تابشؔ صمدانی - شخصی خاکہ

۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء بروز منگل کالج سے شام پانچ بجے گھر واپسی ہوئی ابھی کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی چھوٹے بیٹے نبیل نے کہا ابو مغیث دادا کا فون ہے بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوئے کہ ملتان میں تابش بھائی کا انتقال ہو گیا۔ میں نے ان کا پورا جملہ نہیں سنا۔ سنتا کیا ۔۔۔طویل تعلق ، ابھی تین ماہ قبل کی ملاقات اورکوئی ایک ہفتہ قبل اپنے نام ان کا تحریر کردہ خط جس کے ہمراہ انہوں نے اپنا تازہ مجموعہ کلام(مر حبا سیدی) بھی بھیجا تھا سب کچھ نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔ معلوم کرنے پر بتا یاکہ انتقال آج ہی سہ پہر چار بجے ہوا ہے کل ظہر کی نماز کے بعد تدفین ہو گی میں نے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا واقعی تدفین کل ظہر میں ہو گی کہنے لگے کے ہاں ایسا ہی ہو گا میں کل صبح بذریعہ ہوائی جہاز جارہا ہوں۔ میں نے یہ سوچ کر کہ اگر میں رات کی کسی بھی ٹرین سے سوار ہوجاؤ ں تو کل صبح بہت آسانی سے ملتان پہنچ جاؤنگا اور تدفین میں شرکت ہو جائے گی چنانچہ اس پروگرام پر عمل کر تے ہوئے میں رات کی ٹرین میں سوار ہونے اسٹیشن پہنچا شہناز ، عدیل اور نبیل اسٹیشن چھوڑنے گئے جوں ہی اسٹیشن پہنچا ٹرین سیٹی بجاتی ہوئی رینگنے لگی ، ٹکٹ بھی نہیں لیا تھا اگر ٹکٹ لینے رک جا تاتو ٹرین چھوٹ ہی جاتی ۔ میں چلتی ٹرین میں جو ڈبہ سامنے آیا سوار ہو گیا شروع میں تو سیٹ نہیں ملی رات میں کسی وقت پولس والوں کی مہر بانی سے بیٹھنے کی جگہ مل گئی ساتھ ہی ٹی ٹی سے ٹکٹ بھی بنوالیا اس طرح اگلے دن ۱۲ بجے کے قریب بڑی ہی مشکل سے گھر ڈھونڈ تا ہوا گھر پہنچا ۔ قسمت میں تدفین میں شرکت نہیں تھی گھر پہنچا تومعلوم ہوا کہ احباب ابھی ابھی قبرستان سے واپس آکر بیٹھے ہیں پروگرام میں تبدیلی کرتے ہوئے تدفین صبح ہی کردی گئی۔ ملتان کے اخبارات میں جو خبرتابشؔ صمدانی کے انتقال کی شائع ہوئی اس میں بہت واضح طور پر تحریرتھا کہ تدفین بعد نماز ظہر کی جائے گی۔نا معلوم کیا وجوہات تھیں۔ عام طور پر ہارٹ اٹیک کی صور ت میں انتقال ہو جانے یا بہت ہی موٹے جسم والے کے لیے تدفین میں عجلت کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہاں تو دونوں ہی صورتیں نہ تھیں ۔ عام زندگی میں ہی تابشؔ صمدانی انتہا ئی دبلے پتلے تھے رہی سہی کسر کینسر جیسے مرض نے پوری کر دی تھی ۔اس فیصلے سے نہ صرف میں بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے وہ احباب جنہوں نے اخبار میں تدفین کی خبر پڑھی تھی تد فین میں شرکت سے محروم رہ گئے ۔بعض احباب میری موجودگی میں تدفین میں شرکت کر نے ظہر کی نماز میں آئے۔ ان سب کو میری ہی طرح دکھ ہو اہو گا۔ دل ہی دل میں افسوس کر تا رہا کاش میں نے ٹرین سے پروگرام نہ بنا یا ہوتا اور ہوئی جہاز سے آجاتا اب کیا ہوسکتا تھا۔ دل میں تدفین میں عدم شرکت کی کسک لیے اسی رات واپسی کا سفر باندھا اور مشکل سفر کے بعد گھر واپسی ہوئی۔سفر میں مرحوم کی شخصیت اور ان سے کی ہوئی گفتگو اور خط و کتا بت جس کے مطابق میں نے ان سے کہا تھا کہ’’ میں آپ کی شخصیت اور نعت گوئی پر لکھوں گا ‘‘ کے بارے میں سوچتا رہا کہ کاش میں ایسا ان کی زندگی ہی میں کرسکتاپھر یکا یک خیال آیا کہ اب وہ ہم سے بہت دور جاچکے ہیں لیکن ان کی یادیں اور سب سے بڑھ کر ان کی کتا بیں (نعتیہ مجموعہ کلام) تو موجود ہیں جو اب میرے اس ارادے کی تکمیل میں معاون ہو نگی، یہ کتابیں انہیں تا ابد زندہ رکھیں گی۔معروف شاعر صہبا اختر نے کتاب کی اہمیت کو اپنی نظم ’’ کتابیں‘‘ میں اس طرح بیا ن کیا ہے۔
کتابوں کا افسوں نہیں ٹو ٹتا
کبھی ان کا سورج نہیں ڈوبتا
کتابوں کی طاقت ہیں فکر و خیال
کتابوں کو ممکن نہیں ہے زوال
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم جو کر تے ہیں زندہ کتابیں رقم

