’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات
میں رنگ‘‘۔۔۔۔۔۔شاعر مشرق نے اپنے ان خوبصورت الفاظ میں عورت کے مقام کا
تعین تو کر دیاہے لیکن اب معاشرے نے اس تصویر میں کیسے کیسے رنگ بھرے وہ
قابل ذکر ہیں۔۔۔ ہم کسی بھی معاشرے کی بات کریں عورت کے موضوع پر بات کرنے
سے قلم کو روک نہیں سکتے ۔دو باتیں سامنے آتی ہیں کہ عورت پر بات کی جائے
یا عورت کے مقام پر۔۔۔۔۔۔۔ شاعر حضرات نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے
شاعری کی ’ع‘، ’غ‘ تک عورت کو گھسیٹا اہوا ہے۔ مقام عورت دیکھا جائے تو اس
کی نشاندی اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب نے نہیں کی۔ ہندو دھرم میں عورت کی
حیثیت پاؤں کی جوتی کی سی تھی، پسند آئی تو پہن لی، ناگوار لگی تو اتار
پھینک دی، شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا،
عورت کو ستی کر دیا جاتا، یہی نہیں بلکہ اسلام سے پہلے جن گھروں میں بیٹی
پیدا ہوتی اسے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا۔، قربان جائیں مذہب اسلام پر جس
کی آمد سے عورت کو عزت ملی، اسے حقوق ملے، معاشرے میں ایک مقام ملا۔ اسلام
نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں نہایت قابل احترام درجے
دیئے ہیں، جو کسی اور مذہب نے نہیں دیئے، اسلام نے ایک ایسا مقام عطا کیا
جو غیر مسلم عورتوں کے لیے قابل رشک ہے۔
جوں جوں دنیا ترقی کی سمت بڑھ رہی ہے، توں توں پاکستان میں دہشت اور وحشت
کی صورت حال متوازی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ جہاں ایک طرف دہشت گردی پر جوش ہے
وہیں دوسری طرف وحشت گردی بھی مختلف رنگوں میں سامنے آرہی ہے۔ دہشت گردی
اور وحشت گردی دو ایسی متوازی صورتیں ہیں جس میں پاکستان کے بچے اور عورتیں
بیلن کی طرح پس رہے ہیں۔ اسلام نے جو چادر عورت کے سر پہ ڈالی، آج شدت پسند،
پنجائیت کے جاہل لوگ اسی چادر کو تار تار کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ ماضی
قریب میں مختاراں مائی کا معاملہ عالمی سطح تک زور شور سے ابھرتا رہا اور
عدالت عظمی کے فیصلے سے ایک نیا رخ نکلا۔اس واقع سے اخباروں کووافر مقدار
میں سرخیاں ملی، ابھی سیاہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ضلع شکار پور کے علاقے
میں جرگہ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا کہ میڈیا میں تباہی مچ گئی ۔چار سال
پرانے قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے جرگہ نے ملزم گھرانے کی بچیاں مقتول گھرانے
کے مردوں کو سونپ دینے کا حکم دیا۔ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ
کے مطابق ، پاکستان کی عورتوں اور خاص طور پر بچیاں مظلوم طبقے سے تعلق
رکھتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان عورتوں کے معاملات میں تنگ نظر ہیں۔ حقیقت یہ
ہے کہ پاکستان کا معاشرہ مردانہ معاشرہ ہے جس نے اپنی زیادہ تر زنانہ آبادی
کے ساتھ دہشت ناک سلوک روا رکھا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے یہی نتیجہ اخذ کیا
جاتا ہے کہ مردانہ معاشرہ غیرت اور انا کی جنگ میں اسلامی قوانین و ضوابط
سے دور ہو تا جا رہا ہے۔
سندھی جرگہ سسٹم کے ظلم و ستم سے سبھی واقف ہیں سندھ میں قبیلے آپس میں
بچیوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے جرگوں پہ پابندی عائد بھی کی
لیکن جاگیردارنہ نظام کی جڑیں اتنی مظبوطی سے پھیل چکی ہیں کہ ان کا کاٹنا
نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان جڑوں میں عورتوں کو جکڑا
جا رہا ہے اور اس کے علاوہ سب سے زیادہ انسانیت سوز جرائم چھوٹے نابالغ،
سکول اور خاص طور دینی مدرسوں کے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم ہیں ۔ یہ ایسے
جرائم ہیں جن میں قدرت کے قوانین کے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ایسے جرائم پہ ایک
الگ کالم لکھا جا سکتا ہے لیکن ایسے مسائل کو کم ہی زیر بحث لایا جاتا ہے
اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ قلم جلتا رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
بم دھماکوں کی حرارت سے پاکستان کی سر زمین ا بھی ٹھنڈی نہیں ہو پائی تھی
کہ۲۴ جنوری کو مظفر گڑھ میں فضلاں بی بی کی چیخ و پکار بلند ہوئی۔۔۔۔۔۔، اس
حوا کی بیٹی کے ساتھ، پنجائیت کے حکم پر ۵ افراد نے اجتماعی زیادتی کی۔
پنجائیت میں عزت کا بدلہ عزت سے لینے کا مطالبہ کیا گیا، جس کو اجمل نامی
لڑکے کی بیوہ بہن فضلاں بی بی کو برہنہ کر کے پورا کیا گیا۔۔۔۔۔۔،خدارا یہ
کیسی پنجائیت ہے۔۔۔۔۔۔؟، یہ کیسے مطالبے ہیں۔۔۔۔۔۔؟یہ کیسے فیصلے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے مختلف کوائف جمع کر کے
حساب لگایا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم ازکم ۲ ہزار خواتین کی عصمت دری کی
گئی ہے، خیبر پختونخواہ صوبے ، بلوچستان اور سندھ میں عورتوں کی عصمت دری
اجتماعی زیادتی کیس اور اغواہ کیس جمع کر وائے گئے۔ ایسے کیس کے اعداد شمار
کی گنتی ممکن نہیں ہے، لیکن انسانی حقوق کے کمیشن کو مختاراں مائی جتنے
بلند خوصلے کی ضرورت ہے تاکہ حوا کی بیٹیوں کو ظالم معاشرے میں باعزت مقام
دلا سکے۔ |