مجھے اس وقت بڑی تکلیف ہو تی ہے جب میں کسی اچھے خاصے
پڑھے لکھے شخص کو جھوٹ بو لتے ہو ئے سنتا ہوں ، وعدہ خلافی کرتے ہو ئے
دیکھتا ہوں ، دھوکہ دہی اور فریب کرتے ہو ئے دیکھتا ہوں یا منفی سوچ کا
پرچار کرتے ہو ئے دیکھتا ہوں کیو نکہ تعلیم کا اولیں مقصد کسی بھی انسان کو
ایک مثالی انسان بنا نا ہو تا ہے، ایک با کردار انسان بنا نا ہو تا ہے اگر
تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انسان کا کردار نہ سنورے تو ایسی تعلیم بھاڑ
میں جائے ،ایسی تعلیم کا پھر کو ئی فا ئدہ نہیں ۔آج وطنِ عزیز پہ جو کچھ
گزر رہی ہے اور جن بحرانوں کا پاکستان کو سامنا ہے ۔ میرے نزدیک ان تمام
بحرانوں میں سب سے بڑا بحران پاکستانیوں کے کردار کا بحران ہے جو تمام
مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے کیونکہ کردار کے بحران سے دیگر بحرانوں کے سوتے
پھو ٹتے ہیں۔سائنس ، ٹیکنا لوجی، کمپیو ٹر، مو بائل فون کے زینے سے انسان
بامِ عروج تک تو پہنچا مگر اس کے پریشاں حالی اور آ شفتہ سری میں اضافہ ہو
گیا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور متمول خاندان کے لوگ بھی اخلاقی اور
روحانی اعتبار سے با لکل تہی دست نظر آ تے ہیں۔اکثریت نے اخلاقی اقدار کو
پسِ پشت ڈال کر زر پرستی اور ما دیّت پرستی کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا
ہے۔اچھے لوگ بھی مو جود ہیں مگر بہت کم تعداد میں ، ان کو بھی معاشی بد
حالی نے بے حال کر رکھا ہے۔
تعلیمی اداروں میں مو ثر کردار سازی نہ ہو نے کی وجہ سے ہم نے من حیث ا
لقوم اپنا وقار داوٌ پر لگا دیا ہے ۔حکمرانوں اور عوامی سطح پر اخلاقیات سے
بیگا نگی، دیانت،سچائی، نظم و ضبط سے لا تعلقی ، پاکستانیوں کی پہچان بن
گئی ہے۔ بین ا لاقوامی سطح پر ہم اپنی قدر و منز لت گنوا بیٹھے ہیں ۔دنیا
میں ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔درد مند دل رکھنے والے پاکستانی اس
صورتِ حال سے انتہائی دل گرفتہ ہیں اور تہہِ دل سے ان خرابیوں کا سدِ باب
چاہتے ہیں۔مگر ان خرابیوں کا سّدِ باب کیسے ہو ؟
میرے خیال میں تعلیم ہی وہ واحد اور مو ثر ذریعہ ہے جس کی بد ولت خیر و شرّ
کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔علم و آ گہی سے انسان اپنے لئے درست راہیں تلاش کر
سکتا ہے کیو نکہ تعلیم بذاتِ خود ایک اخلاقی عمل ہے جو عقل و دانش، تفکّر و
استدلال اور تدّبر کی قو توں کو جلا بخشتے ہو ئے انسان کو اعلیٰ مقاصد کے
حصول کی ترغیب کا باعث ہے ۔ تعلیم کا مقصد ہی انسانی شخصیّت کو سنوارنا اور
اسے معاشرے کا کار آمد شہری بنا نا ہے۔ قدرت نے ہر شخص کو مختلف صلاحیتوں
سے نوازا ہے۔تعلیم ان صلاحیتوں کا کھوج لگاکر بروئے کا ر لا تا ہے۔اس سلسلے
میں تعلیمی ادارے یقینا بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ چا ہیں اور
خلوصِ نیّت سے بچوں کی کردار سازی پر تو جہ دیں تو ذلتّ کے گہرائیوں میں
پڑی ہو ئی یہ قوم اوجِ ثرّیا تک پہنچ سکتی ہے۔بچوں کو ماڈرن سا ئنسز پر
مشتمل مضامین ضرور پڑھانے چا ہئیں لیکن بچوں کی تربّیت اس نہج پر ہو نی چا
ہئے کہ اسلامی اقدار،ایمان و اخلاقیات اس طور پر ان کے ذہن میں رچ بس جا
ئیں کہ زندگی کے کسی موڑ پر وہ اپنے مذ ہب کے خلاف شک و شبہ کا شکار نہ ہوں
یعنی ان کے قدم ڈگمگانے نہ پا ئیں ۔تعلیمی اداروں کو قومی ترانوں ،نظموں ،کہانیوں
اور ڈراموں کی مدد سے طلباء میں حب ا لوطنی کا جذبہ پیدا کرنا چاہئیے۔
روزمرہ زندگی میں طلباء میں ڈسپلن کی ایسی خصو صیات پیدا کی جائیں کہ وہ
کمرہ جماعت کے اندر اور باہر اس کا ثبو ت دے سکیں مثلا بس پر سوار ہو تے
وقت لا ئیبریری یا لیبا رٹری کے اندر داخل ہوتے وقت قطار بنائیں ، کنٹین سے
کو ئی بھی چیز لیتے وقت اپنی با ری کا انتظا ر کریں ۔کلاس روم کو صاف ستھرا
رکھیں ۔طلباء کے روّیوں میں طہارت اور پاکیزگی کی عمدہ عادات کو راسخ کیا
جائے عملی طور پر یہ تربیت دی جائے کہ سکول میں کاغذ ، پھلوں ،مونگ پھلی کے
چھلکے اور دیگر کوڑا وغیرہ ادھر اَدھر پھینکنے کی بجائے Dustbinمیں
پھینکیں،جب کلاس روم خالی ہو تو پنکھے اور بجلی بند کر دیا کریں ۔طلباء کو
اس انداز میں اخلاقی تربیت دی جائے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں ،
جھوٹ، چوری،سستی اور بد دیانتی کے برے نتائج طلباء پر وا ضح کریں تاکہ عملی
زندگی میں وہ ان برائیوں سے دامن بچا کر چلیں ۔
تعلیمی اداروں میں اسا تذہ کا کردار طلباء کی کردار سازی میں نہایت اہم
کردار ادا کرتا ہے۔طلباء لا شعوری طو ر پر اپنے اسا تذہ کی تقلید کرتے ہیں
۔اس لئے اساتذہ خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر طلباء کے سامنے پیش کریں ۔اسا
تذہ خود وقت کے پا بند، ہمدرد، دیانت دار، محنتی اور قول و فعل میں یکسانیت
کے حامل ہو نگے تو طلباء ان کے کردار سے یقینا متا ثر ہو نگے اور یوں ایک
صاف ستھرے، دیانت داراور زندہ ضمیر کی حامل قوم کی تشکیل ہو گی۔ |