اﷲ کاشکروہی بندہ اداکرتاہے جوانسان کے احسانوں کاشکرگزارہوتاہے

باسمہ تعالیٰ

(امام نانوتوی عالمی ایوارڈکے تناظرمیں)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے مرفوعاایک روایت نقل کی ہے،جسے امام احمدامام ابوداؤداورامام ترمذی نے اپنے سنن میں نقل کیاہے:’’لایشکراﷲ من لایشکرالناس‘‘(احمد:حدیث نمبر۷۷۵۵،ابوداؤد:حدیث نمبر۴۱۹۸،ترمذی:حدیث نمبر۱۹۲۶)اس حدیث کامفہوم بیان کرتے ہوئے علامہ عبداﷲ بن بازنے لکھاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوراس کامطلب یہ ہے کہ جوشخص اﷲ کے بندے کے احسانوں کاشکرادانہیں کرتاوہ اپنی فطرت میں ناشکراہونے کی وجہ سے اﷲ جل جلالہ‘کابھی شکرادانہیں کرتاہے۔ابن مفلح رحمۃاﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’’آداب شرعیہ‘‘میں اس حدیث کے ضمن میں لکھاہے کہ جوشخص انسانوں کے احسانوں کاشکرادانہیں کرتاہے اﷲ عزوجل اپنے ایسے ناشکرابندوں کے شکرانہ کوقبول بھی نہیں کرتاہے،کیوں کہ ایک طرح سے اس نے کفران نعمت کاارتکاب کیاہے،اورجوشخص اپنے بھائی کے احسانوں کابدلہ لفظ شکریہ کے ساتھ ادانہیں کرسکتاویساشخص اﷲ تعالیٰ کے احسانات کاجوکہ بے انتہاہے کس طرح شکرگذارہوسکتاہے؟جب کہ اﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام شاکراورایک نام شکوربھی ہے۔اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح لفظوں میں ارشادفرمادیاہے کہ:’’لئن شکرتم لازیدنکم،ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘(ابراہیم:۷)کہ اگرتم میری نعمتوں کاشکراداکروگے تومیں تمہیں اورزیادہ دونگااوراگرتم نے کفران نعمت کاارتکاب کیاتویادرکھوکہ میری پکڑبہت سخت ہے۔مذکورہ بالاحدیث اورقرآن کی روشنی میں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ انسان کوہرحال میں اﷲ کی نعمتوں کاشکراداکرناچاہیے،اوراس سے بڑھ کریہ کہ اگروہ نعمت تمہیں اپنے کسی بھائی کے ذریعہ ملی ہوتوچاہیے کہ پہلے اپنے اس بھائی کاشکریہ اداکروتاکہ تمہاراوہ بھائی جس نے تم پریہ احسان کیاہے وہ بھی خوش ہوجائے اوراس کاشکراداکرنے کی وجہ سے اﷲ بھی تم سے راضی ہوجائے۔

احسانات اورشکریہ کاتعلق ہرانسان کی زندگی سے بڑاہی قریب ہے،اوریہ ایک ایساتعلق ہے جوانسانی زندگی کے ہرشعبہ سے ہروقت منسلک ہے،کوئی انسان خواہ کتناہی بڑاہوجائے،مال ودولت اوردنیاوی آرائش وزیبائش سے اس کامحل بھراپراہواپھربھی اسے کسی نہ کسی لمحہ میں کوئی ایسی ضرورت آن پڑتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے سے بہت چھوٹے انسان کی مددلینے پرمجبورہوجاتاہے،عام لوگوں کے ساتھ تویہ پوری زندگی چلتارہتاہے ،انہیں ہرہرقدم پرکسی نہ کسی کے تعاون کی کسی نہ کسی شکل میں ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے،اوریہ بھی دیکھاگیاہے جوشخص اپنے محسن کے احسان کویادرکھتاہے وہ کبھی بھی پریشان نہیں رہتاہے بلکہ ہرشخص بڑھ چڑھ کراس کاتعاون کرنے کے لیے تیاررہتے ہیں،لیکن جواحسان فراموش ہوتے ہیں،وہ ہمیشہ دردرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبوررہتے ہیں،کیوں کہ یہ ایک طرح سے اﷲ کی نعمتوں کاناشکرابندہ ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ اسے ذلت ورسوائی سے دوچارکرتے ہیں،ایسے ہی موقع سے اس حدیث کامفہوم مزید واضح ہوجاتاہے کہ جوشخص انسان کاشکریہ ادانہیں کرتاوہ اﷲ کابھی شکرگذاربندہ نہیں رہتاہے۔

