انسان جب اپنی عمر کا نصف صدی گزارچکتاہے تواسے پچھلی نصف
صدی کی باتیں اور یادیں اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہیں۔ایک فرد جب بچہ ہوتا ہے
تو وہ دوسروں کی شادی میں شریک ہو کر خوش ہوتا ہے ۔جب جوان ہوتاہے تو اپنی
شادی کر کے خوش ہوتاہے۔(کچھ لوگوں کے نزدیک یہ اختلافی مسئلہ ہے)اور جب
بوڑھا ہوتاہے تو بچوں کی شادی کرکے خوش ہوتا ہے۔عمر کے اس حصے میں آدمی کچھ
اپنی ذمہ داریوں یعنی بچوں کی شادیوں وغیرہ سے یا تو فارغ ہوچکاہوتاہے یا
اس کے قریب ہوتاہے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں اس عمر میں خود ایک فرد اپنی یادوں
کی بارات کا دولہا بن جاتا ہے۔جس طرح اب سے کچھ عرصہ قبل تک دولہے کو
باقاعدہ پھولوں کا سہرا پہنایا جاتا تھا ،اب یہ سلسلہ کچھ کم ہو گیا ہے
مجھے بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا تھا ۔ شروع شروع میں تو بڑا اچھا لگا بہنیں
اور رشتہ دار خواتین گیت گا رہی ہیں بہنوئیوں کو پکارا جارہا ہے کہ آکے
سہرا باندھیں سہرا بندھنے کے کچھ دیر بعد عجیب کیفیت ہوگئی میں نے امی سے
کہا میرا دم گھٹ رہا ہے ،سانس رکتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے ۔والدہ نے کہا
ابھی تو کچھ دیر ایسے ہی رہنا پڑے گا۔جب نکاح ہو جائے گا پھر ہی یہ اوپر
اٹھ سکے گا۔تم چاہو تو ہاتھوں سے پھول کھسکا کر سانس لے سکتے ہو پھر انھوں
نے تسلی دیتے ہوئے کہاصبر کرو اور فکر نہ کرو تھوڑی دیر میں سیٹ ہوجاؤگے ۔وہ
دوسرے الفاظ میں یہ کہہ رہی تھیں کہ تھوڑی دیر میں عادی ہو جاؤ گے۔بظاہر تو
یہ ایک رسم تھی لیکن اس میں ایک بہت بڑا پیغام بھی پوشیدہ تھا کہ اب جو
تمھاری آئندہ کی زندگی شروع ہونے والی ہے اس میں شروع شروع میں تو بڑا اچھا
لگے گاپھر کچھ عرصے بعد تمھیں دم گھٹتا ہوا اور سانس رکتی ہوئی محسوس ہو گی
،لیکن پھر سیٹ ہو جاؤ گے ،یعنی اس کے عادی ہو جاؤ گے ،بس صبر اور برداشت اس
کی دو شرطیں ہیں۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔یہ مثال اس لیے دی کہ جس
طرح سہرا پہنے ہوئے دولہا اپنے سہرے کے پھولوں کے درمیانی جھرونکوں سے دیکھ
کر جائزہ لیتا رہتا ہے کہ کون لوگ اس کی محفل میں آچکے ہیں کون کون آرہے
ہیں اور کون نہیں آیاپھر برابر والے مہمان سے پوچھتاہے کہ فلاں صاحب نظر
نہیں آرہے ،وہ ان کے بارے میں بتاتے ہیں ۔بالکل اسی طرح آج جب میں نے حسن
افضال صاحب کا مضمون "حسن عسکری صاحب کی یادیں اور باتیں"پڑھا تو اچانک
مزید مطالعہ کا سلسلہ رک گیا اور میں ایک بار پھر ماضی کی حسین یادوں میں
کھو گیا اور اپنی یادوں کی اس بارات میں میں نے دیکھا کہ محمود اعظم فاروقی
صاحب سفید چوڑی دار پاجامہ اور کرتاپہنے بیٹھے ہیں ،صلاح الدین صاحب
شیروانی میں ملبوس کسی صاحب کی بات کا جواب دے رہے ہیں ،نیر علوی صاحب تدبر
و تفکر کی خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہیں ،محمود احمد مدنی صاحب کے ہونٹ ہل رہے
ہیں شاید وہ ذکر اذکار میں مصروف ہیں ،عبدالکریم عابد صاحب بھی خود کلامی