اپنے ارادے اور تابشؔ صمدانی سے کیے ہوئے و عدے کی تکمیل میں پانچ سال لگ گئے۔تابشؔ صمدانی پر کتاب تو نہ لکھ سکا ارادہ کتاب لکھنے کا ہی تھا یہ سوچ کر کہ انسان کی زندگی کا کیا بھروسہ ایسا نہ ہو کہ خواہش دل ہی دل میں رہ جائے اوراِسی خواہش میں اگر کہیں جنا ب ِتابشؔ سے آمنہ سامنہ ہو گیا تو میں انہیں کیا منہ دکھاؤنگابس مضمون پر ہی اکتفا کرلیا۔قارئین سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ تابشؔ صمدانی میرے والد کے چچا زاد بھائی ہیں اس رشتہ سے میرے چچا ہیں لیکن مجھے ان سے اور شاید انہیں مجھ سے خاص انسیت تھی ، وجہ مجھے نہیں معلوم ،میں تو ان سے اس وجہ سے متاثر ہوں کہ وہ میرے خاندان کے ایک ایسے فرد ہیں جو علم و ادب اور شعر گوئی کا اعلیٰ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آباؤاجداد کے علمی اور ادبی ورثہ کو اپنی آئندہ نسل میں منتقل کرنے کے امین تھے ۔وہ بھی مجھ پر مہر باں تھے شاید انہوں نے مجھ میں بھی کچھ ایسی ہی صفات محسوس کی ہوں واﷲ عالم بالثواب۔

نام طفیل احمدصمدانی ، تخلص تابشؔ، تابش صمدانی سے معروف ہیں۔ ہندوستان کے صوبے راجستھان کے شہر بیکانیر (جوکبھی ریاست بیکانیر تھی) میں اپنے آبا ئی مکان ’’آزاد منزل‘‘ میں ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء کو پیدا ہو ئے۔آپ خاندانِ باری بخش جو بعد میں خاندانِ حسین پور کہلایا کی ۳۶ ویں نسل سے ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا نام خلیل صمدانی اور دادا کا نا م شیخ محمد ابراھیم آزادؔ ہے۔ناچیز کے خیال میں :
باغِ ابراھیم کا ایک پھول ہیں تابش
جانشین آزادؔ اور جانِ خلیلؔ ہیں تابشؔ

آزادؔ ، خلیلؔ اور تابشؔ ایک ہی تسلسل کے تین نام ہیں ، خاندا ن، پیشہ، مزاج، عادات و اطوار، ذوق علم و آگہی، شعر گوئی وشعرفہمی اور سب سے بڑھ کر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم سے والہانہ عشق اور عقیدت اور اس کا اظہارنعت گوئی کے ذریعہ کرنا ایسی قدرِ مشترک ہے کے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایک ہی خاندان کے دادا، بیٹے اور پوتے میں تسلسل کے ساتھ اسقدر مطابقت اور قدر مشترک کا پایا جانا خدا تعالیٰ کا خاندان باری بخش کے لئے ایک انمول عطیہ ہے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کی اس عنایت پر جس قدر شکر ادا کریں کم ہے :
ہونہ کیوں ناز ہمیں آزا د ؔ ‘ خلیل ؔ و تابشؔ پر
کہ ایک ہی چمن کے یہ درخشندہ ستارے ہیں
رہی ہمیشہ جن کے لبوں پر سر کار کی مدحت
جو صدیوں میں ہوں پیدا یہ مہ انجم ہمارے ہیں

تابشؔ صمدانی نے اپنے آبائی شہر بیکانیر کے آبائی گھر ’’آزاد منزل‘‘ میں آنکھ کھولی تو آزاد منزل کے درو دیوار شعر و سخن کی فضاء سے منورو معمور تھے۔ آزاد منزل کو علم و ادب ‘شعر گوئی اور مدحت رسول ﷺ کی محافل کے انعقاد میں راجستھان میں عام طور پر اور بیکانیر میں خاص طورایک امتیازی حیثیت حاصل تھی۔بقول انصار محشرؔ عباسی امروہوی’’ بیکانیر میں اردو ادب کی داغ بیل کا سہرا آزادؔ مرحوم نے ڈالا ‘‘۔ ہندوستان کے معروف شعراء آزاد منزل میں منعقد ہو نے والی ادبی مجالس اور مشاعروں میں شر کت کیا کرتے تھے اس ادبی ماحول ‘ خاندانی اثرات اور اپنے والد کی سر پرستی نے تابشؔصمدانی کی شخصیت کو مجسم سخن فہم اور عاشق زار بنادیا :

وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات
کتنا خوش نصیب مدحت سرا ہے تابشؔ

تابشؔ صمدانی کو وکالت کے ساتھ ساتھ شعر و نعت گوئی ورثہ میں ملی ۔ تابش ؔصمدانی کے دادا جناب آزادؔ ا، والد بزرگوار خلیلؔ صمدانی اور خاندانِ باری بخش کے بے شمار احباب شعر و سخن کا ذوق رکھتے تھے۔تابشؔ نے از خود اس بات کا اعتراف بر ملا کیا کہ انہیں مدحت کا قرینہ ورثہ میں ملا ۔ آپ کہتے ہیں :
یہ بھی مرے اجداد کا احسان ہے تابش
ورثہ میں ملا ہے مجھے مدحت کا قرینہ

جناب حافظ لدھیانوی نے تابشؔ صمدانی کے مجموعے کلام ’مرحبا سیدی‘ میں ’فکر تابشؔ ‘ کے عنوان سے اظہار خیال کر تے ہوئے واضح کیا کہ ’’ تین پشتوں سے یہ معزز گھرانہ حضور ﷺ کے مدحت نگاروں کی حیثیت سے جا نا پہچانا جا تا ہے۔ تین پشتوں سے گھرکی فضاء میں نعت کے زمزمے گونجتے رہے ہیں میر انیسؔ نے اپنے خاندنی شرف کو بیان کر تے ہوئے کہا تھا ’’پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں‘‘حافظ صاحب نے اس مصرعہ کی مناسبت سے ایک اور مصرعہ کہا اور تابشؔصمدانی کو مشورہ دیا کہ وہ اس کرم خاص کا ذکر کر تے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ’’ تیسری پشت ہے سرکار کی مداحی میں‘‘۔الحمد اﷲخاندان باری بخش میں شروع ہی سے ذوق شاعری بدرجہ اتم موجود ہے اوران کا شمار حضور اکرم محمد مصطفی ﷺ کی مداح سراحوں میں ہوتا ہے۔ جناب آزادؔ کے بعد تیسری ہی نہیں بلکہ چوتھی اور پانچویں پشت میں بھی ذوق نعت گوئی پا یا جاتا ہے۔الحمد اﷲ تابشؔ صمدانی کے بیٹے رہبر اور سرور شعری ذوق رکھتے ہیں۔

