دنیا کی تمام تر ترقی، خوشحالی اور رونقیں توانائی ،جدید
سائنسی ایجادات اور روشنی کی مرہون منت ہیں ۔پتھر کے زمانے میں بھی لوگوں
کو اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے روشنی اور آگ کی ضرورت پڑتی تھی ، بجلی ،گیس
سمیت سب چیزیں انسان کی بنیادی ضرورت اور ان کا حق ہیں ،اور ان سہولیات کی
مناسب داموں فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔اس وقت چائنا سمیت دنیا کا
کوئی ملک حتی ٰکے سپر طاقتیں بھی توانائی کے بغیر اپنے اچھے بُرے عزائم کو
پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتیں ۔ اندھیروں اور بحرانوں میں ترقی و خوشحالی
کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کسی بے وقوف سے بھی سوال
کریں کہ ترقی کیلئے سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی برملا یہی
کہے گا کہ صاحب ! توانائی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا ، لہذا ء دنیا کے
ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کیلئے اس وقت تمام اقوام بجلی ، گیس ،پیٹرول
اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے ترقی و خوشحالی کیلئے سرگرم عمل ہیں اس کے
مقابلے میں دنیا کا شاہد واحد ملک پاکستان ہے کہ جہاں کے حکمرانوں نے ملک
کو اندھیروں کی نذر کر رکھا ہے ، یوں تو پیٹرولیم مصنوعات کی ہوشرباء
قیمتیں معیشت کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں
کی اعلیٰ کارکردگی اور وطن عزیز کو ’’ایشیئن ٹائیگر‘‘ ‘‘بنانے کے جھوٹے
دعوؤں نے ساری قوم کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ، کاروبار ِزندگی مفلوج
ہو چکا ہے ، واپڈا بجلی کی قیمت کی صورت میں اربوں روپے لوگوں سے وصول کرتا
ہے سوئی گیس کی مد میں بھی اربوں روپے سمیٹے جا رہے ہیں ،سب سے بڑھ کر ظلم
یہ ہے کہ واپڈا،سوئی ناردرن،موبائل کمپنیاں اور دیگر سرکاری ادارے جہاں
ضروریات زندگی کی فراہمی مہنگے داموں کر رہے ہیں وہاں اپنی آمدن سے زیادہ
مختلف ٹیکسزز کی صورت میں غریب عوام سے زبر دستی وصول کر کے انہیں زندہ
درگور کرنے کے درپے ہیں ، اس معاملے میں یہ تشخیص نہیں کہ بجلی ،گیس اور
پیٹرول استعمال کرنے والا شہری واقعی اس قابل ہے بھی یا نہیں ؟کہ وہ بجلی
اور گیس کے بھاری چارجز کے ساتھ ساتھ اس سے کئی گنا زیادہ ٹیکسزحکومتی
خزانے میں جمع کرائے ، عام سفید پوش آدمی تو اپنے بچوں کی روٹی پوری کرنے
کی پوزیشن میں نہیں رہا۔وہ اپنی آمدنی سے زیادہ یوٹیلٹی بلز کی مد میں ادا
کرنے پر مجبور ہے جبکہ حکومت کی لازوال پالیسی کے تحت 24گھنٹوں میں 18گھنٹے
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے ۔اور وہ بھی اس طرح کہ ہر ایک گھنٹے بعد
بجلی بند کر دی جاتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں الگ الگ اوقات
میں بجلی بند کرنے کی پریکٹس نے ہنر مندوں اور فیلڈ ورکرز کو بھی عذاب میں
مبتلا کر رکھا ہے ، یہ لوگ جہاں جاتے ہیں انہیں اگلے علاقے میں بجلی بند
ملتی ہے ، اور ان کے کلائنٹ ’’رٹا رٹایا‘‘ ایک ہی جملہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں
کہ جناب !بجلی ہی بند ہے آپ اس وقت آتے ہیں جب بجلی نہیں ہوتی ۔ یہ پالسیاں
بھی ہمارے ماہرین اقتصادیات و معاشیات کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت اورصلاحیتوں
کی عکاس ہیں اور شاہد یہی یہود ونصاری ٰکا وہ ایجنڈاہے جس کی تکمیل کیلئے
ہمارے حکمرانوں نے خود کو وقف کر رکھا ہے ۔۔ہمارے رہبر انہی اسلام دشمن
قوتوں کی خواہشات کی روشنی میں اس قدر شاندار پالیساں مرتب کرتے ہیں کہ
پاکستان کے مسلمان زندگی میں کبھی خوشحال ہوں اور نہ ہی پاکستان دینا کے
نقشے پر ایک مضبوط اسلامی ریاست بن کر ابھر سکے ۔ذرا ہمارے حکمران ، واپڈا