ابھی گذشتہ دنوں ہندوستان میں ایساہی ایک واقعہ رونماہواجس نے دل ودماغ کوجھنجھوڑکررکھ دیا،ایسے واقعات کاہوناعام سی بات ہے لیکن جب ایسے واقعات میں اکابراہل علم وفضل کانام جڑجاتاہے جوصبح وشام قال اﷲ وقال الرسول کادرس دیتے رہتے ہیں توپھردل بے چین ہوجاتاہے اورافسوس ہوتاہے کہ جب ہمارے بڑے ہی قرآن وحدیث کی سراسرمخالفت کریں گے توپھرعوام الناس سے کیاامیدرکھی جاسکتی ہے؟واقعہ کچھ یوں ہے کہ گذشتہ مہینہ جنوری کے وسط میں ہندوستان کے مشہورعالم دین نے جنوبی افریقہ کے شہرجوہانسبرگ سے قریب آزادویل میں واقع دارالعلوم آزادویل میں ایک تقریب رکھی،تقریب کاعنوان برصغیرہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے علماؤں کے سرخیل حجۃ الاسلام امام نانوتوی رحمۃ اﷲ کے نام سے آغازکیے گئے ایوارڈکے تقسیم کاتھا،اس پروقارتقریب میں امام نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے شروع کیاگیا’’امام نانوتوی عالمی ایوارڈ‘‘خانوادہ نانوتوی کے آخری چراغ اورجانشین حکیم الاسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی کوان کی بیش بہاعلمی وملی خدمات کی بنیادپردیاگیا۔اس پروقارتقریب میں دنیابھرکے تقریبا۸۰؍ممالک کے ۲۰۰؍سے زائداہل علم وفضل موجودتھے جن کی موجودگی میں یہ عالمی ایوارڈ حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی کوپیش کیاگیا۔ایوارڈ ملنے کے بعددنیابھرسے لوگوں نے مبارکبادیاں پیش کیں جوکہ ایک رسم بھی ہے۔جب حضرت والادیوبندتشریف لائے توان کے اعزازمیں تہنیتی پروگرا م کاانعقادکیاگیااوراس پروگرام میں جوکچھ ہواوہ توقع کے خلاف تھا،ہرمنصف مزاج انسان اس تہنیتی پروگرام میں ہونے والے واقعہ سے نالاں نظرآیا،اورافسوس کی بات تویہ ہے کہ میڈیااورصحافی حضرات جن کاکام سماج کوآئینہ دکھانے کاہوتاہے انہوں نے بھی اس موقع پراپناکرداربخوبی نہیں اداکیا،ممکن ہے کہ بہت سارے نامہ نگاروں کوایوارڈکی حقیقت معلوم نہ ہواسی لیے انہوں نے ویسی ہی خبربنائی جیساکہ انہوں نے تہنیتی پروگرام میں سنالیکن بہرحال افسوسناک واقعہ ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ ’’امام نانوتوی عالمی ایوارڈ‘‘کے روح رواں فقیہ العصرحضرت مولاناخالدسیف اﷲ رحمانی اوران کے لائق صاحبزادہ جناب مولاناعمرعابدین قاسمی مدنی ہیں،انہوں نے ہی آج سے تین سال قبل ۲۰۱۱ء میں اس عالمی ایوارڈ کی شروعات کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دیوبندمیں منعقدہونے والے تہنیتی پروگرام میں کسی نے بھی ایک مرتبہ ان حضرات کاتذکرہ نہیں کیابلکہ سبھوں نے اس ایوارڈکوکسی نامعلوم افریقی تنظیم سے جوڑدیا،جب میں نے اخبارات میں خبردیکھی تومجھے لگاکہ شایداخباروالوں نے غلطی سے اس طرح خبرشائع کردی ہے لیکن جب