اﷲ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بہتر زندگی کی تعبیر مختلف ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہم ایسی زندگی کے بارے میں
سوچتے ہیں جس میں انسانی ضروریات غیرضروری دباؤ کے بغیر پوری ہوں، اس کے
مصائب کم سے کم ہوں اور اس کے اطمینان وتسکین کے پہلو زیادہ ہوں، تاکہ
انسان اپنی زندگی کو ایسا تجربہ سمجھے جس میں لطف اندوزی اور توقیر کااحساس
پایا جائے۔کثیر الجہتی ضروریات، مادی، حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی کی
اہمیت کو ضرور سمجھا جائے اور ان کو پورا کیا جائے۔اگر ہمارے سامنیــ’’بہتر
زندگی‘‘ کی منزل ہو تو پھر واضح انداز سے یہ سوچنا ممکن ہے کہ ترقی اس منزل
کی جا نب رواں ہونے کا نام ہے اور تحقیق اس حرکت اور روانی کیلئے مہمیز کا
کام کرتی ہے۔ترقی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ زیادہ پیداوار کا نام
ہے اور پھر اس کی منصفانہ تقسیم بھی اور موقع فراہم کرنا کہ انسان مادی،
حیاتیاتی، نفسیاتی اور معاشرتی حالات سے استفادہ کر سکے۔اس طرح وہ اپنی
زندگی کو اس قابل ڈھال سکے گا جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔ترقی کا مطلب ہے کہ
اس چیز کی بہتات ہو جس کو ہم گر انقدر سمجھتے ہیں اور وہ چیز کم سے کم ہو
جس سے ہم خوفزدہ ہوتے ہیں۔اس طرح ہم بہترزندگی کی جانب رواں ہوتے ہیں۔ ترقی
کے یہی خصائص تحقیق کے مقاصد بھی ہیں۔انسانی کی یہ خواہش کہ وہ زیادہ صاحب
علم ہو، اپنی قوت فیصلہ کو بہتر بنا سکے، اپنی قوت میں اضافہ کر سکے، اپنے
کام کا بوجھ ہلکا کر سکے، آلام و مصائب کو کم سے کم کر سکے اور ہمہ پہلو
ضروریات کی تسکین کر سکے۔یہ تحقیق کے بڑے بڑے اور بنیادی مقاصد ہیں۔آخر میں
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تحقیق کا جواز اس بناء پر ہے کہ یہ بہتر زندگی کے
حصول کیلئے خدمات انجام دیتی ہے اور ترقی میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ اس
لیے کہا جاتا ہے کہ تحقیق محض سچائی کی تلاش کانام نہیں ہے۔گویا غیر سماجی
تحقیق بھی قابل قدر ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف طبعی علوم کے نتائج بھی
جمالیاتی اور اعلیٰ اقدار کے حامل فوائد سے خالی نہیں ہیں۔اگر سردی کے موسم
میں ہم گرم کرنے والے جدید نظام سے گرمی حاصل کرتے ہیں اور گرمیوں میں
مشینی ذرائع سے ٹھنڈک حاصل کرتے ہیں۔تو کیا اس میں انسانی حیات کے لئے
زیادہ لطف اٹھانے کے امکانات نہیں ہیں۔برقی روشنی سے راحت کو ہمارے گھرمنور
ہوتے ہیں اس سے ہم آسانی سے پڑھ سکتے ہیں اور دوسر ی سماجی تقریبات کے
مواقع پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہم صوتی ریکارڈ اور ریڈیو سے موسیقی سنتے ہیں،
ادب عالیہ جب جدید مشینی ذرائع سے طباعت کے مرحلے سے گزرتا ہے تو کیا وہ
ادب عالیہ نہیں رہتا۔درحقیقت جدید ٹیکنالوجی نے ایسے کثیر مواقع پیدا کر
دیے ہیں جن کی وجہ سے فنکارانہ اظہار ہو سکتا ہے اور جمالیاتی پہلوؤں کی
نشر و اشاعت کی وسیع تر بنادیتا ہے اس حد تک جس کا ہم گزشتہ صدیوں میں
تصوربھی نہیں کر سکتے تھے۔ سائنس کی ترقی انسانی نے بہت کچھ حاصل کیا۔فاصلے
سمٹ کر کم رہ گئے ہیں، تیز رفتار ذرائع نقل وحمل نے وقت کی بہت زیادہ بچت
کا نظا م فراہم کر دیا ہے۔طبی میدان میں تحقیق سے ناقابل علاج امراض پر
قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے۔وہ علوم جو انسانی معاملات سے بظاہر دور معلوم
ہوتے ہیں، درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ خارجی دنیا سے ہمارا تمام تعلق مادی یا
طبعی ہے۔وہ اشیاء جن سے ہم اپنی غذا کا سامان فراہم کرتے ہیں، وہ اسی مادے
کے اجزاء سے مل کر بنی ہیں جن کا طبیعیات اور کیمیا کے ماہرین تجربہ گاہوں
میں مطالعہ کرتے ہیں۔وہ حرارت جو ہمارے گردوپیش میں موجود ہے وہ ہوا جو
ہمارے قریب سے گزرتی ہے وہ روشنی جس سے ہم دیکھتے ہیں وہ آواز جو ہم سنتے
ہیں۔وہ خوشبو جو ہم تک پہنچتی ہے، حرکت کا دباؤ اور تبدیلی جو ہم محسوس
کرتے ہیں۔یہ تمام خالصتاً مادی مظاہرہیں جن سے ہمارے محسوس کرنے والے اعضاء
دو چار ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے اس موقف کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔جس کی وجہ
سے طبعی علوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی اقدار سے کم سطح کے
ہیں۔ہم انفرادی حیثیت سے مادی مسائل کی جانب زیادہ توجہ دینانہیں چاہتے
لیکن ہمیں پورے خلوص کے ساتھ شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایسے ماہرین موجود ہیں
جو ان کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ مادی
عناصر ہماری ضروریات سے ہم آہنگ ہیں لیکن سائنس دان تو ہماری طرح اس بات کا
انتظام نہیں کر سکتے۔کہ کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہو جائے تو تب وہ توجہ
دیں۔لہٰذا تحقیق انسانی روح کی فطری، فکر انگیز اور عقل افزاخواہش ہے اس کے
بغیر انسان شکست وریخت کا احساس رکھتا ہے، مایوس اور احساس شکست سے دبا ہوا
نظر آتا ہے۔موجودہ ترقی کے ساتھ قدم روک لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم آنے
والی تما م نسلوں کو زندگی کے اہم حصے اور امید کے عنصر سے محروم کر رہے
ہیں۔کیونکہ تحقیق بہتر مستقبل کے لئے ایک کھلا ہوا دروازہ ہے۔ یہ اس یقین
کامنبع ہے کہ انسان آگے کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے۔یہ وہ چیلنج ہے جو معاشرے
سے جمود کے خوف کو دور کرتا ہے جب تک تحقیق کا مضبوط پروگرام موجود ہے اس
وقت تک تہذیب کو زوال نہیں آسکتا کیونکہ یہ مسلسل ایسے چیلنج فراہم کرتی
رہتی ہے جو انسان کو آگے لے جاتے ہیں۔اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ’’ تحقیق محض
سچائی کی تلاش کا نام نہیں ہے‘‘ |