حب الوطنی اور پاکستانیت کی اعلیٰ مثال
سعودی عرب میں بڑی تعداد میں غیر ملکی بسلسلہ ملازمت رہائش پذیر ہیں ۔
پاکستانی اپنے مذہبی تعلق و عقیدت کے باعث یہاں ملازمت اور رہائش کو فوقیت
دیتے ہیں ۔ سعودی عرب کا شہر جدہ اماں حوا کے شہر کا درجہ بھی رکھتا ہے ۔
یہ شہرمکہ المکرمہ سے صرف ۴۵ منٹ کی ڈرائیو پر ہے جب کہ یہاں سے مدینہ جانا
بھی بہت آسان ہے۔ مکہ اور مدینہ جانے والوں کے لیے یہ شہر ایک گزرگاہ یا
رابطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمرہ یا حج کی ادائیگی کے لیے لوگ جدہ ائر پورٹ
پر ہی آتے ہیں یہاں سے بذریعہ سٹرک مکہ یا مدینہ جاتے ہیں۔ جب بحری راستے
سے لوگ عمرہ اور حج کرنے آیا کرتے تھے ،اس وقت بھی جدہ کی بندرگاہ پر ہی
اترا کرتے پھر مکہ اور مدینہ جاتے تھے۔ اس اعتبار سے جدہ شہر کو ہر اعتبار
سے اہمیت حاصل ہے۔ جدہ شہر صنعتی شہر بھی ہے۔ یہاں بے شمار کمپنیوں کے
دفاتر موجود ہیں۔ ابتدا سے اعلیٰ تعلیم تک کی سہولتیں موجود ہیں۔ سعودی
تعلیمی ادارے بے شما رہیں لیکن مختلف ممالک نے بھی یہاں اپنے اسکول قائم
کیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک’ پاکستان انٹر نیشنل اسکول جدہ (انگلش سیکشن)
‘ہے۔ یہ جدہ کے خوبصورت علاقے رحاب میں واقع ہے۔اس کے ایک جانب شاہرہ
فلسطین گزرتی ہے ۔ اسکول کے مرکزی گیٹ پر کھڑے ہوں تو انتہائی دائیں جانب
مکہ روڈ پر گاڑیاں تیز رفتاری سے مکہ کی جانب جاتی نظر آتی ہیں۔ اس اسکول
کا قیام پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت
میں ۱۹۹۵ء میں عمل میں آیا تھا۔ ا، س کی عمارت وسیع، کشادہ ، دلکش اور جاذب
نظر ہے۔ اسکول کے چاروں جانب مرکزی گیٹ کے علاوہ آٹھ دروازے ہیں۔
اسکول کیمرج انٹر نیشنل پرائمری پروگرام اور (CIPP) سے الحاق شدہ اور عالمی
سطح پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔کونسل آف انٹر نیشنل اسکول برطانیہ کی رکنیت
رکھتا ہے۔ یہاں طلبہ کے لیے پلے گروپ سے اے لیول کی سہولتیں موجود ہیں
انہیں کیمرج یونیورسٹی کے لیے GCSEاور اے لیول کے امتحان کے لیے تیار کرایا
جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ کے نمائندے برائے جدہ شاہدنعیم کی رپورٹ جو ہفتہ ۱۴
دسمبر ۲۰۱۳ ء کو جنگ اخبار کے بلادی صفحہ پر شائع ہوئی کے مطابق پاکستان
انٹر نیشنل اسکول جدہ (انگلش سیکشن)کے طالب علموں نے مئی جون ۲۰۱۳ء کے
کیمرج کے بیرونی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کر کے ایک ریکارڈ قائم
کر دیا۔ کیمرج یونیورسٹی کے اعلامیے کے مطابق اے لیول) (A Levelمیں فہد بن
طاہر، محمد عرفان، قاضی جاوید، حیاشکیل، ربیعہ شبیہ، حمدان الطاف، عمران
ساجد ، حفصہ خان ، ابرھیم قریشی، محمد فراز خالد، سید اسامہ احمد، حسن اور
فاروق ضامن نے امتیازی نمبروں میں کامیابی حاصل کی۔ IGCSEکے امتحان میں
ایشم سرمد نے اول پوزیشن حاصل کی۔
ہمارا پوتامحمد صائم عدیل بھی اس اسکول میں زیر تعلیم ہے اب وہ اول کلاس
(Y1-11)میں ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں جدہ میں تھا ۱۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو اسکول میں
بچوں کے والدین کاان کے اساتذہ سے ملاقات کا اہتمام تھا یعنی Parents