میں نے دیوبندمیں موجودکچھ لوگوں سے رابطہ کیااوریہ معلوم کیاکہ کیااس تہنیتی پروگرام میں کسی شخص نے ایوارڈ دینی والی عظیم شخصیت حضرت مولاناخالدسیف اﷲ رحمانی یاالمعہدالعالی الاسلامی حیدرآبادجس کی زیرنگرانی یہ ایوارڈپروگرام منعقدکیاجاتاہے توجواب ملاکہ کسی نے بھی ان کانام لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی حتی کہ حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی کے لائق جانشیں حضرت مولانامحمدسفیان قاسمی مدظلہ العالی نے بھی اس جانب اشارہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔حقیقت حال جاننے کے بعدطبیعت بے چین ہوگئی اورسوچتارہاکہ کیاہوگیاہے ہمارے اکابرکو،آخرانہوں نے حقیقت بیانی سے کام کیوں نہیں لیا؟حقیقت کوچھپانے کی آخران کی مصلحت کیاتھی؟یہ ایساموقع تھاکہ اس موقع سے جہاں آپ نے حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی کوایوارڈملنے پرتہنیتی پروگرام اوراستقبالیہ پیش کیاوہیں اپنے محسن کے احسان کایہ بدلہ ہوتاکہ آپ ایک استقبالیہ تقریب حضرت مولاناخالدسیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی اوران کے لائق فرزندمولاناعمرعابدین قاسمی مدنی کے لیے بھی منعقدکرتے اوران کے اس عظیم کارنامہ کودنیاکے سامنے پیش کرتے،دراصل یہ عظیم کارنامہ جسے حضرت مولاناخالدسیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی نے انجا م دیاہے اگردیکھاجائے تویہ کام خانوادۂ قاسمی کاتھاکہ وہ اپنے عظیم پیش روجس کے نام پرپوری دنیاکامسلمان فخرکرتاہے ان کے نام پرخانوادۂ قاسمی کویہ عظیم کام کرناچاہیے تھا،لیکن حدہوگئی ناسپاسی اورناشکری کی کہ نہ توانہوں نے یہ کام کیااورنہ ہی اس عظیم کام کے کرنے والے کاشکریہ اداکیابلکہ شکریہ اداکرناتودوران کے نام تک کوحذف کرنے کی ناکام کوشش کی۔افسوس صدافسوس!

’’امام نانوتوی عالمی ایوارڈ‘‘کاآغازعالم اسلام بالخصوص عالم عرب میں علمائے دیوبندکے کارناموں کومتعارف کرانے کے عظیم مقصدسے کیاگیاہے۔امام نانوتوی عالمی ایوارڈ مولاناعمرعابدین قاسمی مدنی کی عظیم فکرہے جسے انہوں نے اپنے والدمحترم اورعظیم فقیہ کے تعاون سے عملی جامہ پہنایا۔مولاناعمرعابدین قاسمی مدنی جب مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے توانہوں نے محسوس کیاکہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں علمائے دیوبندکاتعارف جس اندازمیں ہوناچاہیے تھا نہیں ہواہے،اورانہوں نے اس سلسلہ میں مدینہ کے مشہورعالم شیخ محمدعوامہ اورہندوستان ودیگرممالک کے علماسے رابطہ کرکے مشورہ کیااورپھرالمعہدالعالی الاسلامی حیدرآبادکی نگرانی میں’’امام نانوتوی عالمی ایوارڈکمیٹی‘‘کاقیام عمل میں آیاجس کے صدرحضرت مولاناخالدسیف اﷲ رحمانی بنائے گئے اورسکریٹری مولاناعمرعابدین قاسمی مدنی منتخب ہوئے۔