نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک کی آمد
آمد ہے- اس ماہ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی جیسے ماحول پر ایک پاکیزگی چھا
جاتی ہے، ہر طرف ایک نور پھیلا ہوا نظر آتا ہے، عام دنوں کی نسبت اس ماہ
مبارک میں نیکیوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے اور گناہوں کا تناسب کم ہوجاتا ہے،
گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی اس ماہ مبارک کی برکت سے نیکی کی جانب راغب
ہوجاتا ہے اور بالآخر برائی کا راستہ چھوڑ دیتا ہے- اگر غور کریں تو صاف
نظر آتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں ماحول میں ایک ایسی پاکیزگی چھا جاتی ہے کہ
اگر کوئی فرد برائی کی جانب بڑھنا بھی چاہے تو صرف اس ماہ مبارک کی برکت سے
وہ رک جاتا ہے۔ ایک اور فضیلت جو اللہ جل شانہ نے اس ماہ مبارک کو عطا
فرمائی ہے کہ اس ماہ مبارک میں شب قدر کو رکھا گیا ہے جو کہ ہزار مہینوں سے
بہتر رات ہے اور اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے
البتہ کئی بدبخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اس ماہ مبارک کی برکت سے بھی فیض
یاب نہیں ہوتے ہیں اور محروم ہی رہتے ہیں-
رمضان المبارک کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ َ
َ . يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا
كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO ترجمہ :اے
ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے
تھے شائد کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔( البقرہ آیت ١٨٣ )
اس آیت میں پچھلی امتوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی تشریح میں صاحب تفسیر ابن
کثیر فرماتے ہیں کہ َ َ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعودرضی اللہ
عنہ،حجرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عطا رحمت اللہ علیہ ضحاک رحمت اللہ علیہ
کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے ہر مہینہ میں تین روزوں
کا حکم تھا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے بدلا گیا
اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حجرت حسن بصری رحمت اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہنہ کامل کے رزے فرض تھے۔ ایک مرفوع
حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔ حضرت ابن
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی
نماز ادا کرلیں اور سوجائیں تو ان پر کھانا پینا ،عورتوں سے مباشرت کرنا
حرام ہوجاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلے وقتوں سے
مراد اہل کتاب ہیں ( تفسیر ابن کثیر پارہ ٢ صفحہ ١٩١ )
جبکہ کنزالایمان میں اس آیت کی تشریح میں بیان کیا جارہا ہے کہ “ اس آیت سے
ثابت ہوتا ہے کہ روزے عبادت قدیمہ ہیں زمانہ آدم علیہ السلام سے تمام
شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل
روزے سب امتوں پر لازم رہے “ (کنزالایمان حاشیہ نمبر ٣٢٥ )
جبکہ مولانا مودودی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ “ روزے فرض کرنے کا
اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو، تقویٰ کےاصل معنی حزر
اور خوف کے ہیں اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی
نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی جو بہترین تشریح میری نظر سے گزری ہے وہ
حضرت ابی ابن کعب نے بیان کی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تقویٰ
کسے کہتے ہیں کہ ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : امیر المومنین آپ کو کبھی ایسے
رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور
راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بارہا، انہوں نے پوچھا: تو
ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنا
دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں سے نہ الجھ جائے-
حضرت ابی ابن کعب نے فرمایا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے- زندگی کا یہ راستہ
جس پر انسان سفر کر رہا ہے دونوں طرف افراط و تفریط ،خواہشات اور میلانات
نفس وساوس اور ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھرا
ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت حق کی
راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقویٰ
ہے اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں- یہ
ایک مقوی دوا ہے جس کےاندر خدا ترسی و راست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔(
اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی )
رمضان المبارک جس کو اللہ جل شانہ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری
میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جب رمضان آنے
لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے
جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے ایک منادی
یہ آواز لگاتا ہے اے بدی کے طلب گار! رک جا اور ایے خیر کے طلب گار! آگے
بڑھ ( بخاری)
رمضان المبارک کے مختلف نام
صبر کا مہینہ : وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ( مشکوٰت شریف )
ہمدردی کا مہینہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا
آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قیدی کو چھوڑ دیتے اور ہر
سوال کرنے والے کو عنایت فرماتے۔
اللہ کا مہینہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ اور ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ َ
َ الصوم لی َ َ یعنی روزہ میرے لیے ہے۔ یہ اعزاز صرف رمضان المبارک کے
مہینے کو حاصل ہے کہ اس کو اللہ نے اپنا مہینہ قرار دیا۔ رمضان المبارک کا
پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔
اسی ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔ اور اسی ماہ مبارک میں شب قدر
رکھی گئی ہے۔ ( ہمارا وطن پاکستان بھی رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ہی
معرض وجود میں آیا تھا)
آج جب کہ ہم ایک پر آشوب دور میں جی رہے ہیں، اور بحیثت قوم مشکلات کا شکار
ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ماہ مبارک سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں،
اس ماہ مبارک میں اللہ سے اپنے تعلق کو بہتر بنائیں۔ قرآن کریم سے اپنا
تعلق جوڑیں، نوافل کا اہتمام کریں، تہجد کا اہتمام کریں، اور اگر ممکن ہو
تو مساجد میں اعتکاف کریں۔ اس ماہ مبارک میں کثرت سے استغفار کیا جائے،
اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی جائے، رات کی تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ
کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے لیے اور امت مسلمہ کے
لیے دعائیں مناگی جائیں۔ یہاں میں اپنے تمام قارئین سے یہ گزارش کروں گا کہ
اس ماہ مبارک میں اس بات کی کوشش کریں کہ قرآن پاک کی صرف تلاوت نہ کی جائے
بلکہ اس کو ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے
کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سچی کتاب میں ہم سے کیا مطالبہ کیا ہے۔ صدقات و
فطرات کا بھی اہتمام کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ اس ماہ مبارک میں صبح سے
شام تک بھوکے اور پیاسے رہ کر ان غریبوں اور فاقہ کشوں کا تصور ذہن میں
لائیں اور ان کی تکلیف کا احساس پیدا کریں کہ یہی روزہ کا مقصد ہے کہ انسان
کو دوسروں کی بھوک کا احساس ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان المبارک
میں میری، آپ کی اور ہم سب کی مغفرت فرمائے اور ہم اس ماہ مبارک کے اصل
مقاصد کو حاصل کریں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب کرے۔ آمین ثم آمین |