خبر ہے کہ دورانِ امتحانات ،بڑھتی ہوئی نقل اور کاپی کلچر کے رجحان کے خلا
ف پبلک اسکول سکھر کے طلبہ نے احتجاجی ریلی نکالی ۔ کاپی کلچر کے خلاف
نکالی جانے والی اس ریلی میں بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی ۔ریل
کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے، جن پر کاپی کلچر اور نقل
مافیا کے خلاف نعرے درج تھے۔پبلک اسکول سکھر سے نکالی جانے والی ریلی کے
شرکاء کمشنر آفس پہنچے ، جہاں انھوں نے نقل کے خاتمے کے لیے نعرے بازی کی ۔ان
کا کہنا تھا کہ کاپی کلچر معاشرے میں تیزی سے پھیلتا ہوا نا سور ہے اور نقل
کا یہ رجحان ، قابلیت اور تعلیم کو تیزی سے تباہ و برباد کرنے کا سبب بن
رہا ہے ۔نقل کلچر نوجوانوں کے مستقبل اور ملک کی خوش حالی اور ترقی کو دیمک
کی طرح چاٹ رہا ہے ۔ملک کی نظریاتی ، معاشی اور معاشرتی سرحدیں کھوکھلی
ہوتی جارہی ہیں ، جس کی مثال اس طرح لی جاسکتی ہے کہ سی ایس ایس جیسے
انتہائی ضروری مقابلے کے امتحان میں ہزاروں امید واروں کے مقابلے میں صرف
چند سو امید وار بھی کام یاب نہیں ہوتے ۔ہمارے ملک میں تعلیم کے عدم فروغ
کی وجہ سے بے روز گاری ، اغوا برائے تاوان ، چوری ، ڈکیتی اور دہشت گردی
جیسے گھمبیر مسائل تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں ۔اس لیے حکومت اور وزارت ِ
تعلیم نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے نقل کے رجحان کو ختم کرنے
میں اپنا کردار ادا کرے ۔ کاپی کلچر کو ختم کرنے کے لیے انقلابی اقدامت کیے
جائیں اور نقل کے رجحان کو جرم قرار دیتے ہوئے اسمبلی میں قانون سازی کی
جائے اور اس پر عمل دار آمد کو یقین بنایا جائے ۔
پچےجا دنوں سندھ کے سینیر وزیر برائے تعلیم و خواندگی نثار احمد کھوڑو نے
سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کاپی کلچر پر ہمیں طعنے
ملتے ہیں ۔ہماری ڈگریوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو شک
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ سے کاپی کلچر کا
خاتمہ کریں گے ۔میں اساتذہ اور طلباء سے کہتا ہوں کہ وہ امتحان کی تیاری
کریں ۔ہم نقل کو روکنے کے لیے ہر اقدام کریں گے ۔
یہ حقیقت ہے کہ نقل کلچر ہماری تعلیمی پسماندگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے ، جس
کا تدارک بہت ضروری ہے ۔ سکھر کے طلبہ و طالبا ت نے جن خدشات کا اظہار کیا
، وہ بالکل درست ہیں ۔جب تک نقل کے فروغ کی سرکاری سطح پر حوصلہ شکنی نہیں
کی جائے گی ، ہم تعلیمی میدان میں پسماندہ ہی رہیں گے ۔اجتماعی سطح پر
ہمارے طلبہ و طالامت میں وہ تخلیقی اور شعوری صلاحیتیں پیدا نہیں ہو سکیں
گے ، جو انھیں دنیا بھر میں ممتاز و فائق کر سکیں ۔یہ بات بھی اپنی جگہ
بالکل درست ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روز گاری میں سب سے بڑی رکاوٹ
یہی نقل ہے ، جس کے بل بوتے پر یہ نوجوان ڈگریوں پر ڈگریاں تو لیتے جاتے
ہیں ، مگر اپنی نہاں صلاحیتوں کو ابھار نہیں پاتے ۔پھر اسی قابلیت اور
صلاحیت کی کمی کی وجہ سے کسی اچھی نوکری کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ۔
نقل کے سد باب کے لیے اگر ردرج ذیل چند تجاویز بروئے کار لائی جائیں تو بہت
فائدہ ہو سکتا ہے ۔
1۔ سال کے ابتدا میں ہی سرکاری سطح پر یہ اعلان کر دیا جائے کہ اس دفعہ جو
اسٹوڈنٹ کسی بھی ذریعے سے (مثلا موبائل ، کاپی یا کسی اور ذریعے سے )نقل
کرتے ہوئے پکڑا جائے گا، اس کے خلاف قانونی کار روائی کرنے سے بالکل گریز
نہیں کیا جائے گا ۔(مجھے باقی صوبوں کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ وہاں نقل
کی کیا سزا ہے ، لیکن سندھ میں نقل کی سزا یہ ہے کہ امید وار تین سال تک
امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا ۔ )
2۔ تمام اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپل ، ہیڈ ماسٹروغیرہ کو سال کی ابتدا
میں ہی محکمہ ِ تعلیم کی جانب سے نوٹس بھیج دیا جائے کہ وہ اپنے شاگردوں کی
پڑھائی پر خصوصی توجہ دیں اور انھیں امتحانات کے دوران نقل نہ کرنے کی
تنبیہ کریں ، تا کہ وہ قانونی کارر وائی اور سزا سے بچ سکیں ۔
3۔ امتحانی مراکز میں سوائے امید واروں ، نگرانوں اور متعلقہ حکام کے کسی
کو اندر جانے کی اجازت نہ دی جائے ۔ ( میں نے بارہا دیکھا ہے کہ امیدواروں
کے رشتہ دار اور دوست وغیرہ امتحانی مراکز میں بے باکی سے داخل ہو جاتے ہیں
اور امید واروں کو نقل فراہم کرتے ہیں ۔اکثر اوقات نگران کو ڈرا دھمکا کر
کلاس سے ہی نکال دیتے ہیں ۔یہ کتنے فسوس کی بات ہے !)
4۔ چھوٹے چھوٹے جیبی سائز کی حل شدہ کتابوں پر پابندی عائد کی جائے ۔(برائے
مہربانی ان کتابوں کے شائع کرنے والے ناراض نہ ہوں ، کیوں کہ یہ حل شدہ
جیبی سائز کی کتابیں نہ صرف طلباء کو نقل فراہم کرنے میں آسانیاں فراہم
کرتے ہیں ، بلکہ ان کی وجہ سے طلباء نصاب کی اصل کتاب بھی نہیں پڑھتے ۔ )
5۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ نقل کے سدباب کے قانون پر عمل ضرور کیا
جائے ۔ (ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں قانون تو بن جاتے ہیں ، لیکن عمل
نہیں کیا جاتا ۔)
نقل کے سدبا ب کے لیے ماہرین ِ تعلیم کے ذہنوں میں اور بھی بہت سی تراکیب و
تجاویز ہوں گی ۔جس کی روشنی میں ایسے مؤثر قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں ، جن
کی مدد سے نقل کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکے ۔وطن ِ عزیز میں معیاری
تعلیم کے احیا کے لیےسرکاری سطح پر انقلابی اور سخت اقدام اٹھانا نا گزیر
ہو چکا ہے ۔
|