عجز و انکساری کا پیکر ، قناعت اور پاک باطنی ان کی سرشت میں تھی ۔ تہذیب و شائستگی ان کے خمیر میں شامل تھی ۔ وہ ایک بے باک اور کھرے انسان تھے اور سب سے بڑھ کرسر تا پا عاشق رسول ﷺ اور بزرگوں کا حد درجہ احترام تابشؔصمدانی کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ علامہ احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے صاحبزادے جناب مظہرسعید شاہ کاظمی تابشؔصمدانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’جب میں نے تابشؔصمدانی کو قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نحیف و نزا ر اور کمزور و ناتواں شخص عزم صمیم کا پیکر‘ اِخلاص و ایثار کا مجسمہ اور جذبوں کا جوالا مکھی ہے عشق رسول ﷺ اس کا مسلک اور بزرگان دین اور اولیاء کرام سے عقیدت و محبت اس کا شرف ہے یہی وجہ ہے کہ نعت رسول ﷺ مقبول ہو یا منقبت اولیا کرام تابشؔصمدانی کے کلام میں ادبی خوبیوں اور فنی محاسن کے ساتھ ساتھ ان کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے اور مثرہ پر چمکتے ہو ئے آنسود کھائی دیتے ہیں‘۔ در حقیقت تابشؔصمدانی عجز و نکساری کا پیکر تھے بزرگوں کا حد درجہ احترام کیا کرتے اپنوں سے چھوٹوں کے ساتھ بھی انکساری سے پیش آتے بزرگوں کا احترام تو ان کی زندگی کا شعار تھا۔ ایک جگہ آپ کہتے ہیں :
مجھ کمتر و بے مایہ پہ الطاف کی بارش
تابشؔ یہ ثمر ہیں بزرگوں کی دعا کے

تابشؔصمدانی نمودو نمائش ، دکھاوے اور شہرت سے بہت دور تھے۔ ان کی گفتگوسادہ ، لباس میں حد درجہ سادگی ، رہن سہن میں سادگی اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ تابشؔصمدانی کی ظاہر ی اور باطنی کیفیت منکسرانہ اور عاجزانہ تھی وہ اپنی گفتگو ، لب و لہجہ ، چال ڈھال اور برتاؤ میں ایک مثالی انسان تھے البتہ شاعرانہ خصو صیات نمایاں تھی۔ انہیں دیکھ کر ایک عام آدمی بھی یہ کہ سکتا تھا کہ مو صوف شاعر ہیں۔ مولوی محمد سلطان عالم انصاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملتان کے مطابق ’’انہوں نے کبھی نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے ذرائع نہیں اپنا ئے پیشہ وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملتان میں نعت گوئی کے فروغ میں جو خدمات سر انجام دی ہیں انہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ملتان ہی کے جناب حافظ محمد فاروق خان سعیدی کا کہنا ہے کہ ’تابشؔصمدانی ملتان کی نامور اور ہر دلعزیز علمی و ادبی شخصیت ہیں آپ زود گو اور مشاق سخنور ہو نے کے ساتھ ساتھ ممتاز قانون داں بھی ہیں۔ شاعری کے علاوہ قانون دانی بھی آپ کو ورثہ میں ملی ہے‘۔

میں تابشؔ صمدانی کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل(۶ جنوری ۲۰۰۲ء)کو ملتان جا نے اور ان کی تیمارداری کا شرف حاصل ہو ا ۔برادر م سہیل صمدانی نے مشکل آسان کی اور اپنے ہمراہ مجھے تابشؔصمدانی کے گھر لے گئے ۔ راقم بہت عر صہ سے ان کی شخصیت اور نعت گوئی پر لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا چنانچہ دیگر باتوں کے علاوہ اپنے اس ارادہ کا اعادہ بھی کیا ۔ آپ اس وقت اپنی بیماری (کینسر) سے نبرد آزماں تھے ، سخت تکلیف اور کرب میں تھے۔ ایسی صورت میں انسان حوصلہ افزائی ہی کر سکتا ہے سو ایسا کیا اپنے مزاج کے مطابق کسر نفسی سے کام لیا بات یہ طے ہوئی کہ میں کراچی جاکر ایک سوالنامہ بھیجوں گا وہ ان سوالات کے جوابات تحریرکر کے بھیج دیں گے۔ چنانچہ راقم نے ایسا ہی کیا دوسری جانب موذی مرض ان پر حاوی آتا جارہا تھا اور وہ اس کے ہاتھوں اندر ہی اندر شکست کھاتے جارہے تھے۔اپنے انتقال سے ایک ماہ گیارہ دن قبل (۵ مارچ ۲۰۰۲ء) کو آپ نے راقم کو ایک خط تحریر کیا جس کے اوپرتحریر تھا ’’بستر علالت سے ‘‘ ۔ خط کا مکمل متن حسب ذیل ہے۔
بستر علالت سے - ۷۸۶ - 5/3/2002
عزیز محترم رئیس صمدانی صاحب سلام مسنون
کچھ روز ہوئے والانامہ ملا۔ علالت بڑھتی جارہی ہے۔ پروردگار عالم کی رحمت کی آس ہے۔ انسان کو ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ آج پھر کیمو تھراپی کے لیے اسپتال میں ایڈمٹ ہو رہا ہوں۔ ایک ہفتہ گھر پر اور دو ہفتے اسپتال میں گزرتے ہیں۔ انشاﷲ جلد ہی دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’مرحبا سیدی‘‘ منظر عام پر آرہا ہے پیش کروں گا۔’’آزادؔ ؒ‘‘ ‘ پر جو مضمون تحریر فرمایا اس کی کاپی عنایت کریں(اپنے جد امجد حضرت شیخ محمد ابراھیم آزادؔ پر راقم کا تحریر کردہ مضمون قصور سے شائع ہو نے والے رسالے ’انوار الصوفیہ ‘ میں شائع ہوا تھا )۔ انٹر ویو کے لیے بہتر اور معروف شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میں کیا اورمیری شخصیت کیا ۔ اگر زندگی اور علالت نے اجازت دی جس قابل ہوں سوالنامہ کا جواب عرض کر نے کی کوشش کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں آپ محنت اور کاوش فرمارہے ہیں۔یہ اپنی جگہ تعمیری کام ہے ۔ کراچی کے بیشتر عزیزان سے قریب قریب رابطہ ختم ہو گیا ہے اور نہ ہی ان حضرات کے ایڈریس معلوم ہیں۔