Meetingتھی۔ ہم بھی ساتھ ہولیے۔ سوچا کہ اس بہانے اسکول کو اندر سے ہی دیکھ
لیں گے۔ باہر سے تو اکثر دیکھا ہی کرتا تھا۔ وقت مقررہ پر اسکول پہنچے ،اسکول
کے چاروں طراف گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ یہ ان والدین کی گاڑیاں تھیں جو
پاکستانی ہیں ، جدہ میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کے بچے پاکستان انٹر نیشنل
اسکول جدہ میں زیر تعلیم ہیں۔ آج صرف پرائمری کلاسوں کے طلبہ کے والدین کو
ہی بلایا گیا تھا۔ اس سے بڑی جماعت کے طلبہ کے والدین ہفتہ کو آنا تھا۔
مشکل سے پارکنگ ملی۔ اسکول کے چاروں طرف آٹھ گیٹ ہیں۔ ہمیں دروازہ نمبر۸سے
اندر جانا تھا۔ اسکول کے چاروں طرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے
ساتھ پاکستان کا قومی پرچم کی تصوریریں آویزاں ہیں۔ دیکھ کر اچھا لگا
اورخوشی ہوئی۔اس وقت مرکزی دروازہ پر اوپر کی جانب ایک بڑی سی تصور آویزاں
ہے جس میں پاکستان کے سابق صدر جناب آصف علی زرداری اسکول کی پرنسپل محترمہ
سینیٹر سحر کامران کو تمغہ امتیاز دے رہے ہیں۔ جی ہاں سحر کامران پاکستان
کی سینٹ کی رکن ہیں اور ہمارے محترم صدر نے انہیں اعلیٰ خدمات کے اعتراف
میں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے بہ حیثیت صدر پاکستان
رخصت ہوجانے اور نوز شریف حکومت کے آجانے کے بعد محترمہ سحر کامران پرنسپل
نہیں رہیں اور انہیں بھی زرداری صاحب کے ساتھ ہی رخصت ہونا پڑا۔ وجوہات کا
علم نہیں۔ عام طور پر سیاسی عہدوں میں اسی طرح کے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔
سحر کامران اس سے خوش ہیں یا نہیں یہ تو انہیں ہی معلوم ہوگا لیکن اس عمل
سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہوگا کہ وہ اب سینٹ کی رکن کی حیثیت سے سینٹ کے
اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوسکیں گی۔ پاکستان سے محبت اور خدمت کی ایسی
مثالیں بہت کم ملتی ہے کہ خاتون ہوتے ہوئے بیک وقت ملک میں بھی خدمت کریں
اور ملک سے باہر بھی کل وقتی خدمات انجام دیں۔تب ہی تو محترم آصف زرداری
صاحب نے انہیں خدمت میں امتیاز کا شرف بخشا۔
جوں ہی ہم اسکول میں داخل ہوئے انتہائی خوشگوار احساس نے ہمارا استقبال کیا۔
پاکستان اور پاکستانیت اپنے عروج پر تھی۔ حب الوطنی کا جذبہ اپنی بہاریں
دکھا رہا تھا۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم پاکستان کے کسی اچھے سے اسکول میں
ہی ہیں۔ صاف ستھرا ، روشن ، ہوادار ماحول۔ انتہائی دائیں جان کچھ کلاسیں
تھیں بچے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔مرد اپنے بچوں کی خبر گیری کرتے ہوئے
دکھائی دے رہے تھے ۔ خواتین جتنی بھی تھیں کالے عبایے میں ملبوس خوشی خوشی
اپنے بچوں کی تعلیمی رپورٹ معلوم کرنے کی منتظر تھیں۔ خوشیوں کے لمحات
نمایاں تھے ، عید کا سما محسوس ہورہا تھا۔ اوپر کی جانب بانی پاکستان
قائداعظم محمد علی جناح، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، بے
نظیر بھٹو، چودھری رحمت علی، حفیظ جالندھری، مینار پاکستان، فیصل مسجد،
اسلامیہ کالج پشاور، رہاش گاہ قائداعظم زیارت، نیشنل مونومنٹ کی خوبصورت
رنگین تصویریں آویزاں تھیں۔ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ حب الوطنی اور ملک
