دعوتیں ہی درست کر لیں

 بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ایک صاحب شادی کے کھانے میں مدعو تھے کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر شادی ہال پہنچ گئے اس وقت میزبان بھی نہ پہنچے تھے ۔ بادل نخواشتہ بیٹھ گئے ۔ پہلے میزبانوں کی آمد ہوئی پھر مہمانوں کی آمد شروع ہوئی۔ان صاحب نے ہچکچاتے ہوئے کسی سے پوچھا کہ کھانا کب شروع ہو گا، اسے بتایا گیا کہ بس دولہا آ جائے تو کھانا شروع ہو جائے گا ۔ کافی انتظار کے بعد دولہا صاحب تشریف لائے بلکہ یہ بھی انکشاف ہوا کہ دولہا کو دانستہ روکا گیا تھا کہ جب تک اکثر مہمان نہیں آجاتے دولہا نہ آئے۔ کافی انتظار کے بعد دولہا صاحب آئے ۔ ان صاحب کی جان میں جان آئی کہ چلو اب کھانا شروع ہو گا لیکن دولہے میاں تو سیدھے مستورات میں دولہن کے پاس چلے گئے اب پتہ چلا کہ پہلے فلم بندی ہوگی۔ یہ تکلیف دہ مرحلہ بھی طے ہوا اب لوگوں کی نظریں کھانے کی طرف لیکن اب بھی کھانا شروع نہیں ہو رہا تحقیق سے پتہ چلا کہ بیٹی کے سسرال والے ابھی نہیں پہنچے انکے بغیر کھانا شروع کرنا تو گویا جرم عظیم ہے۔

یہ ہماری دعوتوں کا حال ہے جو کہ محبتوں میں اضافے کے بجائے وبال بنتی جارہی ہیں ۔ کارڈ پر لکھے وقت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ،حالانکہ علماء فرماتے ہیں یہ ایک قسم کا وعدہ ہے جس کے بارے میں کل قیامت کے پوچھ ہوگی

ولیمہ سنت ہے اور لڑکی والوں کی طرف سے کھانا تو سنت بھی نہیں، جبکہ وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے ۔ اب ذرا سوچیں کہ کتنا وبال ہم شادی کے موقع پر ہم سمیٹ رہے ہیں۔

وعدہ خلافی کا گناہ ، لوگوں کو بے جا انتظار کرنے کی تکلیف کا گناہ ، رات گئے واپسی پر صبح فجر کی قضاء کا خطرہ۔ اگر اگلے دن مدرسہ یا اسکول ہو توبچے کلاسوں میں سوتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہاں تک سنا ہے کہ طلباء اچھی پوزیشن اس لئے حاصل نہ کرسکے کہ امتحان کے دنوں میں خاندان میں شادیاں تھیں، عمر رسیدہ افراد پر شرکت کے لئے ڈباؤ ڈالا جاتا ہے چاہے انکی صحت اجازت نہ دیتی ہو۔

ہم بحیثیت قوم یہ سوچیں کہ کیا اس طرح قومیں ترقی کرتی ہیں؟بقول ایک بزرگ کے ً جو قومیں اہم اور غیر اہم کاموں میں تمیز نہیں رکھتیں اس قوم میں نظم و ضبط اور سلیقہ نہیں آیا کرتا ً-

آج غیر مسلم قوموں کی مثالیں دی جاتی ہیں حالانکہ یہ پابندی وقت دراصل ہمارا سرمایہ ہے کیا غیر مسلم قوموں میں وعدہ پورا کرنے کے واجب ہونے اوروعدہ خلافی کے گناہ ہونے کا ہے کا تصور ہے؟ یہ درحقیقت ہمارا سرمایہ ہے ۔

منگنی سے شادی تک چار سے پانچ کھانے ہو جاتے ہیں ان پر ہونے والے اخراجات مثلا کھا نے کاخرچ، شادی ہال، عورتوں کے لباس کا خرچ(ہر دعوت میں الگ جوڑا اور میچینگ کے پرس ،جوتے)وغیرہ کا تخمینہ لگایا جائے اور اگر یہی پیسہ صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جائے تو قوم کا کتنا بھلا ہو جائے۔

جن کے بڑے خاندان ہیں ہر وقت کسی نہ کسی کی شادی سامنے کھڑی ہوتی ہے ، اب ان دعوتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے ہر شادی کی دعوتوں میں شرکت مشکل ہوتی جارہی ہے ، دعوت میں نہ جائیں تو شکایت ، شادی والے کسی کو بھول جائیں تو شکایت تو گویایہ دعوتیں خاندانی جھگڑوں کا باعث بھی بنتی جارہی ہیں۔

اگرہم ہمت کریں کہ شادی میں ولیمے کے علاو ہ سارے کھانے ختم کر دیں اور ولیمہ کرنے والے بھی ایسا وقت رکھیں اور وقت کی پابندی کریں کہ وقت پر آنے والا شخص اپنے آپ کو کوسنے کے بجائے یہ محسوس کرے کہ اس نے یہ بھی ایک اچھا کام کیاہے۔

Muhammad Ilyas
About the Author: Muhammad Ilyas Read More Articles by Muhammad Ilyas : 41 Articles with 39636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.