سجدہ کے معنی ہیں جھکنا، رجوع
کرنا، توجہ کرنا، مخاطب ہونا، دھیان کرنا
اسلامی اصطلاح میں سجدہ سے مراد دوران عبادت ایک خاص طریقے سے اپنی پیشانی
اور ناک کو زمین پر رکھ کر اپنے رب کے سامنے جھکنا ہے سجدہ رب کی معبودیت
اور انسان کی عبدیت کا عملی مظاہرہ ہے ایک سجدہ وہ ہے کہ جب اللہ رب العزت
نے آدم کو تخلیق کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو آدم کے
آگے جھک جاؤ اس سجدے کا مقصد آدم یا انسان کی دیگر تمام مخلوقات پر برتری و
فضیلت ظاہر کرنا ہے لہٰذا حکم ربی کے مطابق تمام فرشتوں نے ماسوا ان میں سب
سے زیادہ عبادت گزار فرشتے ابلیس کے تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کر کے تمام
مخلوقات پر آدم کے شرف و فضیلت پر مہر تصدیق ثبت کر دی جبکہ نافرمان عبادت
گزار فرشتہ ابلیس بہ سبب تکبر و نافرمانی کے راندہ درگاہ اور ملعون ٹھہرا
جسے اللہ کے پاک کلام قرآن مجید میں شیطان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو
ازل سے انسان کا کھلا دشمن ہے جو ہر وقت انسان کو بہکانے کی تدبیر کرتا
رہتا ہے اور انسان کو ورغلانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا
بات ہو رہی تھی سجدے کی ، سجدہ اسلامی طریقہ عبادت یعنی نماز کا اہم رکن ہے
سجدہ کئے بغیر نماز مکمل نہیں ہو سکتی سجدہ محض جسمانی ورزش نہیں کہ خاص
طریقے پر پیشانی زمین پر رکھ کر سر کو جھکا لیا اور سجدہ ہو گیا یہ ایک
روحانی عمل اور عبادت ہے جس سے انسان کے دل کی تمام کدورتیں دور ہوتی اور
دل روشن ہو جاتا ہے سجدہ یا عبادت میں صرف اعضا کو مخصوص انداز میں حرکت
دینے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوتا بلکہ حالت سجدہ میں انسان کے جسم کے ساتھ
ساتھ روح اور دل کے خلوص نیت کی ہمنوائی ہی سجدے کو وہ سجدہ بناتی ہے کہ جس
کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے
‘وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات‘
یوں تو بہت سے مسلمان مسجدوں، سراؤں، درگاہوں وغیرہ میں باجماعت نماز ادا
کرتے ہوئے سجدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے
کتنے نمازیوں یا عبادت گزاروں کا سجدہ مقبول ہے اور کون ہیں کہ جو دن اور
رات کے زیادہ پہر عبادت و ریاضت میں گزار دینے کے باوجود بھی ان سجدہ کرنے
والوں کا سجدہ بارگاہ ایزدی میں قبولیت کا شرف پانے سے محروم رہ گیا ہے کہ
محض ظاہری طور پر عبادت گزار نظر آنا ہی سجدے کا حق ادا کرنا نہیں ہے بلکہ
ہر ظاہری عمل کا دارومدار روحانیت اور ہر روحانی عمل کا دارومدار ظاہری عمل
سے منسلک ہے
اگر رب کو انسان سے محض عبادت ہی مطلوب ہوتی تو نہ یہ کائنات تخلیق ہوتی نہ
زمین وجود میں آتی اور نہ ہی آسمان فضا میں معلق کیا جاتا اور نہ ہی انسان
کے لئے زمین و آسمان کے درمیان نباتات و جمادات چرند پرند پہاڑ دریا صحرا
سمندر یا کائنات کی دیگر مخلوقات کو پیدا کیا جاتا
انسان بھی فرشتوں کی طرح ہمہ تن مصروف عبادت رہتے بلکہ محض عبادت کے لئے
انسان کی ضرورت ہی نہ رہتی اس کام کے لئے فرشتے ہی کافی ہیں لیکن اللہ
تعالیٰ نے اس قدر عبادت گزار فرشتوں کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو تخلیق کیا
اور انسان پر اللہ کی عبادت اور رب کے سامنے سجدہ کرنے کو لازم ٹھہرایا ہے
انسان کے لئے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور یہ سجدہ انسان کی بھلائی کے
لئے ہے جو اسے شیطان کے شر سے محفوظ رکھتا ہے شیطان کی کوشش ہے کہ انسان کو
سجدے کی راہ سے بھٹکاتا رہے تاکہ وہ بھی شیطان کی پیروی کرتے ہوئے انسان سے
اپنے راندہ درگاہ ہونے کا انتقام لے سکے
فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا آدم کی برتری کے لئے اور آدم اپنے رب کو سجدہ
کرتے ہیں اپنے رب کی بزرگی و بڑائی بیان کرنے کے لئے اس بات کی شہادت کے
لئے کہ اللہ رب العزت ہی وہ واحد ہستی ہے جو یک و تنہا اس کائنات اور تمام
مخلوقات عالم کی خالق و مالک ہے بشمول تمام آبی وخاکی ہوائی و فضائی
مخلوقات عالم جنات و انس اور ملائک اللہ تبارک و تعالٰی ہی سب کا واحد پرور
دگار ہے
سجدہ انسان کو تکبر و نافرمانی سے روکتا ہے اور جو لوگ سجدہ کی عبادت سے
محروم ہیں وہی متکبر اور نافرمان ہوتے ہیں پھر ایسے ہی لوگوں کو شیطان بڑی
آسانی سے اپنی چالبازیوں کا نشانہ بنا کر اپنے ناپاک عزائم کے جال میں
پھانس لیتا ہے اس لئے خود کو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھنے کے لئے انسان کے
لئے لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرے اور صرف اللہ
کو ہی اپنا پروردگار مانے اللہ نے انسان کو بہت بڑا رتبہ عنایت کیا ہے اب
یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس رتبے کو بحال رکھے اور اپنا ہر عمل اسی رتبے
کے شایان شان کرے
انسان کو یہ زیب نہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو سجدہ کرے، قبروں کو سجدہ
کرے یا جیسے دیگر مذاہب میں پتھر کے بتوں، سورج اور چاند ستاروں کو دیکھ کر
سجدہ کرتے ہیں یہ عقیدہ و عبادت نہیں بلکہ شرک اور جہالت ہے
انسان کا انسان کو سجدہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی ذات اور اپنی قوت
عمل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے ہی جیسے دو ہاتھ پاؤں آنکھیں اور دیگر
اعضاء کی مخلوق انسان کو اپنے مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کے آگے
پیچھے خوشامدی بن کر چلتے پھرنا اور دست سوال دراز کرنا یہ کسی بھی انسان ے
شایان شان نہیں جو مانگنا ہے اپنے رب سے مانگو جو چاہتے ہو اپنے رب سے چاہو
وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے جو دوسروں کا رب ہے وہی تمہارا رب ہے اس
لئے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اپنے رب کے حضور عدا مانگو رب کو
سجدہ کرو
لیکن جب بھی اپنے رب کو سجدہ کرو خلوص نیت اور خلوص عمل کے ساتھ اور پورے
یقین کے ساتھ سجدہ کرو کہ خلوص نیت اور ایمان سے عاری سجدہ کبھی بارگاہ
ایزدی میں قابل قبول نہیں ہوتا اپنے سجدے کو قابل قبول بنانے کے لئے کچھ
اور تقاضے بھی پورا کرنے پڑتے ہیں اپنے ہر عمل کو احکام الٰہی کے مطابق
ڈھالنا پڑتا ہے اپنے دل دماغ سے غرور و تکبر کا خناس نکالنا پڑتا ہے اور
ایک فرمانبردار بندے کی حیثیت سے خود کو رب کے سامنے سجدہ کرنے کے قابل
بنانا پڑتا ہے کے بدعمل و بدنیتی کے ساتھ کئے گئے سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں
سجدے بھی بےکار ہیں جب کہ نیک نیتی سے کیا جانے والا ایک سجدہ بھی ان سب پر
بھاری اور رب تعالٰی کی برگاہ میں پسندیدہ و مقبول ہوتا ہے
المختصر سجدہ عبادت کا لازمی جزو، قرب الٰہی کا ذریعہ، شیطان کے شر سے
محفوظ رکھنے والی ڈھال انسان کے لئے عمل صالح کی تحریک کا راستہ اور دنیوی
و اخروی کامیابیوں کی کنجی ہے بشرطیکہ سجدہ کو کامل یقین اور حق کے ساتھ
ادا کیا جائے
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو شیطان کی ہر چال اور بہکاوے سے محفوظ
رکھے، ہمیں ہمیشہ عبادت گزاری، خدمت خلق اور نیکی کے راستے پر گامزن رہنے
کی توفیق عطا فرمائے ہماری دانستہ و نا دانستہ خطاؤں، کوتاہیوں اور لغزشوں
سے درگزر فرما کر ہماری توبہ، ہماری عبادتوں اور سجدوں کو اپنی اعلٰی و
ارفع برگاہ ایزدی میں قبول و مقبول فرمائیں (آمین) |