میں میں مشغول ہیں ،کشش صدیقی صاحب تو ہنسنے بولنے والے ساتھی تھے لیکن
خاموش ہیں کہ پچھلے دنوں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ،ایک طرف احمد سعید
قریشی بھی پان چباتے ہوئے نظر آرہے ہیں پان سے رنگین دانتوں کے ساتھ ان کی
مسکراہٹ ان کے چہرے کو مزید خوبصورت بنارہی ہے ،کس کس کا ذکر کریں منصور
شیخ ہیں اویس گوہر،قدوائی صاحب اور نصر احمد مخدومی بھی ہیں ویسے تو اس
محفل میں والدین،رشتہ دار ،محلے والے،دوست احباب سمیت بہت لوگ ہیں میں نے
تو صرف جسارت کے ساتھیوں وہ بھی شعبہ ادارت کے ساتھیوں کا ذکر کیا ہے اور
ابھی ابھی ایک کرسی پر جناب حسن عسکری فاطمی صاحب آکر بیٹھے ہیں۔آج جب اس
کالم کے ذریعے پتا چلا کہ ان کا انتقال 13جنوری کو ہوا تھا ،تو اپنے آپ پر
بہت غصہ آیاکہ بروقت یہ خبر کیوں نہ پڑھ سکااور سوچا کہ آج مدیر جسارت سے
بھی شکوہ کروں گا کہ "یار اطہر ہاشمی صاحب آپ نے بھی نہیں بتایا کہ حسن
عسکری فاطمی کا انتقال ہو گیا ہے ،لیکن ان کے متوقع بیک فائر کا سوچ کر
ارادہ ترک کردیا۔میں اگر ان سے یہ بات کہتا تو وہ لکھتے لکھتے رک جاتے اپنا
اپنا رخ رخسار اوپر کی طرف کرتے سگریٹ کا ایک کش لیتے پھر مجھے گھورتے ہوئے
اپنے منہ سے سگریٹ کا دھواں اور یہ جملہ ساتھ نکالتے کہ "میاں اسی لیے کہتے
ہیں کہ کبھی کبھی جسارت بھی پڑھ لیا کرو"اب انھیں کون بتائے کہ جسارت تو
روز پڑھتے ہیں کبھی کبھی کچھ مسنگ ہو جاتی ہے ۔اسی وجہ سے میں اپنے انتہائی
شفیق ،ملنسار ،بزرگ،مربی،مزکی اور تحریکی رہنما جناب پروفیسر عثمان رمز کی
نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکا تھا ۔شام کو چھوٹے بھائی نے دفتر سے آکر
پوچھا کہ آپ رمز صاحب کے یہاں جنازے میں نہیں آئے ،میں چونکا کہ ان کے یہاں
کس کا انتقال ہوا،اس نے کہا کہ ان کا خود کا انتقال ہوا ہے ۔دراصل چھوٹے
بھائی کے دفتر میں رمز صاحب کا بیٹاکام کرتاہے ۔اس لیے وہاں سے دفتر کے لوگ
گئے تھے۔میرا مسئلہ یہ ہوا کہ اس دن صبح کسی کام سے جلدی جانا تھا اس لیے
اخبار آیا تو تھا لیکن یہ سوچ کر کہ شام کو اطمینان سے پڑھیں گے رکھ دیا ۔اسی
میں یہ خبر لگی تھی کہ رات کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور ان کا انتقال
ہوگیا۔جناب حسن عسکری فاطمی صاحب سے میری کوئی دوستی یاقریبی تعلق تو نہ
تھا۔لیکن وہ دفتر کے ساتھی تھے اور اس طرح تقریباَروز ہی سلام دعاہوتی
تھی۔میں ان کی شخصیت،صلاحیت،شرافت اور علمیت سے متاثر تھا ۔ویسے تو ان سے
غائبانہ تعارف بھٹو دور سے ہی تھا جب ہفتہ میں ایک دو خبریں ان کے نام سے
بائی لائن شائع ہوتی تھیں،انکشافات سے بھر پور ایکسکلیسیو نیوز پڑھنے میں
بہت مزا آتا تھا ۔اس لیے کسی بھی خبر میں جب ان کا نام دیکھتے تھے تو اسے
پہلی فرصت میں پڑھ لیتے تھے ۔مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ جناح ہسپتال میں
ڈاکٹروں کی غفلت سے ایک بچی کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی ۔فاطمی صاحب نے وہ خبر