آپ نے ملاقات کے لیے وقت نکالا اس کے لیے میں آپ کا احسان مند ہوں۔ ’مرحبا سیدی‘ میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خط بھی شامل ہورہا ہے جو اپنی جگہ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ خدا کرے بات بن جائے اور یہ کلام بارگاہِ رسالت میں مقبول ہو جائے۔ علالت کے زمانے میں ہی کلام رہبر اور سرور ( دو نوں آپ کے بیٹے ہیں)سے یکجا کروایا ۔ خود ہی اپنے کلام کا جیسا تیسا انتخاب ہو سکا کیا ہے۔انشاء اﷲ کتاب آنے پر فوری آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا فرمائیں خیریت سے یہ شارٹ کامیاب رہے اور گھر خیریت سے واپسی نصیب ہو۔ بھابی صاحبہ (راقم کی والدہ محترمہ)کی خدمات میں خاص طور پر دعا کی استدعا ہے۔ عزیزان کے لیے سلام و دعا۔ گھر کا فون نمبر ۷۷۸۷۷۷ ہے۔ کچھ روز پہلے ہی فون لگا ہے۔ مغیث صاحب سے ملاقات ہو تو میرا سلام اور دعا کے لیے عرض کر دیجئے گا۔ اب ہمارا بھی کیا پتہ ہے۔ خدا جانے حالیؔ نے کس کرب سے شعرکہا تھا :
اٹھ گئے ساقی جو تھے میخانہ خالی رہ گیا
یاد گارِ بزم دلی ایک حالیؔ رہ گیا

پر وردگار عالم آپ کا حافظ و ناصر رہے اور آپ اسی طرح علمی اور ادبی خدمات انجام دیتے رہیں۔ فقط والسلام
دعا گو بھی اور محتاج دعا بھی ، تابشؔ

تابشؔ صمدانی بیماری کی اس کیفیت میں بھی بلند حوصلہ تھے ان کی بیماری ان کے کمزور اور نحیف جسم پر تو حاوی آتی جارہی تھی لیکن وہ کسی صورت بھی ان کے حوصلے اور قوت ارادی کو شکست نہ دے سکی۔وہ تو اﷲ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتے تھے اور حضور اکرم ﷺ کے سچے عاشق اور مداح سرا ہوں میں سے تھے۔ عشق رسول سے والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ سخت اذیت اور تکلیف میں ہو نے کے باوجود خواہش ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اس جستجومیں تھے کہ کسی طرح ان کا دوسرانعتیہ مجموعہ کلام منظر عام پر آجائے۔ آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی آپ کا مجموعہ کلا م ’’ مر حبا سیدی‘‘ آپ کے انتقال سے چند روز قبل منظر عام پر آگیا۔ انتقال سے صرف ۱۲ روز قبل ۴مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ نے ایک مختصر خط راقم
الحروف کو تحریر کیا جس کے ہمراہ آپ نے اپنے تازہ مجموعہ کلام کی کاپیاں بھی ارسال کیں۔ خط کا مکمل متن کچھ اس طرح ہے۔
بستر علالت سے- ۷۸۶ - مورخہ۴ اپریل ۲۰۰۲ء
عزیز محترم رئیس صمدانی صاحب سلام مسنون !
گزستہ دنوں آپ کا خط ملا۔ علالت کی یہ نوعیت ہے ایک ماہ میں کم وبیش پندرہ روز اسپتال میں گذرتے ہیں۔ کل پھر کیمو تھراپی کا شارٹ لگنا ہے۔ ایک ہفتہ دس روز ایڈمٹ رہنا ہوتاہے ۔ دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’مرحبا سیدی‘‘ پیش کررہاہوں ۔ ایک کتاب برادر مغیث صمدانی صاحب اور ایک کتاب انعام صدیقی صاحب کے لیے ہے۔ ان حضرات کو بھجوادیں۔ میرے پاس ان کا ایڈریس نہیں ہے۔ انٹر ویو کے لیے مناسب شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ میں کیا اور میری شخصیت کیا ۔ تاہم زندگی رہی اور بیماری نے کچھ مہلت دی تو آپ کے سوال نامے کا جواب عرض کردوں گا۔ آپ البتہ بروشر کے لیے اپنے تاثرات عنایت کریں۔ محترمہ بھابی صاحبہ کی خدمات میں سلام اور دعا کی استدعا ہے۔ جملہ عزیزان کو سلا م دعا۔
فقط والسلام ۔
دعا گو۔ تابشؔ

میرے نام تابشؔ صمدانی کا یہ آخری خط تھا ان کا پہلا خط جو میرے پاس محفوظ ہے انہوں نے ملتان ہی سے ۲۹ جون ۱۹۸۰ء کو تحریر کیاتھا ۔ان سے میری رفاقت ان کے پاکستان آنے (۱۹۷۰ء)کے بعد سے ہے جب کبھی ملاقات ہوئی دیگر خاندانی موضوعات کے علاوہ علمی اور ادبی موضوعات پر بھی گفتگو ہوا کرتی۔ خط و کتابت کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ہوا ۔ میں نے حضرت شیخ محمد ابراھیم آزادؔ جو میرے پر دادا اور تابشؔ صمدانی کے دادا ہو تے ہیں کے نعتیہ کلام کے انتخاب پر مبنی مجموعہ تر تیب دینے کا ارادہ کیا۔ تابشؔ صمدانی نے میرے اس فیصلہ کی نہ صرف تائید کی بلکہ کلام کے انتخاب میں معاونت کا بھی وعدہ کیا۔۱۹۸۰ میں میں نے اپنی اک کتاب جنا بِ تابش ؔکوارسال کی اس کے جواب میں آپ نے راقم کو ۲۹ جون ۱۹۸۰ء کو جواب تحریر کیاآپ نے تحریر فرمایا :
’’کتاب عنایت فرمانے کا شکریہ ۔ بڑی مسرت ہوئی ۔پرور دگارعالم آپ کو اس سے بھی زیادہ کامیابی اور شہرت عطا فرمائے آپ خاندان حضرت آزادؔ کا وقار بن کر ابھریں۔میں نے حضرت آزادؔ کے کلام کا انتخاب شروع کردیا ہے یا تو میں تمام انتخاب کی نقل روانہ کردوں یا آپ ملتان کا پروگرام بنالیں۔ میں اس تحریک میں ہر وقت آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ اس مجموعہ کلام کا عنوان ’’بر لب قدسیاں‘‘بھی جناب تابشؔ صمدانی نے ہی تجویز کیا تھا۔

جنابِ آزادکا نعتیہ کلام جو میں نے اور جناب تابشؔ صمدانی نے منتخب کیا تھا کتابت بھی کرالیا گیا اس کی تصحیح ہو رہی تھی کہ کاتب قمر صدیقی کا اچانک انتقال ہو گیا اور مجھے کتابت شدہ مسودہ باوجود کوشش کے نہیں مل سکا اور یہ مجموعہ منظر عام پر نہیں آسکا جس کا افسو س آج تک ہے۔۳۱ جولائی ۱۹۸۰ کے تحریر کردہ اپنے خط میں تابشؔ صمدانی نے دیگر خاندانی باتوں کے علاوہ ملتان ریڈیو اسٹیشن سے حضرت علی ؓ کے سلسلے میں ۴ اگست کو منقبت پڑھنے کی اطلاع بھی دی۔۵ نومبر ۱۹۸۰ء کو تحریر کیے گئے خط میں ۸ نومبر کی شب ریڈیو اسٹیشن ملتان سے سیدنا فاروق اعظم کی منقبت پڑھنے کی اطلاع بھی دی۔

۱۹۸۶ء کی بات ہے تابشؔ صمدانی کراچی تشریف لائے گھر آئے لیکن مجھ سے ملا قات نہ ہوسکی انہیں غالباً اسی روز واپس جانا تھا ۔ میرے نام ایک پرچہ اور ایک فائل چھوڑ گئے۔ پرچہ میں تحریر تھا ’’ ملاقات نہیں ہوسکی ۔ فائل چھوڑے جارہا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب (ڈکٹر فرمان فتح پوری) سے مفصل تاثرات حاصل فرمائیں۔ آپ کو زحمت تو ہو گی کچھ کلام ابھی باقی ہے ۔ جلد ہی کتابت کا کام شروع کرارہاہوں امید ہے اس سلسلے میں آپ خاطر خواہ تعاون فرمائیں گے‘‘۔اس پرچہ پر تاریخ درج نہیں اورنہ ہی مجھے اب صحیح تاریخ یاد ہے البتہ اگست ۱۹۸۶ء سے پہلے کی بات ہے (یہ پرچہ اور وہ فائل میرے پاس آج بھی محفوظ ہے)یہ فائل تابشؔ صمدانی کے مجموعہ کلام ’’ برگ ثنا‘‘ کی تھی جو ۱۹۸۸ء میں منظر عام پر آئی۔بعد میں آپ نے اس سلسلے میں کئی خطوط بھی تحریر فر مائے۔اس مجموعہ کلام میں تابشؔ صمدانی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، عرش صدیقی،عاصیؔ کرنالی، اقبال صفی پوری اور حزیں صدیقی کے خیالات شامل ہیں۔باوجود کوشش کے ڈکٹر فرمان فتح پوری صاحب سے رابطہ نہ ہوسکا۔اس دوران آپ کی ایک مختصر کتاب ’’ نذر سعید‘‘شائع ہو ئی جو حضرت علامہ احمد سعید شاہ کاظمی ؒ کے بارے میں ہے راقم نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات اور مبارک باد تحریرکی جس کے جواب میں آپ نے تحریر فر مایا :
’’نذر سعید ‘‘ کو پسند فرمانے کا شکریہ ۔ خدا کے فضل سے ادبی حلقوں میں نذرسعید کو پسند کیا گیا ۔ کراچی میں علامہ احمد سعید شاہ کاظمی ؒ کے بڑے مرید اور معتقد ہیں لیکن وہاں میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔نعتیہ مجموعہ ’’برگ ثنا‘‘ کی کتابت کا مرحلہ قریب قریب مکمل ہے فروری میں مکمل ہو جائے گا۔ محترم اقبال صفی پوری صاحب نے اپنے تاثرات عنایت فرما دئے ہیں۔اب کتاب کی طباعت کا مرحلہ در پیش ہے اس سلسلے میں آپ کے تجربات اور تجاویز سے فائدہ اٹھا نا چاہتا ہوں۔ ملتان کی طباعت کا معیار ’’نذر سعید ‘‘ ہے۔ایسی طباعت تو ملتان میں ہو سکتی ہے۔اگر آپ کو مصروفیات اجازت دیں تو اپنے مشورے سے نوازیں‘‘۔(یہ خط ۴ فر وری ۱۹۸۸ء کو تحریر کیا گیا)

تابشؔ صمدانی کے والد جناب خلیلؔ صمدانی اور دیگر اہل خانہ اپنے بڑے بھائی جناب انیق احمد والد بزرگوار جناب رشید احمد صمدانی کی تیمارداری کی غرض سے پاکستان تشریف لائے اور ملتان میں قیام کیا۔اس دوران تابشؔ صمدانی کے والد اچانک اﷲ کو پیارے ہو گئے تدفین ملتان میں ہوئی۔اس حادثہ کے بعد تابشؔ صمدانی نے فیصلہ کیا کہ وہ اب مستقل پاکستان اورملتان میں قیام کریں گے اپنے والد محترم کی آخری آرام گاہ کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن نہیں جائیں گے۔آپ کو اپنے والد سے بے انتہا محبت اور عقیدت تھی آپ نے اپنی زندگی کا یہ معمول بنا لیا تھا کہ آپ ہر روز اپنی زندگی کے معمولات کی شروعات سے قبل اپنے والد کے مزار پر فاتحہ پڑھا کرتے بعد از آں دنیا وی معمولات شروع کیا کرتے۔ اپنے اس طرز عمل پر آپ آخر تک قائم رہے۔

تابش ملتان میں طرحی نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔آپ نے ایک ادبی انجمن ’بزم نو‘ قائم کی ۔ اس انجمن کے زیر اہتمام ملتان شہر کے شعراء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور طرحی نعتیہ مشاعر وں کا سلسلہ شروع کیا۔ مرزاعزیزاکبر بیگ کے مطابق ’’بیشتر غزل گو شعراء اس تحریک سے متاثر ہو کر نعت رسول اکرم ﷺ کی طرف مائل ہوئے اور اب ملتان میں ہر طرف نعتیہ مشاعروں کا چرچا ہے‘‘۔تابشؔ صمدانی کی رہائش گاہ جو نیو ملتان میں ہے نعتیہ مشاعروں کا مرکزتصور کی جاتی ہے۔

تابشؔ صمدانی علی گیرین تھے۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۶۵ء میں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی تھی ۔ ملتان شہر میں قائم ’علی گڑھ اولڈ بوائز ایسو سی ایشن‘ سے تابشؔ دور کیسے رہ سکتے تھے ۔۱۹۷۰ء میں ملتان میں سکونت اختیار کر تے ہی آپ ایسو سی ایشن سے منسلک ہو گئے اور کئی سال اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ ایسو سی ایشن کے صدر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملتان مولوی سلطان عالم انصاری کے مطابق تابش ؔ صمدانی کی گرانقدر خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہیں علی گڑھ سے والہانہ لگا ؤ ہے اور اس تحریک کو وہ پاکستان کی اساس سمجھتے ہیں‘۔

تابشؔ صمدانی باہمی اخوت اور میل جول پر یقین رکھتے تھے۔ہر ایک کی خوشی اور دکھ درد میں شریک ہوتے ۔ اگر کسی دوسرے شہر میں کسی عزیز رشتہ دارکے دکھ تکلیف کا علم ہو جا تا تو اس سے خط کے ذریعہ اظہار ہمدردی کیا کر تے ۔مجھے یاد نہیں کہ میرے گھر کسی بھی قسم کی پریشانی یا غم میں انہوں نے خط لکھ کر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہا ر نہ کیا ہو۔آپ خاندان کے افراد میں باہمی میل جول، محبت ، رواداری اور خوش گوار تعلق پر یقین رکھتے تھے۔ خاندانی ایسو سی ایشن ’’ ینگ میں حسین پوری ایسو سی ایشن‘‘کی سر گرمیوں میں بھی آپ شریک رہے۔ ۱۹۹۰میں ایسو سی ایشن کے صدر جناب مشکو ر احمد نے تابشؔ صمدانی ، رشید احمد صمدانی، جناب عبدالخالد، جناب فہیم احمد صدیقی اور ملتان شہر میں رہائش پذیردیگر اہل خاندان کو ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں فعال کردار اداکر نے کی دعوت دی۔ مشکور صاحب کی دعوت پر نہ صرف تابشؔ صمدنی نے بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ہی حسین پوریوں نے لبیک کہا اور ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایسو سی ایشن کا اجلاس عام فیصل آباد کے شہر ’’بابے والا‘‘ میں منعقد ہوا جس میں صرف ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے تقریباً۲۰ اراکین نے شرکت کی۔آپ نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’کبھی بچپن میں ایسو سی ایشن کے بارے میں سنا تھا اب مشکور صاحب کے ملتان آنے کے بعد مجھ تک یہ پیغام پہنچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسو ایشن کا اجلاس ہورہاہے تو میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے ، میرے سامنے ایسو سی ایشن کا منشور نہیں تھا اس لیے میں نے سوچا کہ ینگ میں حسین پوری ایسو سی ایشن کے لیے میں مدعو کیا جارہا ہوں ، میں تو اب پچاس کے پیٹھے میں ہوں ، میں بڑی الجھن میں رہا کہ مجھے اس میں شریک ہونا چاہیے یا نہیں ، میرے برادر گرامی رشید احمد صمدانی اس میں جائیں یا اپنے بچوں کو بھیجیں تو اس کے نام میں ایک ابہام ہے اسے دور ہونا چاہیے‘‘۔آپ نے مزید فر مایا کہ ’’ میں موجودہ انتظامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کر تا ہوں ان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے رسوائے زمانہ اور گوشہ عافیت میں رہنے والے شخص کو وہ اسٹیج پر لے آئے تو کیا یہ ان کی ولایت نہیں ہے۔ میں تو مشکور صاحب کو صدر ہی نہیں سمجھتا بلکہ دور حاضر کا ولی سمجھتا ہوں اور جناب مشکور احمد کا کردار یہ کہ رہا ہے :
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں

ایسو سی ایشن کا اجلاس عام ۲۵ دسمبر ۱۹۹۳ء میں ملتان شہر میں منعقد ہوا ۔ یہ اجلاس عام ڈاکٹرمصبا ح ا لحق صاحب کے ملتان ہومیوپیتھک میڈیکل کالج میں منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے خاندان حسین پور کے احباب نے شرکت کی۔تابش ؔصمدانی نے اپنی تقریر کا آغاز حسب روایت اس شعر سے کیا ؂امیر آتی ہے مجھ کو شرم اس محفل میں کچھ کہتے ہوئیکہ میں ناقص ہوں اور کامل یہاں ہر فن کے بیٹھے ہیں آپ نے کہا ’’میں ان تمام بزرگوں کی ارواح مقدسہ کو سلام پیش کر تا ہوں جنہوں نے یہ ایسو سی ایشن قائم کی اور ہم آج ایک عظیم مقصد کے لیے یہاں یکجا ہوئے ہیں ‘‘۔ خاندان میں پائے جانے والے اختلافات اور رنجشوں کے حوالے سے آپ نے کہا کہ ’’ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں نفاق کی طرف لے جارہے ہیں ان عوامل کا پتہ چلانے کے بعد ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ پرانی قدروں کو جدید تقاضوں سے ہم آھنگ کرنا ہوگا کہ آج کا یہ جدید طرز عمل ہی ہمارے درخشاں مستقبل کی ضمانت ہے ‘‘۔

تابشؔ صمدانی اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ان کے والد قبلہ خلیل احمد نے اپنی زندگی کا طویل حصہ بیماری میں گزارا۔ آپ نے اس بات کا اظہار اس طرح کیا ’’ میری عمر کا بہترین زمانہ اکثر و بیشتر علالت میں گزرا۔ قریب قریب تیس برس مہلک و جاں فرسا امراض کینسر ، ٹیریجمینل نورلجیا وغیرہ وغیرہ میں مبتلا رہا ‘‘۔اس وجہ سے بھی تابشؔ صمدانی کی زندگی دباؤ اور بوجھ میں رہی لیکن انہوں نے حالات کا مقابلہ انتہائی حوصلہ اور بہادری سے کیا۔طالب صمدانی اور حسین صمدانی ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ عقیلہ، طیبہ، طاہرہ، قدسیہ اورسعدیہ ان کی بہنیں ہیں۔ تابشؔ صمدانی کی شادی اپنے خاندان ہی میں جناب مشتاق احمد کی صاحبزادی بہار آرا سے ہوئی۔ تین بیٹے رہبر، سرور، صفدر اور دو بیٹیاں عظمت اور نصرت ہیں۔بیٹے شعری ذوق رکھتے ہیں ، سرور اپنے والد کی طرح شعبہ قانون سے وابستہ ہیں۔شعر بھی کہتے ہیں۔ امید ہے
خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے والد کا نام بھی روشن کریں گے۔

تابشؔ صمدانی کی نعتیہ شاعری
تابشؔ صمدانی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ جنہیں مدحت سراحی اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی گویا نعت گوئی تابشؔ صمدانی کے خمیر کا حصہ ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ تابشؔ کے دادا حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ اور والد بزرگوار جناب خلیلؔ صمدانی اپنے وقت کے معروف اور مستند صاحب دیوان نعتیہ شاعر تھے ۔ تابشؔ صمدانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنے گھر کی فضاء کو سخن فہمی و سخن گوئی سے مسحور پایا انہوں نے اِ سی فضاء میں اپنے دادا حضرت ِ آزادؔ اور والد خلیل ؔ صمدانی کی زیر سر پرستی پرورش پائی ۔شعر گوئی کا ذوق پیدا ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا چنانچہ وہ بچپن ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ آپ کی شاعری ذہن و ادراک کو متاثر کرنے والی ہے۔ انہوں نے نہایت نازک ، حساس اور شاعرانہ طبیعت پائی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے احساسات و جذبات کوخوبصورت اور دلکش الفاظ کا روپ دیا ۔ آپ کو ایک فطری شاعر کہا جاسکتا ہے۔

تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی میں جو عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے وہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے ۔ بزرگوں کاحد درجہ احترام ان کی زندگی کا خاصا تھا یہی وجہ ہے کہ تابشؔ کی نعت کی فضاء شاعرانہ ہو نے کے ساتھ ساتھ حد درجہ مودبانہ ہے۔ معروف دانشور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا کہنا ہے کہ’’ آپ نے غزل کا مزاج پایا ہے اس کے رموز آشنا ہیں اور ان رموز کو عشق رسول ﷺ سے بطریق احسن منسلک کر نے کا سلیقہ بھی ہے‘‘۔تابش صمدانی اس کا اعتراف کر تے ہوئے کہتے ہیں :
مجھ کو یہ اعتراف ہے تابشؔ کہیں کہیں
مضمون غزل کے دیوان میں آگئے

معروف شاعر احمد ندیمؔ قاسمی کے خیال میں ’’تابشؔ صمدانی کی نعتوں کا مجموعہ پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ نعت بطورعبادت بھی کہی جاسکتی ہے ان کی نعتوں میں وہی عبادت کی سی سپردگی اور لگن ہے وہ حضور ﷺ کے حسنِ صورت کا ذکر کریں یا جمالِ سیرت کا بیان صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعر حضور ﷺ کی ذات و الا صفات کے عشق میں کھویا ہوا ہے اور نعت برائے نعت نہیں کہہ رہا بلکہ اس میں اپنے شعور و وجدان کی تمام رسائیوں اور لطافتوں کو سمو رہا ہے‘‘ ۔ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا ہے کہ تابشؔ صمدانی کی نعت میں عبد و معبود کا ایک حقیقی رشتہ ابھرکر سامنے آگیا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کہا کہ تابشؔ کے نعتیہ کلام میں عشق رسول ﷺ سے پیدا ہونے والی گرمی نے کلام کو پر اثر بنا دیا ہے‘‘۔اقبال عظیم نے کہا کہ ’’یہ نعتیں پڑھ کر ہر دیانت دار صاحب فکر و نظر کوتسلیم کر نا پڑے گا کہ یہ کلام ایک ایسے پختہ مشق شاعر کا ہے جسے نہ صرف زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے بلکہ جو آدابِ نعت گوئی اور نکات سخن وری سے پوری طرح آگاہ ہے اور جس نے حیات پاک رسول اﷲ ﷺ کا مطالعہ بھی خاطر خواہ کیا ہے ‘ ۔ (مرحبا سیّدی )تابشؔ صمدانی کی نعت میں حضور اکرم ﷺ سے دوری ، ان تک پہنچنے کی تڑپ حدرجہ پائی جاتی ہے۔ ان کی یہ خواہش کہ وہ دربار بنوی ؑمیں حاضر ی دیں ان کے کلام میں نمایاں طورپر نظر آتی ہے۔ آپ کہتے ہیں :
ہر لمحہ آس ہے کہ بلاوا اب آئے گا
اس طرح جی رہا ہوں درمصطفےٰ سے دور
ایک اور جگہ تابشؔ کہتے ہیں :

جاکے واپس نہ آؤنگا تابش
حاصل مدعا مد مینہ ہے
ادب، احترام، عاجزی ، انکساری اور دھیمہ پن تابشؔ صمدانی کی ذات کا حصہ ہیں جنہیں ان کے کلام میں نمایاں طور پر محسو س کیا
جاسکتا ہے ۔ آپ ایک جگہ کہتے ہیں :
ہے یہ بھی عطا آپ کی میں نعت سرا ہوں
ورنہ تھا کہاں مجھ میں سلیقہ میرے مولا

پروفیسر ڈاکٹر عرش صدیقی نے کہا کہ تابشؔ صمدانی کا باطن عشق رسول ﷺ سے منور اور ان کا ظاہر یہاں تک کہ ان کی گفتگو کا دھیما پن ان کی چال ڈھال غرض ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں عشق رسول منعکس ہے ان کی نعت گوئی کا سب سے نمایاں پہلو محبت کا وہ دلکش والہانہ پن ہے جو ادب کی حدود کا بھی احترام کر تاہے۔ ‘‘(برگ ثنا)

تابشؔ صمدانی کا کوئی باقاعدہ استاد نہیں تھا ابتد ا میں اپنے والد سے فیض حاصل کیا، تابشؔ نے جس ادبی اور شعری ماحول میں پرورش پائی اس نے تابشؔ میں پختگی پیدا کردی۔ پروفیسر عاصی کرنالی کے بقول تابشؔ صمدانی ایک پختہ فکر شاعر ہیں ۔ جوانی ہی میں وہ دستگاہ کمال کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔مشاقی نے ان میں مہارت اور چابک دستی کا ھنر پیدا کیا ‘‘۔ ڈاکٹر بیدل حیدر کہتے ہیں کہ تابشؔ صمدانی علمی بصیرت ہے کہ ان کے کلا م میں دور دور تک کسی قسم کا کوئی سقم نظر نہیں آتا ‘‘۔محمد افسر ساجد کا خیال ہے کہ ’’ تابشؔ کی فکر میں پختگی ہے‘‘۔ تجدید نو اسلام آباد کی مدیرہ عذرا اصغر کاکہنا ہے کہ ’ تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی کی فضاء مکمل طور پر شاعرانہ آھنگ سے ہمکنار ہے۔ مودبانہ بھی ہے اورمحبت سے لبریز
بھی اس طر ح تابشؔ صمدانی ہمیں ایک پختہ گو اور فکر و آگہی کے شاعر نظر آتے ہیں‘‘۔

یہ بات ازظہر من شمس ہے کہ تابشؔ صمدانی نعت گوئی کا قرینہ رکھتے تھے اور اس کے من جملہ رموز سے اچھی طرح آگاہ تھے۔اعزاز احمد آذرؔ کا کہنا ہے کہ ’’ تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی اپنے اسلوب و ابلاغ کے لحاظ سے بھی خوبصورت اور اثر آفرینی کا حسین امتزاج ہے‘‘۔ پروفیسر شیخ محمد اقبال نے کہا کہ ’’وہ لفظی جادوگری اور ادبی شعبدہ بازی سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی بزم کا جادو جگا تے ہیں ان کا بز تو ان کی محبت ہے ‘‘۔ تابشؔ صمدانی نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا ان کی خواہش تھی کہ وہ ہمیشہ نعت کہتے رہیں ۔

تابشؔ صمدانی کا پہلانعتیہ مجموعہ کلام ’’ برگ ثنا‘‘ ۱۹۸۸ء میں جب کہ دوسرا مجموعہ ۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آیا۔ آپ نے اپنے والد جناب خلیلؔ صمدانی کے کلام پر مشتمل مجموعہ بھی مر تب کیا جا ۱۹۶۸ء میں بیکانیر، راجستھان سے شائع ہوا ۔یہ آپ کی پہلی ادبی کاوش تھی۔ بزرگان دین سے والہانہ محبت و عقیدت تابشؔ صمدانی کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی اس جذبہ کا اظہار عملی طور پر ان کی مطبوعات ’’نذرِ سعید‘‘ اور ’’ منقبت کے پھول ‘‘ ہیں ۔ اول الذکر اعلیٰ حضرت علامہ احمد سعید کاظمی ؒ سے والہانہ ارادت و عقیدت اوربے پناہ محبت و مؤدت کی آئینہ دار ہے ۔یہ کتاب ۱۹۸۷ء میں منظر عام پر آئی۔ ’منقبت کے پھول‘ جناب علامہ حامد علی خان ؒ کی شان میں تابشؔ کا نظرانہ عقیدت ہے۔ تابشؔ کے مجموعہ کلام کے بارے میں ان کے بڑے بیٹے رہبر صمدانی نے یہ قطعہ کہا :
شا ہدِ کبریا کی خصو صی عطا
فکر ِ تابشؔ کو کرتی گئی پرُ ضیأ
تاقیامت رہیں گی یہ جلوہ فشاں
’’مرحبا سیّدی‘‘ اور ’’ برگِ ثنا‘‘

تابشؔ صمدانی نعت گوئی کو اپنے اجداد کا ورثہ تصور کرتے ہیں اور اس آرزو کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اجداد کی طرح زندگی کے اختتام تک سرور کائینات احمد مجتبیٰ ﷺ کے حضور نعت کا نذرانہ پیش کرتے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا :
زیست اب جتنی ہے باقی عزم ہے تابشؔ یہی
حمد باری او ر نعت مصطفےٰ لکھونگا میں
لکھ لکھ کے نعت پڑ ھتا رہوں آپ کے حضور
یہ عظمتِ قلم یہ نوا چاھیے مجھے
میری تو زندگی یہی میری تو بندگی یہی
آخری سانس تک رہوں مدح سرا مصطفےٰ

اﷲ نے تابشؔ صمدانی کی یہ آرزو پوری کی باوجود سخت بیماری اور تکلیف کے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی بستر علالت سے حضور اکرم ﷺ کے حضور نعت کا نذرانہ پیش کیا۔اﷲ تعالیٰ ان کی خواہش کو قبول و منظور فرمائے۔ آمین ؂
ہے عیاں عشق محمدی ؑ ہر ایک شعر سے
رشید الخیال و بلیغ ا لنظر ہے تابشؔ
قبول مدح محبوبی ہو تابشؔ کی رئیس
ہے یہ دعا تمہیں جنت ہو نصیب تابشؔ
(مصنف کے سوانحی مجموعہ ’’یادوں کی مالا ‘‘میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437954 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More