پاکستان کے مشرق میں اگر بھارت واقع ہے جو اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع
ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تو دوسری طرف خوش قسمتی سے شمال میں چین جیسا دوست
ملک بھی موجود ہے جو ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ رہتا ہے۔ پاکستان میں
ترقیاتی کاموں میں چین کا ہمیشہ ایک بہت بڑا اور مثبت رویہ رہا ہے۔ چین نا
صرف پاکستان میں ترقیاتی اور تکنیکی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچاتا رہا ہے
بلکہ تکنیکی تعاون بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔ ہیوی میکینیکل کمپلیس سے لے کر
شاہراہ ریشم تک ہر جگہ چین کی دوستی کے ثبوت موجود ہیں اور یہی رویہ ہمیشہ
پاکستان کی طرف سے رہا ہے اگر چہ وہ اس قسم کے منصوبے چین میں نہیں چلا سکا
ہے لیکن سفارتی سطح پر چین کے قیام سے لے کر آج تک ہر موقع پر اس کا زبردست
حامی رہا ہے۔ دونوں ممالک کی دوستی ہر فورم پر مثالی رہی ہے اور ایک دوسرے
کے لیے حو صلے کا باعث بھی۔ لیکن بین الا قوامی اور علاقائی طاقتیں اس
دوستی سے زیادہ خوش نہیں رہتی کیونکہ یہ اُن کے مفاد میں نہیں اگر چہ اس سے
اُن کا نقصان بھی نہیں لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دونوں ملکوں میں
غلط فہمیاں یا خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب کی بار یو نا
ئیٹڈ سٹر یٹجی انسٹیٹیوٹ کی نیوز بریف میں بیفیلو پیٹوسی نے ایک مضمون لکھ
کر اِن طاقتوں کی ترجمانی کی۔ جس میں اُس نے نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش
کیا اور یہ یقیناًصرف اس کا نکتۂ نظر نہیں ہے بلکہ ایک سوچ کو ہوا دینے کی
کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی کے ساتھ ساتھ قومی میڈیا کو
بھی استعمال کیا گیا ۔ ایک بڑے اردو روزنامے میں جس کے خیالات اکثر قومی
مفادات و خیالات سے متصادم ورنہ تو مختلف ضرور ہوتے ہیں کے ایک بڑے کالم
نگار نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جیسے چین اور پاکستان کے
درمیان دوستی کی بنیادیں ہل رہی ہوں۔ دراصل گوادر کی بندرگاہ چین کو دینے
پر اُن ملکوں کو اعتراض ہے جو بحر ہند کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں
گوادر سے سینکیانگ تک بننے والی شاہراہ اور اس کے ذریعے چینی تجارت کو ملنے
والی ترقی ان لوگوں کی معیشت کے لیے ایک ایسا خطرہ ہے جسے شاید مغربی دنیا
برداشت نہ کر سکے۔ چین اس وقت اپنی صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کی وجہ سے
دنیا میں جس مقام تک پہنچا ہوا ہے وہ مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کر چکا
ہے۔ آر یو ایس آئی کی نیوز بریف کے مطابق چینی سفیر کا یہ کہنا ہے کہ
پاکستان میں چینی ما ہرین کے لیے سیکیورٹی کے خد شات ہیں لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں کہ وہ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں گے اور جن کمپنیوں کا ذکر کیا
گیا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر چلی گئی ہیں تو بین الاقوامی تجارت اور صنعت
میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔پاکستان میں سیکیورٹی کے مسائل سے انکار
نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ مسائل بھی انہی طاقتوں کے پیدا کردہ ہیں اور اگر
آج یہ دہشت گردوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو ہمارے پہاڑ بارود کی بجائے
سونا اُگل سکتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ چین پاکستان میں اپنے
منصوبے بند کر رہا ہے یا کردے گا تو صرف ایک ماہ پہلے میں نے کراچی جاتے
ہوئے چینی انجنئیرز کو ان مشینوں پر کھڑے دیکھا جو نیشنل ہائی وے کی تعمیر
میں مصروف تھیں اور ہمیشہ ہی ان چینی کار کنوں کو پاکستا ن میں عزت کی نظر
سے دیکھا گیا ہے ۔ چین اگر چہ پوری دنیا میں کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے
لیکن پاکستان میں وہ صرف کام نہیں کر رہا بلکہ یہ کام وہ دوستی میں کر رہا
ہے اور عرصۂ دراز سے کر رہا ہے اُس وقت سے ،جب وہ امریکہ اور یورپ کی ٹکر
پر نہیں آیا تھا۔ اس لیے ان دونوں ملکوں کی دوستی جیسے ضرب المثل بن چکی ہے
ویسے کسی اور ملک سے نہیں ۔ ایک غلط فہمی یہ بھی پیدا کرنے اور پھیلانے کی
کوشش کی جا رہی ہے کہ سنکیانگ کی ایسٹ ترکستان اسلامک مو ومنٹ کو پاکستان
کی تحریک طالبان کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جبکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ
حکومت پاکستان کا اس سے کوئی تعلق ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ ایک
عظیم دوست اور پڑوسی سے تعلقات خراب کئے جائیں۔
پاکستان اور چین دونوں جو اپنی دوستی کو ہمالیہ سے زیادہ بلند قرار دیتے
ہیں کو ایسے بد نیت صحافیوں سے ضرور پوچھ گچھ کرنی چاہیے اور ہمارے اپنے
ملک کے ان عظیم ’’کالم نگاروں‘‘ کو بھی یہ سوچنا چاہیے جو چین کی ٹوکری میں
انڈے نہ رکھنے کے مشورے دے رہے ہیں جبکہ یہی لوگ جو امریکہ اور بھارت کے
بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں وہ ایک دوست کے بارے میں محتاط رہنے کی
کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کیا آج تک ہمارے ہاں کی کسی تخریبی کا روائی میں چین
کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا ہے اگر نہیں تو ہم کیوں اُس کی دوستی کو ماننے کی
بجائے اس سے پریشان ہو رہے ہیں ہاں اگر ایسا کوئی ثبوت موجود ہو تو ان کا
کہنا بجا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور پاکستان ہمیشہ ایک ساتھ اور
ایک دوسرے کی پشت پر رہے ہیں کہیں اور کبھی دوسرے کو اکیلا نہیں چھوڑا
لہٰذا اس دوستی کو قائم رکھنے کی ہر مو قعہ اور ہر نہج پر نہ صرف کوشش کرنی
چاہیے بلکہ اس پر فخر کرنا چاہیے۔ |