس کی آوازدوردورتک سنی گئی ایس پی سٹی فیصل
بختیار نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ خودکش دھماکہ تھا لیکن
ابھی حتمی طور پر اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انھوں نے دھماکے کے ہدف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا’دھماکے کے قریب امام
بار گاہ اور پاک ہوٹل ہے اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں زیادہ اہل تشیع
ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان نے کہاہے کہ جنداللہ کی کارروائیوں کو منسوب کیاجائے
اور نہ ہی تحریک کا کوئی جنداللہ سے تعلق ہے ، احمداللہ مروت ذمہ داری قبول
کرے تو اُسے طالبان کی کارروائی نہ سمجھاجائے ۔ اپنے ایک بیان میں تحریک
طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے پشاور میں حالیہ ہونیوالے دونوں دھماکوں
سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ جنداللہ نام سے تحریک طالبان
کا کوئی ذیلی گروپ نہیں ، احمد اللہ مروت کو مجاہدین حلقوں میں کوئی نہیں
جانتا، اگر وہ ذمہ داری قبول کربھی لے تو اُسے طالبان کی کارروائی نہ
سمجھاجائے ۔ دوسری طرف نجی ٹی وی چینل کے ذرائع کے مطابق گل مست نے پشاور
دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ، عسکریت پسند گل مست افغانستا ن میں
رہتاہے ۔مگر یہ سب کچھ ناقابل یقین و اعتبار ہے۔ویسے بھی عمومی تاثر یہی ہے
کہ تمام دہشت گردی طالبان ہی کر یا کرا رہے ہیں. جندواللہ طالبان کی ذیلی
تنظیم ہے۔ تاہم ر اقم کو طالبان کا یہ بیان ان کی پبلک ریلیشنگ مہم کا سٹنٹ
لگتا ہےاور لوگوں کی توجہ طالبان کے ہولناک جرائم سے ہٹانے کی ایک بھونڈی
کوشش معلوم ہوتی ہے کیونکہ طالبان کے علاوہ اس طرح کے کام اور کون کرسکتا
ہے؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن، جنہوں نے خود کو ٹی ٹی پی پشاور
کا ضلعی چیف قرار دیتے ہوئے منگل کی شام ایک ہوٹل پر ہوئے خودکش حملے کی
ذمہ داری قبول کرلی، جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے منگل کے روز پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار
میں واقع پاک ہوٹل پر ہوئے حملے میں اپنی مداخلت سے انکار کیا تھا، گزشتہ
روز بدھ کو مفتی حسان سواتی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ حملہ
گزشتہ سال نومبر میں راولپنڈی کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن پر ہوئے حملے میں
معصوم طالبعلموں کی ہلاکت کا در عمل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہاں زیادہ تر پاراچنار سے
لوگوں آتے ہیں اور یہ نا صرف راولپنڈی حملے، بلکہ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ
پاکستان کے رہنماء علی اصغر اور ایک بینک منیجر کے قتل کا بھی ردِ عمل تھا۔
مفتی حسان سواتی کا کہنا تھا کہ پشاور ہوٹل پر کیا گیا حملہ ہمارے مرکزی
ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی کی ہدایت پر کیا گیا جو راولپنڈی پر ہوئے حملے کا
بدلہ تھا۔
مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ
آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔
خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہ پہلے ہی
کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں
نے مفتی حسن کے بیان پر کوئی درِ عمل دیا ہے۔
ادھر سیکیورٹی ذرائع نے کچھ وقت پہلے مفتی حسان کی جاسوسی کرنے کا بھی
اعتراف کیا ہے۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس نئی پش رفت سے حکومت اور طالبان کے
درمیان مصالحتی عمل پر کیسا اثر مرتب ہوگا، لیکن امن مذاکرات کے لیے طالبان
کی جانب سے نامزد کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی تبصرے سے پہلے
طالبان سے بات کریں گے۔
مفتی حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان
مذاکراتی عمل کمزور نہیں ہوگا، لیکن جب تک بات چیت کے ذریعے دونوں فریقین
کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوجاتی، شدت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
میڈیا سے بات چیف کرتے ہوئے مفتی حسان کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کا بینر تھا
اور ان کے ہمراہ حزبل مجاہدین کے رہنما ہارون خان، الیاس گل بھی موجود تھے۔
جن کو 1995ء میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جیل سے فرار ہونے کے بعد
ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد شہرت ملی تھی۔
ان کا تعلق کرم ایجنسی کے علاقے سدا سے ہے۔
47 سالہ جنگجو نے اگست 2003 میں پشاور کے قریب ایک حملے کیا تھا اور جس اس
کے بعد سے ان کا ٹھکانا سمجھا جاتا ہے۔
مفتی حسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشاور حملوں کے لیے مست گل کو ہدایت دی
تھی۔
https://urdu.dawn.com/news/1002099/ttp-peshawar-chief-owns-up-to-tuesdays-sectarian-attack
