پاکستان کو وجودمیں آئے ہوئے ایک
صدی بھی پوری نہیں ہو پائی ہے کہ عالمی مبصرین سمیت ظالمانہ پالیسیوں نے
رہنماؤں اور خالقوں کو پاکستانی کو تمام دنیا میں جرائم کی فہرست میں
نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانیوں کو
ائیرپورٹ پر الگ قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے اور ان کی تفصیلی تلاشی اور
پوچھ گچھ کا اہتمام ہوتا ہے۔ غیرقانونی سفر، جعلی دستاویزات، منشیات کی
سمگلنگ، دھوکہ دہی و فراڈ اور ان جیسے کئی سنگین الزامات میں ملوث
پاکستانیوں کی بڑی تعداد دنیا بھر کی جیلوں میں سزا کاٹ رہی ہے۔عالمی
مبصرین کے کہنے کو تو یہ سب پاکستانی مسلمان ہیں اور اپنے معاشرے میں خود
کو نمایاں رکھنے کیلئے ہر قسم کے جتن بھی کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ پاکستانی افراد دو قسم کے قوانین کے پابند ہیں، ایک قانون تو وہ
ہے جو اﷲ کی طرف سے ان پر نافذ کیا گیا ہے اور دوسرا قانون ملکی (برطانوی
ایکٹ) ہے جو ہمیں آزادی کی نعمت کے ساتھ وراثت میں ملا ہے۔ پہلے قانون کے
بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ اﷲ غفور الرحیم ہے، چھوٹے موٹے گناہوں
و خطاوٓں کو معاف فرما دے گا جبکہ دوسرے قانون کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہے
کہ یہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا ہے، اس لئے اسے توڑنے میں کوئی عار
نہیں۔ ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ میری بات سے اختلاف کریں مگر ہمارے ملک کی
اکثریت اسی اصول کو ملحوظ نگاہ رکھتی ہے۔ یہ درحقیقت بنیادی رویہ ہے جو آگے
چل کر سنگین قانون شکنی کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جدہ میں زیر حراست ہزاروں
پاکستانیوں کے بارے میں ایک ہفتہ کے اندر وزارت خارجہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔
خبروں کے مطابق ان افراد کو سعودی عرب میں غیر قانونی قیام کی وجہ سے
حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ لیکن پاکستانی سفارت خانہ بھی ان کے کاغذات
تیار کر کے انہیں ملک سے نکلنے میں مدد دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔سپریم
کورٹ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس نے اس حراستی مرکز میں
مقیم ایک شخص کی شکایت پر ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کرتے ہوئے وزارت
خارجہ سے جواب طلب کیا ہے۔ اس شخص نے عدالت عالیہ کو ایک ای میل میں مطلع
کیا تھا کہ جدہ کے حراستی مرکز میں کئی ہزار پاکستانی نظربند ہیں اور انہیں
نامکمل کاغذات کی وجہ سے ملک سے روانگی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستانی سفارتخانہ اس حوالے سے نہایت سست روی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کر
رہا ہے۔ حراستی مرکز میں رہائیش اور دیکھ بھال کی سہولتیں انتہائی ابتر
ہیں۔ اس لئے کئی پاکستانی تارکین وطن، وطن روانہ ہونے سے پہلے ہی جاں بحق
ہو چکے ہیں۔
سعودی حکام نے گزشتہ ایک برس سے ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو
نکالنے کے لئے مہم شروع کی ہوئی ہے۔ بظاہر تو یہ کارروائی ایسے لوگوں کے
خلاف کی جا رہی ہے جو کسی ایک پیشے سے وابستہ ہونے اور کسی ایک کفیل کے
ذریعے ویزا لگوا کر ملک میں آئے تھے۔ تاہم انہوں نے سعودی عرب آمد کے بعد
کسی دوسری جگہ کام کرنے کو ترجیح دی۔ سعودی قانون کے مطابق یہ سب لوگ غیر
قانونی ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ یا تو وہ نیا
کام تلاش کر کے ازسرنو نئے کاغذات تیار کروائیں یا پھر ملک چھوڑ دیں۔
تاہم یہ صورت حال سعودی حکام نے خود اپنے مالدار شہریوں کو برس ہا برس تک
سہولت فراہم کرنے اور انہیں ویزا سپانسر کے طور پر کثیر رقوم اینٹھنے کا
موقع دینے کے لئے خود پیدا کی تھی۔ سعودی حکومت کو بخوبی علم تھا کہ اکثر
سعودی کفیل کوئی کاروبار نہ ہونیکے باوجود ویزا فروخت کرنے کا کام کرتے
ہیں۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر غریب ملکوں سے تعلیم یافتہ یا ہنرمند لوگ اس
قسم کا ویزا خرید کر سعودی عرب آ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ اپنی استعداد
کے مطابق کام تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کئی دہائیوں سے
موجود تھا اور پورا نظام اس کو قبول کر رہا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ فائدہ
ان کام چور سعودی شہریوں کو پہنچتا تھا جو اپنی شہریت اور تعلقات کی بنیاد
پر وزارت محنت سے ویزے نکلوا لیتے تھے۔ یہ ویزے اگرچہ عام مزدوروں کے پرمٹ
ہوتے تھے لیکن انہیں غریب ملکوں کے مجبور بے روزگار لوگوں کو مہنگے داموں
فروخت کیا جاتا تھا۔گزشتہ برس کے شروع تک اس قسم کے غیر قانونی ورکرز کی
