ظہور عباسی اُن ہزاروں پاکستانیوں میں سے ہیں جو لاکھوں
روپے خرچ کرکے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن وہ بھی سعودی عرب
میں چھپ چھپا کر کام کر رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پہلے تو اُن کا سٹیٹس قانونی
تھا لیکن نئے قوانین کے بعد وہ بھی غیر قانونی قرار دیے گئے ہیں۔
|
|
اُنھوں نے کہا کہ اب اُن کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ چھپ کر ہی کام
کریں کیونکہ پاکستان میں اُن کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ واپس آکر وہ
اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
ظہور عباسی کا کہنا تھا کہ ’جب تک کفیل کو پیسے نہیں دیں گے تو وہ باہر کام
کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ پولیس کو اطلاع
بھی دے سکتا ہے جس کے بعد پولیس گرفتار کرکے وطن واپس بجھوا دے گی۔‘
ایک اور پاکستانی محمد فیاض کا کہنا تھا کہ ’چھپ چھپا کر کام کرنے والے
پاکستانی اپنی تنخواہ کا اسّی فیصد حصّہ کفیلوں کو دے رہے ہیں جبکہ صرف بیس
فیصد اپنے گھروں کو بجھوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ جو پاکستانی قانونی طور پر کفیلوں کے پاس کام کررہے
ہیں اُن میں سے اکثریت کو پیسے نہیں مل رہے اور تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر
پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی حالت زار سے متعلق پاکستنانی سفارت
خانے کے رویے کے بارے میں محمد فیاض کا کہنا تھا کہ دو دو روز تک پاکستانی
سفارت خانے کے باہر لائنوں میں لگے ہوتے ہیں لیکن اُن کا کوئی پرسان حال
نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کا عملہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے اور اُنھیں
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
|
|
محمد فیاض کا کہنا تھا کہ سفارت خانے کے عملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ جو سفارت خانے کے باہر لوگوں کی مدد نہیں کرتے وہ حراستی مرکز
میں قید پاکستانیوں کی مدد کو کہاں پہنچتے ہوں گے۔
سعودی عرب میں مقیم صحافی راشد حسین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں کفیلوں کے
خلاف کارروائی کرنے کا قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہونے کی
مثالیں بہت کم ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اب سعودی عرب میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ
اگر ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے
تو دوسری اُن کفیلوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو پیسے لے کر ویزے
بیچتے ہیں اور بعد میں اُن غیر ملکیوں سے پیسے لے کر اُنھیں دوسری جگہ کام
کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ |