✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Society & Culture Articles
انہی لوگوں نے چھینا ڈوپٹہ میرا۔۔۔۔۔۔
(Lubna Azam, )
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔۔۔۔۔۔شاعر مشرق نے اپنے ان خوبصورت الفاظ میں عورت کے مقام کا تعین تو کر دیاہے لیکن اب معاشرے نے اس تصویر میں کیسے کیسے رنگ بھرے وہ قابل ذکر ہیں۔۔۔ ہم کسی بھی معاشرے کی بات کریں عورت کے موضوع پر بات کرنے سے قلم کو روک نہیں سکتے ۔دو باتیں سامنے آتی ہیں کہ عورت پر بات کی جائے یا عورت کے مقام پر۔۔۔۔۔۔۔ شاعر حضرات نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے شاعری کی ’ع‘، ’غ‘ تک عورت کو گھسیٹا اہوا ہے۔ مقام عورت دیکھا جائے تو اس کی نشاندی اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب نے نہیں کی۔ ہندو دھرم میں عورت کی حیثیت پاؤں کی جوتی کی سی تھی، پسند آئی تو پہن لی، ناگوار لگی تو اتار پھینک دی، شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا، عورت کو ستی کر دیا جاتا، یہی نہیں بلکہ اسلام سے پہلے جن گھروں میں بیٹی پیدا ہوتی اسے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا۔، قربان جائیں مذہب اسلام پر جس کی آمد سے عورت کو عزت ملی، اسے حقوق ملے، معاشرے میں ایک مقام ملا۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں نہایت قابل احترام درجے دیئے ہیں، جو کسی اور مذہب نے نہیں دیئے، اسلام نے ایک ایسا مقام عطا کیا جو غیر مسلم عورتوں کے لیے قابل رشک ہے۔
جوں جوں دنیا ترقی کی سمت بڑھ رہی ہے، توں توں پاکستان میں دہشت اور وحشت کی صورت حال متوازی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ جہاں ایک طرف دہشت گردی پر جوش ہے وہیں دوسری طرف وحشت گردی بھی مختلف رنگوں میں سامنے آرہی ہے۔ دہشت گردی اور وحشت گردی دو ایسی متوازی صورتیں ہیں جس میں پاکستان کے بچے اور عورتیں بیلن کی طرح پس رہے ہیں۔ اسلام نے جو چادر عورت کے سر پہ ڈالی، آج شدت پسند، پنجائیت کے جاہل لوگ اسی چادر کو تار تار کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ ماضی قریب میں مختاراں مائی کا معاملہ عالمی سطح تک زور شور سے ابھرتا رہا اور عدالت عظمی کے فیصلے سے ایک نیا رخ نکلا۔اس واقع سے اخباروں کووافر مقدار میں سرخیاں ملی، ابھی سیاہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ضلع شکار پور کے علاقے میں جرگہ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا کہ میڈیا میں تباہی مچ گئی ۔چار سال پرانے قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے جرگہ نے ملزم گھرانے کی بچیاں مقتول گھرانے کے مردوں کو سونپ دینے کا حکم دیا۔ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ، پاکستان کی عورتوں اور خاص طور پر بچیاں مظلوم طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان عورتوں کے معاملات میں تنگ نظر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرہ مردانہ معاشرہ ہے جس نے اپنی زیادہ تر زنانہ آبادی کے ساتھ دہشت ناک سلوک روا رکھا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ مردانہ معاشرہ غیرت اور انا کی جنگ میں اسلامی قوانین و ضوابط سے دور ہو تا جا رہا ہے۔
سندھی جرگہ سسٹم کے ظلم و ستم سے سبھی واقف ہیں سندھ میں قبیلے آپس میں بچیوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے جرگوں پہ پابندی عائد بھی کی لیکن جاگیردارنہ نظام کی جڑیں اتنی مظبوطی سے پھیل چکی ہیں کہ ان کا کاٹنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان جڑوں میں عورتوں کو جکڑا جا رہا ہے اور اس کے علاوہ سب سے زیادہ انسانیت سوز جرائم چھوٹے نابالغ، سکول اور خاص طور دینی مدرسوں کے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم ہیں ۔ یہ ایسے جرائم ہیں جن میں قدرت کے قوانین کے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ایسے جرائم پہ ایک الگ کالم لکھا جا سکتا ہے لیکن ایسے مسائل کو کم ہی زیر بحث لایا جاتا ہے اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ قلم جلتا رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
بم دھماکوں کی حرارت سے پاکستان کی سر زمین ا بھی ٹھنڈی نہیں ہو پائی تھی کہ۲۴ جنوری کو مظفر گڑھ میں فضلاں بی بی کی چیخ و پکار بلند ہوئی۔۔۔۔۔۔، اس حوا کی بیٹی کے ساتھ، پنجائیت کے حکم پر ۵ افراد نے اجتماعی زیادتی کی۔ پنجائیت میں عزت کا بدلہ عزت سے لینے کا مطالبہ کیا گیا، جس کو اجمل نامی لڑکے کی بیوہ بہن فضلاں بی بی کو برہنہ کر کے پورا کیا گیا۔۔۔۔۔۔،خدارا یہ کیسی پنجائیت ہے۔۔۔۔۔۔؟، یہ کیسے مطالبے ہیں۔۔۔۔۔۔؟یہ کیسے فیصلے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے مختلف کوائف جمع کر کے حساب لگایا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم ازکم ۲ ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے، خیبر پختونخواہ صوبے ، بلوچستان اور سندھ میں عورتوں کی عصمت دری اجتماعی زیادتی کیس اور اغواہ کیس جمع کر وائے گئے۔ ایسے کیس کے اعداد شمار کی گنتی ممکن نہیں ہے، لیکن انسانی حقوق کے کمیشن کو مختاراں مائی جتنے بلند خوصلے کی ضرورت ہے تاکہ حوا کی بیٹیوں کو ظالم معاشرے میں باعزت مقام دلا سکے۔
< PREVIOUS
آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز اور ڈاکٹر میاں عبدالرشید
NEXT >
چین ایک عظیم دوست
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
09 Feb, 2014
Views: 1207
About the Author:
lubna azam
Read More Articles by
lubna azam
:
43 Articles with 44231 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Society & Culture
Articles
تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
اپنے اندر کی ہوا نکال دیں خوش رہیں گے
پریشانی، مصیبت و نقصانات کو بھولنا سیکھیں اور آگے بڑھ جائیں
آخری قہقہہ
View all Society & Culture Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
بے نیازی
بلوچ ایک محب وطن قوم
کیا پتہ کسی کے دل میں اتر جائے یہ بات
مسجد عائشہ سے عمرہ اور بھارتی عمرہ زائرین سے دوستی
The role of media in today's world
CHILD LABOR IN PAKISTAN
Present problems of Pakistan
Short history of pakistan independence (1900-1947)