تعداد کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ سعودی عرب کی کل آبادی 27ملین ہے اور ان
میں 9ملین کے قریب تارکین وطن ہیں۔ یہ لوگ ملک کے اہم شعبوں میں خدمات
سرانجام دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جن تارکین وطن کو اب غیر قانونی قرار دیا جا
رہا ہے، وہ بھی ملک کی تجارت اور سوشل سروسز میں کم اجرت پر اہم کام
سرانجام دیتے رہے ہیں۔
تاہم اقتصادی دباؤ اور مقامی آبادی میں بیروزگاری کے خاتمہ کے لئے سعودی
حکام نے اچانک لیبر لاز میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ یا دوسرے لفظوں میں قانون
کو اپنی اصل شکل میں نافذ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ یہ اقدام کرتے ہوئے
بھی مجبور اور بے سہارا تارکین وطن کو ہی تختہ ستم بنایا گیا اور ان کو ہی
موردالزام ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ انہیں یہاں لانے والے سعودی شہریوں نے ان
مظلوموں کی مجبوری کے سبب مالی فائدہ بھی اٹھایا اور پھر ان کو بے سہارا
بھی چھوڑ دیا۔ قانون کی اصل خلاف ورزی ان سعودی شہریوں نے کی ہے جو جعلی
کمپنیوں کے ناموں پر وزارت محنت سے ویزے حاصل کر کے انہیں غریب ملکوں کے
بیروزگار لوگوں میں فروخت کرتے رہے ہیں۔
سعودی حکام نے البتہ اپنے ان قانون شکن شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں
کی۔ حالانکہ حق بات تو یہ تھی کہ حکومت اپنے ان شہریوں کو جو جعلی کفیل کے
طور پر مجبور غیر ملکیوں کو سعودی عرب بلاتے رہے تھے، اس بات پر مجبور کرتی
کہ وہ ان غریبوں سے ناجائز طور پر وصول کی گئی رقوم بھی واپس کریں اور
انہیں ملک سے جانے میں سہولتیں بھی فراہم کریں۔ اس کے برعکس سارا قہر مجبور
اور بے بس تارکین وطن پر ٹوٹ رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ملکوں کی
حکومتیں بھی ان شہریوں کی مناسب مدد کرنے اور سعودی حکام کو راست اقدام
کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
دیگر عرب ملکوں کی طرح سعودی عرب جیسے امیر ملک میں بھی انتہائی امتیازی
اور ظالمانہ امیگریشن پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں۔ کوئی بھی شخص ساری زندگی
سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے کے باوجود کبھی نہ تو اس ملک کی مستقل
سکونت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے شہریت کا حق حاصل ہوتا ہے۔ سعودی
شہریت دینے کا اختیار صرف ملک کے بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور وہ یہ اختیار
چند مخصوص لوگوں کو مراعات فراہم کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔سعودی عرب نے
دیگر غریب ملکوں یا ان کے عوام کی ہمدردی میں تارکین وطن کو اپنے ملک میں آ
کر کام کرنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کی ہے۔ بلکہ یہ پالیسی اس حکومت کی
سماجی اور معاشی مجبوری ہے۔ بیشتر سعودی باشندے یا تو اعلیٰ سرکاری عہدوں
پر کام کرتے ہیں یا وہ مختلف سرکاری مراعات پر گزارا کرتے ہیں۔ ان میں کام
کرنے اور ملک کا نظام چلانے کا شوق و ذوق موجود نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہی
سعودی عرب میں ملک کے تیل کے کثیر وسائل اور زائرین سے حاصل ہونے والی بے
پناہ آمدنی کو بھی غیر منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کی
وجہ سے بھی سعودی باشندوں میں بے چینی اور لاتعلقی کا احساس پیدا ہوا ہے۔
ان حالات میں سعودی نظام چلانے کے لئے غیر ملکی ورکر لائف لائن کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے
انہیں مسلسل سماجی اور سرکاری تعصب اور ظلم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ سعودی
حکومت نے اب غیر ملکی ورکروں کو ملک بدر کرنے کی جو حکمت عملی شروع کی ہوئی
ہے، وہ بھی اسی رویہ اور مزاج کی نشاندہی کرتی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ لاکھوں انسان کی کوشش ہے کہ ایمانداری سے اپنے زندگی
بسرکریں لیکن بدقسمتی سے ظالمانہ پالیسیوں کے خالق ایک پل میں ان سے جینے
کا حق چھیننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں افسوس کہ پاکستان جیسے ملک جو بیرون
ملک جانے والے تارکین وطن کی آمدنی سے استفادہ کرتے رہے ہیں اب مشکل میں
پھنسے ہوئے اپنے لوگوں کی مدد کے لئے بھی آمادہ نہیں ہیں۔ اصولی طور پر یہ
صورت حال عالمی ضمیر کے لئے بھی ایک سوال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اصول، انصاف
اور جمہوریت کی بات کرنے والی سب طاقتیں لاکھوں لوگوں کے ساتھ روا رکھے
جانے والے اس ظلم پر زبان دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں۔ بزگوں کہتے ہیں کہ ہر
سوالات کے جوابات دینے کا بہترین حل خاموشی ہے۔ |