حکام اور دیگر ذمہ داران اپنی ان پالیسیوں پر غور کریں کہ جب ہر ایک گھنٹے
بعد بجلی بند ہو گی تو لوگ کام کیا خاک کریں گے ، وہ لوگ جن کا کام ہی بجلی
کا مرہون منت ہے یعنی ہنر مند لوگ ، ہماری انڈسٹری وغیرہ میں کام کرنے والے
کارکنان۔۔۔ جب ہر گھنٹے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور اپنا
بیشتر وقت بجلی کے انتظار میں گذار دیں گے اور پھر بجلی آنے پر اپنی مشینیں
چلانے پر 10سے 15منٹ کا وقت صرف کریں گے تو کیسے قومی ترقی کا پہیہ آگے کی
جانب چلے گا ۔ کیسے یہ ملک’’ ایشئین ٹائیگر‘‘ بننے گا۔۔؟ اس کا جواب کوئی
اور دے نہ دے ۔۔۔۔کم از کم وزیر اعظم میاں نوازشریف ذاتی طور پر قوم کو
ضروردیں کہ جناب ! ہر ایک گھنٹے بعد بجلی بند ہونا کیا بیماری ہے یا مجبوری
ہے؟اقتدار کی خواہش تو شاہد ہر شخص کے دل میں جاگتی ہو گی ہمیں اختیار حاصل
کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے لیکن ہم اقتدار میں آنے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں
کہ قوم نے ہمیں بھاری مینڈیٹ کس بات کا دیا ہے ،میاں صاحب !یہ حقیقت کہ محض
نوجوانوں کو بے وقوف بنانے کیلئے انہیں 200ارب روپے کے قرضے دینا کسی صورت
ان مسائل کا حل نہیں ہو سکتا۔۔جو نوجوان کاروبار کا تجربہ ہی نہیں رکھتے
انہیں قرضہ دینا ان کے ساتھ ظلم ہے ، حکومت اس قدر بھاری رقم توانائی بحران
حل کرنے پر صرف کرتی تو اس کا فائدہ سب کو ہوتا ،صنعتیں بھی چلتیں، کاروبار
بھی پھلتا پھولتا اور نوجوانوں کو روزگار بھی ملتا ۔ہماری سمجھ میں یہ بات
نہیں آ رہی کہ بجلی اور گیس کے موجودہ بحران میں ہمارے نوجوان قرضہ لے
کرکریں گے کیا؟۔۔۔ جب بجلی اور گیس ہی نہیں ہو گی تو وہ کاروبار کیاخاک
کریں گے ۔الٹا ہم اپنی پالیسی کے طفیل نوجوان وں کو بھی قرض کے بوجھ تلے دے
دیں گے اور یہ سارا پیسہ بھی ضائع ہو کر رہ جائے گا جس کے ذمہ دار بھی
ہمارے حکمران اور ان کی پالیساں ہوں گی ۔بہتر تو یہ ہے کہ میاں صاحب اگر اس
ملک کو چلانے کی صلاحیت سے عاری ہیں تو حکومت سے الگ ہوجائیں یا توانائی کا
بحران حل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر توجہ دیں ۔ ہماری ناقص رائے میں اگر
حکومت توانائی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی تو کم از کم پورے ملک کی بجلی
آئندہ 6ماہ تک مکمل طور پر بندہی کردیں تو یہ عوام و خواص کے حق میں بہتر
ہوگا تاکہ لوگوں کو پتہ ہو کہ اب 6ماہ بجلی کے بغیر ہی کام چلانا ہے ۔۔بجلی
اور گیس کی بندش کے باعث ملک کے تمام پیداواری شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ
چکے ہیں لوگوں نے ملازمین کو اداروں سے نکالنا شروع کر دیا ہے ظاہر ہے کہ
جب فیکٹریاں اور کارخانے نہیں چلیں گے تو مالکان اپنے ملازمین کو بغیر کام
کے معاوضہ کس طرح دے سکتے ہیں۔لہذاء ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ملک
کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں
ہو سکتا ۔ معاشی طور پر مفلوج قوم موجودہ حالات میں ایک دوسرے سے دست و
گریبان تو ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے
لیکن اندھیروں میں معاشی انقلاب کی تمنا پوری ہونا ممکن نہیں ،کاش! ہمارے
حکمران ملک و ملت کی ان مشکلات کو دور کرنے کیلئے ایسے اقدامات پر توجہ
دینے کی تدبیر کر سکیں کہ جن سے حقیقی معنوں میں ملک ترقی و خوشحالی کی
منزل سے ہمکنار ہو سکے اور لوگ ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر وطن عزیز سے
ہجرت کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے از خود تعمیر وطن کے عمل میں شریک ہو
جائیں ،اسی میں ہماری بقاء ہے ۔ کیونکہ معاشی بد حالی میں ترقی و خوشحال کا
خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔بقول شاعر
بشر بے چین ہو تو انقلاب آیا ہی کرتا ہے
|