پاکستان میں دہشت گردی کے باعث مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں اور
چند لوگ حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں اور
سازشی تھوریز کی بات کرتے ہوئے معصومانہ انداز میں اپنے مسائل کیلئے دوسری
طاقتوں کو مورود الزام ٹہرا رہے ہیں۔ کیا ہم لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک
مسلمان کی حرمت اور اس کی جان اللہ تعالی کے نزدیک خانہ کعبہ کی حرمت سے
بڑھ کر ہے۔ ان کی عزت وآبروپامال کرنے اور مال اسباب لوٹنے والے کسی بھی
طرح بھی مسلمان کہلائے کے مستحق ہیں۔ یقینا نہیں؟“ جس نے کسی کا نا حق قتل
کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کردیا اور جس نے کسی کی زندگی کو محفوظ
کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کردیا“۔
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے
(بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر
ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(
کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا
تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک
گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ
ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت
عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم
نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی
آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم
میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے
(اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس
نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”
قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو
خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئےہیں۔
ماسواےکسی کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنا اور زمین پر فساد پھیلانے والے
کو قتل کرنا ۔ ان دونوں صورتوں کے علاوہ کسی بے گناہ کا قتل کرنا جائز نہیں
ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و
آبرو کی اَہمیت کعبۃ اﷲ سے بھی زیادہ ہے۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ
عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ
ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت
کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے
جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے
بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘ رسول اکرم کی ایک اور حدیث میں کہا
گیا ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
سنی اور شیعہ کے درمیان لڑائی اور ایک دوسرے کا خون بہانا درست نہ ہے۔ فرقہ
واریت پاکستان کے لئے زہر قاتل ہے۔ قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے
ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور
’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل
کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی
تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔ فرقہ واریت مسلم امہ کیلئے زہر ہے اور کسی بھی
مسلک کے شرپسند عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا اسلامی تعلیمات کی
صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ اتحاد بین المسلمین کے خلاف ایک گھناؤنی سازش
ہے۔ ایک دوسرے کے مسالک کے احترام کا درس دینا ہی دین اسلام کی اصل روح ہے
دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں
۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے یہ بے گُناہ مظلوم خاندان سب سے سوال کرتے
ہیں کہ ہم اپنی نسلوں کی بربادی کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں، کس کو الزام دیں؟
یہ مذہبی جنونیت اور پاگل پن کب تک جاری رہے گا اور درندے کب تک شہروں میں
دندناتے رہیں گے؟
خدا اور اس کے رسول کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے گناہوں اور
معصوم بچوں،مردوں اور عورتوں کا خون بے دریغ اور ناحق بہایا جا رہا ہےاور
وہ بھی اسلام نافذ کرنے کے نام پر۔ سکولوں ،مساجد اور امام بارگاہوں کو
تباہ کیا جا رہا ہے اور افواج پاکستا ن اور پولیس اور تھانوں پر حملے کئے
جا رہے ہیں۔ کون سا اسلام ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے؟ ملک کا وجود ان دہشت
گردوں نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان آج
دہشستان بن گیا ہے اور ہر سو ظلم و دہشت اور افرا تفری کا راج ہےاور ہم سب
پھر بھی خاموش ہیں،آخر کیوں؟ یہ دہشت گرد مسلمان نہیں بلکہ ڈاکو اور لٹیرے
اور ٹھگ ہیں ، اسلام کے مقدس نام کو بدنام کر رہے ہیں۔ مسلمان تو کیا غیر
مسلموں کو بھی اسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور
وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی
جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲) |