آزاد کشمیر بجلی کے 30ارب روپے کا قرض دار؟

پانی و بجلی کی وفاقی وزارت نے قومی اسمبلی کو بتا یاہے کہ مختلف آر گنائیزنشنزاور صوبائی حکومتوں کے ذمے 500بلین روپے واجب الادا ہیں اور اسی وجہ سے ملک کے گردشی قرضے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ممبر قومی اسمبلی شہر یار آفریدی کے سوال کے تحریری جواب میں وفاقی وزارت نے بتا یا کہ بجلی کے ٹیرف کے تعین اور ریکوری کے نظام کے بارے میں حکومت کی طرف سے پالیسی پر مبنی فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر اور صوبائی حکومتوں کے پاس بڑی رقم پھنسی ہوئی ہے۔وفاقی وزارت پانی و بجلی نے قومی اسمبلی کو بتا یا کہ آزاد کشمیر حکومت بجلی کے ٹیرف کے تعین کے حوالے سے ’ نیپرا ‘ کی ’جیورسڈکشن‘ کو تسلیم نہیں کرتی اور آزاد کشمیر حکومت کے ذمے بجلی کے بقایہ جات 30بلین روپے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک بجلی کے ٹیرف کی مد میں آزاد کشمیر کے ذمے بقایہ رقم 20بلین روپے بتائی جاتی ہے جو اب بڑھ کر 30بلین روپے بتائی جا رہی ہے۔1967ء میں آزاد کشمیر حکومت کے وفاقی حکومت کے ساتھ معاہدے کے مطابق آزاد کشمیر کو ضرورت کے مطابق بجلی مفت فراہم کی جانا تھی۔2003ء میں منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے کے حوالے سے وفاقی حکومت،واپڈا اور آزاد کشمیر حکومت کے سہ فریقی معاہدے کے مطابق آزاد کشمیر کو 2.59(دو روپے انسٹھ پیسے) فی یونٹ بجلی کا ٹیرف مقرر ہوا۔اس معاہدے میں طے پایا کہ آزاد کشمیر کو بجلی طے شدہ نرخ بمابق دو روپے انسٹھ پیسے فراہم کی جائے گی اور مستقبل میں اس ریٹ میں کمی بیشی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں وفاقی وزارت پانی و بجلی اور آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے چیف سیکرٹری کو بطور ممبر شامل کیا گیا۔اس کمیٹی نے آزاد کشمیر کے لئے 3.30(تین روپے تیس پیسے )فی یونٹ نرخ مقرر کرنے کی سفارش کی لیکن اس کمیٹی کی سفارشات اب تک زیر التوا ہیں۔اس معاہدے میں حکومت پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر پانی و بجلی آفتاب شیر پاؤ،چیئر مین واپڈا جنرل(ر) ذولفقار اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان شریک تھے۔

پاکستان بھر میں بجلی کی ترسیل ،بجلی فراہم کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر و ترقی اور دیکھ بھال واپڈا اپنے مالی وسائل سے کرتا ہے اور بجلی کی تقسیم کے نظام کو بحال و برقرار رکھنے کے لئے اربوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس آزاد کشمیر میں بجلی کی ترسیل ،ماسوائے گرڈ سٹیشن،گزشتہ ساٹھ سال کے دوران اپنے مالی وسائل سے کئے ہیں، بجلی کی فراہمی کے نظام کو بحال رکھنے پر آزاد کشمیر حکومت ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات بھی برداشت کر رہی ہے اور اس حوالے سے تقریبا پانچ ہزار افرادی قوت کو تنخواہ دی جاتی ہے جس کی ادائیگی آزاد کشمیر حکومت ہی کرتی ہے۔چناچہ آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان 2003ء میں طے پائے معاہدے کے مطابق آزاد کشمیر کو دو روپے انسٹھ پیسے فی یونٹ بجلی کی فروخت بالکل جائز و مناسب دکھائی دیتا ہے۔واپڈا کی جانب سے آزاد کشمیر کو بجلی فروخت کرنے پر ’ نیپرا‘ کے ٹیرف کا اطلاق نہ ہونا باقاعد ہ اور قانونی طور پر 2003ء میں طے پائے سہ فریقی معاہدے کا نتیجہ ہے۔اس صورتحال کے برعکس واپڈا بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر 500ارب روپے میں سے 30ارب روپے کی رقم آزاد کشمیر حکومت کے ذمے بیان کر رہا ہے ،جو کہ بالکل غلط اور وفاقی حکومت کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت کے معاہدے کی صریحا خلاف ورزی اور نفی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر بجلی کی مد میں ہر سال تقریبا 8ارب روپے ادا کرتا ہے اور بجلی کے استعمال کے ضمن میں آزاد کشمیر کے ذمے کوئی بقایہ رقم نہیں ہے۔واپڈا ’ نیپرا‘ کے مقرر ٹیرف کو بنیاد بناتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کے ذمے30ارب روپے کی خطیر رقم کا دعوی کر رہا ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ اس معاملے پر آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آ سکی ہے جبکہ واپڈا آزاد کشمیر حکومت کے ذمے 30ارب روپے کی بڑی رقم واجب الادا ہونے کی خوب تشہیر کر رہا ہے۔آزاد کشمیر حکومت کو یہ معاملہ اٹھانا چاہئے ورنہ بنئیے کے سود کی طرح یہ رقم بڑہتے بڑہتے آزاد کشمیر کو ویوالیہ قرار دیئے جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ تقریبا55ارب روپے والی آزاد کشمیر حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات تقریبا45ارب اور ترقیاتی تقریبا10ارب روپے ہیں۔ غیر ترقیاتی45ارب میں سے تقریبا40ارب روپے تنخواہوں کی مد میں صرف ہوتے ہیں،یوں اندازہ لگا لیں کہ منگلا ڈیم اور بجلی کے حوالے سے بھی واپڈا کی آزاد کشمیر پر کیا کیا ’’ مہربانیاں ‘‘ ہو رہی ہیں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615076 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More