انسان خسارے میں ہے

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ’’عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے‘‘مٹی سے بنا ہوا انسان جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے دیا گیا وہ انا کی جنگ میں اپنی اصل کو بھول کر خسارے کا سودا کر بیٹھا ہے ۔دریا میں مگر مچھ اور مچھلی اکٹھے رہ سکتے ہیں جنگل میں دو شیر سکوں سے جی سکتے ہیں ایک بل میں دو سانب کنڈل مار کر اتفاق سے رہ سکتے ہیں لیکن ایک چھت کے نیچے دو انسان لڑائی جھگڑے کے بغیر،قتل و غارت کیے بغیر کبھی بھی زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔آخر اسکی وجہ کیا ہے۔۔۔؟آج کا انسان ترقی کی دوڑ میں علم سے بے بہرہ ہو کر ایک دوسرے کا جانی دشمن بن گیا ہے۔ اس دشمنی کی اصل وجہ علم،ہنر اور یکسوئی کا فقدان ہے۔تاریخ کا اٹھا لیں تو ہمارے سامنے بے شمار مثالی کردار سر اٹھاتے نظر آتے ،جنہوں نے تعلیم کو صف اول رکھا،انسانی خون کا سودا کیا،ملکی صورت حال اس وقت درندگی کی حدوں کو چھو رہی ہے مگرتعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لئے تعلیمی ذخائر علماؤں کی شکل میں محفوظ کر ڈالے۔اسکی ایک مثال سمر قدن کے گاؤں کیش میں پیدا ہونے والے ایک بچے کی ہے جس کو اﷲ کی ذات نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ اسکے سینے میں قرآن محفوظ کیا یہ بچہ امیر تیمور کے نام سے اسلامی تاریخ میں ایک شاندار بے مثال کردار تھا۔علمی قدرتی اور جنگی صلاحیتوں کا مالک تھا ،تیمور جہاں ایک طرف غیر معمولی انسان تھا وہیں دوسری طرف اس قدر وحشی ذہنیت کا مالک تھا کہ اسے جنگ کے میدان میں کٹی ہوئی گردنوں سے ابلتے ہوئے خون کا نظارہ نہایت ہی پر کشش اور دلفریب لگتا تھا۔وہ قتل و غارت کرتا لیکن دانشوروں،ادیبوں اور ہنر مندوں کو باحفاظت اپنے ملک میں لے آتا ہے،ان سے تعلیم حاصل کرتا ہے اور مختلف تحائف بھی دیتا ہے،علما ء کی حفاظت اور عزت کا نتیجہ یہ نکلا کے سمر قند ہنر مندوں ،شاعروں اور دانشوروں کی کی وجہ سے مشہور ہو گیا ۔تیمور کا اصول تھا کہ علاقے فتح کر ڈالو،تباہی مچا دو مگر پڑھے لکھے لوگوں کو پنا ہ دو،ان سے علم حاصل کرو اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کر و دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مغل بادشاہوں کے اسی اصول کی پیروی کر کے اپنے ملکوں اور قوموں کے لیے خوشحالی کی راہیں پیدا کر لی۔

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اسکی قوم پہ ہوتا ہے اگر قوم پڑھی لکھی ہو تو ملک ترقی کر لے گا ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی اس وقت 57فیصد ہے۔ جبکہ امریکہ کی 99فیصد ،سپین کی 97فیصد،ایران کی 85فیصد،جرمنی کی 99فیصد ،بنگلہ دیشن کی 78فیصداور انڈیا کی شرح خواندگی کی جاری کردہ رپورٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی 74فیصد سے تجاوز کر رہی ہے جو پاکستان کی بہ نسبت حیران کن ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں،زندگی کے ہر شعبے میں قدرتی وسائل کا ہوناایک خوش آئند بات ہے لیکن ان وسائل کو اچھے طریقے سے بروئے کار لانے کے لئے تعلیم اور ہنر کا ہونا بہت لازمی ہے ۔اس وقت ہمارے پاس جذبہ ہے،ایمان ہے اور جان قربان کرنے کی تڑپ ہے اگر نہیں ہے تو علم نہیں ٹیکنالوجی نہیں اسی لئے ہم تاریخ میں روندے جا رہے ہیں،طلبہ ،علماء اور دانشور علم کی دولت سے مالا مال ہو کر ہی ملک و قوم کی خوشحالی معاشرت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ صرف ہنر مند اور عالم فاضل سیاست دانوں ہی کی بدولت ہے آج کی سپر پاور امریکہ جس نے دنیا کو حراساں کیا ہوا ہے اس کی تاریخ اٹھائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ماضی اور حال میں بھی اس کی کابینہ میں تمام وزراء اپنے شعبہ کے کامل افراد تعینات کیے جاتے تھے اگر کوئی وزیر خزانہ ہے تو وہ فنانس پر عبور رکھتا ہے،وزیر زراعت ایگرکلچر کی بہتری اور اس کے تمام تر مسائل کو حل کرنے کا عزم رکھتا ہے۔اسی طرح وزیر داخلہ،وزیر دفاع اور دیگر تمام شعبہ میں بھی وہ ہی وزیر تعینات کیے جاتے جو اپنے شعبہ میں کامل ہوں اور اس فیلڈ کو درپیش تمام تر مسائل حل کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بڑی بڑٰ تبدیلیاں ایک نقطہ آغاز سے پیدا ہوتی ہیں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک ترقی کرے ہمیں بھی چہتہ نوازی کے بجائے ان لوگوں کو تعینات کرنا ہو گا جن کی تعلیم و تربیت اس شعبہ سے متعلق ہو۔ہمیں "Right man for Right Job"کے مقولے کو اپنا دستور بنانا ہو گا لیکن ہمارا اس وقت المیہ یہ ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے وزراء خود جعلی ڈگریوں کو تھامے ہوئے ہیں اور انہیں ملک کی قیادت سونپ دی گئی ہے ،اگر ہماری قیادت ہی کمزور ہو تو اس قیاد ت پر بہتری کی کیا توقع کر سکتے ہیں،حیرت کی بات یہ ہے جہاں تعلیم کو عام کرنے،طلبہ میں قیادت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور الف ،ب ،پ کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے وہاں روز بروز جعلی ڈگری کیس،میرٹ کی پامالی،رشوت عام،چور بازاری اور دہشت گردی عام ہوتی چلی جا رہی ہے ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک زندگی کے ہر شعبے میں اصلاحات نہ کر لیں یہی وجہ ہے کہ ملک اور انسان خسار ے میں ہے۔بدلتی ہوئی حکومت اپنی حتمی کوشش کر رہی ہے کہ کوئی بہتری کی صورت پید اکی جائے لیکن حالات ابھی بھی کنٹرول سے باہر ہیں،اتنا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ حکومت ہانڈی کا ڈھکن آہستہ آہستہ کھول رہی ہے جس میں سے خوشحالی کی تھوڑی تھوڑی مسحورکن خوشبو تو آ رہی ہے لیکن یہ ہانڈیہ کس قدرلذیذ ہے یہ وقت ہی بتائے گا حکومت بہتری کے لئے ابدائی مراحل پر گامزن تو ہو رہی ہے لیکن اس سست روی سے منزل مراد تک پہنچنا ایک خواب معلوم ہوتا ہے وقت کا تقاضا ہے کہ ہنگامی طور پر اس پر عمل پہرا ہوا جائے۔
 

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 38410 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.