بریک کی تھی۔پھر اس خبر کی کاپی اور دیگر اس سے جڑی ہوئی تفصیل لکھ کر
اسلام آباد میں محمود اعظم فاروقی صاحب کو بھیجا جو اس وقت ممبر قومی
اسمبلی تھے ۔فاروقی صاحب نے اس مسئلہ کو ایوان میں اٹھایا تھا اس طرح فاطمی
صاحب کی یہ خبر پورے ملک میں پرنٹ میڈیا کی زینت بن گئی۔ یہ بات فاطمی صاحب
نے خود مجھے بتائی تھی ۔بس اس وقت ایک کھٹک رہتی تھی جسارت جماعت اسلامی کا
اخبار ہے اور فاطمی صاحب شاید شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہوں تو یہ سنگم
کیسے ہو گیا ،پھر یہ سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ ناموں کا کنفیوژن بھی
ہوسکتا ہے ،مگر جب جسارت میں ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ
وہ ہیں تو شیعہ لیکن مولانا مودودی کے عاشق ہیں ۔ویسے یہ کوئی خاص اچنبھے
والی بات بھی نہیں ہے ۔میں پہلے جس دفتر میں کام کرتا تھاوہاں کچھ لوگوں سے
اعانت لیتا تھا اس میں ایک صاحب جو شیعہ تھے وہ بھی جماعت کو اعانت دیتے
تھے ۔حسن عسکری فاطمی صاحب درمیانے قد کے ،دبلے نہ موٹے،چہرے پر چیچک کے
داغ،آنکھوں پر چشمہ،ڈاڑھی سے مزین اور ہونٹوں پر دبی دبی سنجیدہ مسکراہٹ کے
ساتھ چھوٹا ہو یا بڑا ادب و احترام سے گفتگو کرتے تھے ،طنزیہ تو نہیں لیکن
کبھی کبھی مزاحیہ جملے بول دیتے وہ بھی اس طرح کہ جس کے بارے بات کہہ رہے
ہوں اسے بھی برا نہیں لگتا تھا ۔میں سمجھتا ہوں وہ علم و دانش کے اس مقام
پر تھے جہاں لوگ طنز و مزاح کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں۔فاطمی صاحب
کی 2ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے میں نے ان کے بارے میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ
پر مشتمل لکھنا ان کا حق اور اپنا فرض سمجھا۔مولانا مودودی کی رحلت پر نعیم
صدیقی جیسے شاعر و دانشور سمیت کئی شعراء کرام نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش
کیا لیکن فاطمی صاحب نے بروقت جو نظم لکھی اس کا کوئی جواب نہیں ۔میں شاعر
ہوں نہ اس کے اسرارورموز کو سمجھ پاتا ہوں ۔مجھے شعر یاد بھی نہیں رہتا اور
جو یاد رہ جاتا ہے وہ شعر نہیں رہتا لیکن اشعار سننے اورمشاعرے میں شرکت کا
شوق ہے اس لیے تھوڑا سا ادبی ذوق تو موجود ہے ۔اسی کی روشنی میں سمجھتا ہوں
کہ "کہاں سے لاؤ گے ایسا راہبر دوستو"والی نظم فاطمی صاحب کا ایسا تخلیقی
شاہکار ہے جس سے مولانا کے چاہنے والوں کے جذبات کی بھر پور ترجمانی ہوتی
ہے۔جس وقت مولانا کے انتقال کی خبر آئی تھی اس وقت فاطمی صاحب نیوز ڈیسک پر
کام کر رہے تھے ۔خبر سنتے ہی قلم رک گیا پھر انھوں نے دوسرا کاغذ نکالا اور
یہ نظم لکھنا شروع کردیا جو دوسرے روز ہی جسارت میں شائع ہوگئی۔دوسری
خصوصیت یہ ہے کہ حسن عسکری فاطمی صاحب اگر پورے بر صغیر کے نہیں تو پاکستان
کے پہلے فرد ضرور ہیں جنھوں نے مولانا مودودی کے اوپر امریکا کی یونیورسٹی
سے پی ایچ ڈی کیا۔ہماری دعا ہے اﷲ تعالیٰ فاطمی صاحب کی مغفرت فرمائے،ان کے
درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
|