اس ایوارڈ کمیٹی کے سرپرستوں میں عالم عرب کی مشہورعلمی شخصیت شیخ محمدعوامہ اورہندوستان کے مشہورعالم دین حضرت مولاناڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلمالکھنؤ ہیں،دیگرممبران اورعہدیداران میں مختلف ممالک کے اہل علم وفضل شامل ہیں،اس ایوارڈکمیٹی کی بنیاد۲۰۱۰ء میں رکھی گئی اوراس کاپہلاایوارڈتقسیم پروگرام ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں منعقدکیاگیاجس میں ترکی کے مشہورعالم دین علامہ شیخ محمودآفندی کوپہلے امام نانوتوی عالمی ایوارڈ سے نوازاگیا،امام نانوتوی عالمی ایوارڈ کاپہلاسلسلہ شیخ محمودآفندی سے شروع کرنے میں بھی بڑی گہری مناسبت ہے کیوں کہ جس طرح آزادی کے پرآشوب دورمیں جب کہ ہرچہارجانب سے اسلام پرحملہ کیاجارہاتھاایسے نازک موقع پرامام نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے رفقاکے ساتھ مل کردارالعلوم دیوبندقائم کیااورپھرپورے ملک میں مدارس اسلامیہ کاجال پھیلادیا،اسی طرح ترکی میں بھی بہت زمانہ تک اسلام پرپابندی تھی،عربی زبان اورقرآن پرپابندی تھی،ایسے نازک دورمیں شیخ محمودآفندی نے پورے ملک میں مدارس قرآنیہ کاجال پھیلایااوراتناہی نہیں بلکہ اپنے پیروکاروں کومدارس ومکاتب کے قیام کی تلقین کیاکرتے تھے،اسی گہری مناسب کے پیش نظرشیخ محمودآفندی کوپہلاامام نانوتوی عالمی ایوارڈ دیاگیا۔ایوارڈکادورانیہ دوسال کارکھاگیاہے،دوسرے ایوارڈ کے لیے دنیابھرسے بہت سارے نام پیش کے گئے تھے لیکن آخرمیں یہی فیصلہ ہواکہ حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی بحیثیت خانوادہ نانوتوی ان کی بڑی بیش بہاخدمات ہیں،اوراب عمرکے آخری پڑاؤپرہیں،اورامام نانوتوی سے علمی نسبت ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی نسبت ہے،لہٰذادوسرے ایوارڈکاقرعۂ فال حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ العالی کے نام نکلااورانہیں جنوبی افریقہ میں ایک عالمی کانفرنس منعقدکرکے ایک پروقارتقریب میں یہ ایوارڈسونپاگیا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ایوارڈ دینے والی اصل شخصیت کانام غائب کرکے اسے زبردستی جنوبی افریقی تنظیم کے نام سے موسوم کرنے کی کوشش کی جوکہ انتہائی غیردیانتدارانہ اورغیرمنصفانہ قدم ہے جسے کوئی بھی انصاف پسندشخص قبول نہیں کرسکتا۔جنوبی افریقہ میں تقریب کے انعقادکامقصدعلمائے دیوبندکے کارناموں کودنیاکے مختلف گوشوں میں پہونچاناہے،اورعالمی ایوارڈ ہونے کی وجہ سے اسے ہرسال دنیاکے الگ الگ حصوں میں منعقدکیاجائے گا۔بہرحال خانوادہ قاسمی سے بالخصوص اوراہالیان دیوبندسے عمومی طورپرگذارش ہے کہ اب بھی وقت ہے انہیں چاہیے کہ وہ اس عظیم ہستی کے لیے بھی تہنیتی پروگرام اوراستقبالیہ تقریب منعقدکریں جنہوں نے اس عظیم کام کابیڑہ اٹھایاہے اوراہم کارنامہ کوانجام دیاہے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو،اوران کی اس عظیم خدمت سے وہ لوگ بھی متعارف ہوں جوابھی تک اسی بھرم میں ہیں کہ یہ ایوارڈکسی ہندوستانی ادارہ نے نہیں بلکہ افریقی تنظیم نے دیاہے۔تبھی ہم اس حدیث کے صحیح مصداق ہوں گے کہ اﷲ کاشکروہی اداکرسکتاہے جوانسان کے احسانوں کاشکرگذارہو۔

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46383 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More