سے محبت کا لازوال اظہار۔ اس بلاک کے برابر ہمارے پوتے صاحب کی کلاس تھی
جہاں ان کے والدین کو ان کی ٹیچر کے سامنے پیش ہونا تھا۔ ہرے رنگ کا مصنوعی
آسٹروٹف بچھا ہوا تھا جس پر ایک جانب قالین کی خوشنما جانمازیں بچھی تھیں۔
کچھ خواتین و مرد نماز عصر ادا کررہے تھے۔ اس حصے کے اوپر ان تمام فوجی
افسران و جوانوں کی تصویریں آویزاں تھیں جنہوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی
جانوں کا نظرانہ پیش کیا اور انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز’ نشانِ حیدر ‘سے
نوازاگیا ۔ ان میں کیپٹن محمد سرورشہید، میجر طفیل محمدشہید، میجر عزیز
بھٹی شہید، پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، جوان سوار محمد حسین شہید، میجر
محمد اکرم شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، میجر شبیر شریف، کیپٹن کرنل
شیر خان شہید، حولدار لالک خان شامل ہیں۔کلاس روم کے ساتھ ایک کمرہ پر
لائبریری لکھا تھا غالباً یہ جونیئر سیکشن کی لائبریری ہوگی۔اس وقت یہ
بندتھی۔
ہمارے بیٹے عدیل نے پورے اسکول کا ایک راؤنڈ بھی کرایا ۔اس کا مقصد اسکول
کا جائزہ لینا تھا۔ اسکول کا ایڈمن بلاک بھی خوبصورت ہے ۔ کشادہ اورحسین ۔یہاں
قائد اعظم محمد علی جناح، صدرمملکت جناب ممنون حسین، وزیر اعظم محمد نواز
شریف، علامہ اقبال اور بے نظیر بھٹو کی خوبصورت رنگین تصویریں لگی ہوئی ہیں۔
اس سے آگے کلاسوں کا سلسلہ ہے ایک جگہ بڑے نوٹس بورڈ پر لکھا ہے ’’آئیے
پاکستان کی سیر کریں‘‘ اس جگہ اسکول کے بچوں کی تیار کردہ مختلف تصویریں
لگیں ہیں جن سے پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ پلے گراؤنڈ کے
سامنے ایک نیا بلاک ’’کنگ عبداﷲ بن عبد العزیر ایجوکیشن بلاک بنا یا گیا
ہے۔اس کے سامنے ’بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم ‘ بہت ہی بڑا، کشادہ اور دلکش ہے۔
اس میں بھی قائد اعظم، علامہ اقبال اور بے نظیر بھٹو کی رنگین تصاویر لگیں
ہیں۔ اس وقت اس میں بے شمار اساتذہ موجود ہیں جو بچوں کے والدین سے ان کے
بچوں کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں گفتگو کررہی ہیں۔ ہر ایک میز پر
متعلقہ کلاس کا نام لکھا تھا۔
کلاس روم کشادہ، ائر کنڈیشن، قالین بچھے ہوئے۔ سینئر کلاسیز میں ملٹی میڈیا
کی سہولت موجود ہے۔ ویب پر فراہم معلومات کے مطابق دو لائبریریز ہیں ایک
جونئر سیکشن میں اور دوسری سینئر سیکشن میں ۔ یقینا ہوں گی اس لیے کہ ہمارے
پوتے صاحب کبھی کبھی لائبریری کی کتاب بھی لاتے ہیں۔اسکول کی کمپیوٹر لیب
تمام تر ضروری آلات سے آراستہ ہیں، پہلی جماعت میں کمپیوٹر کا ایک سبجیکٹ
پڑھایا جاتا ہے۔ سائنس لیباریٹریز بھی تمام تر ساز وسامان اور آلات سے
آراستہ ہیں۔ کینٹین کی سہولت بھی ہے۔ طلبہ کے کھیلنے کے لیے کشادہ پلے
گراؤنڈ اسکول کے اندر ہی بنا ہوا ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ہم نصابی
سرگرمیاں بھی اسکول کا لازمی حصہ ہیں۔ طلبہ پڑھائی میں نمایاں کامیابی حاصل
کرتے ہیں ساتھ ہی دیگر سرگرمیوں میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ جدہ کا
یہ اسکول ہر اعتبار سے قابل تعریف اور مثالی ہے۔ |