لوٹ سیل جاری ہے

 دو ماہ قبل کراچی کی مقامی تھوک مارکیٹ میں 100 کلو چینی کی بوری کی قیمت 4350 روپے سے کم ہو کر 4340 روپے اور ‘ درجہ اول گھی کے کنستر کی قیمت 1790 روپے سے کم ہو کر 1780 روپے ہو گئی تھی۔ لیکن دو ماہ کے دوران ہی ایسی لوٹ مار مچی کہ یہ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کراچی سٹے بازوں اور منافع خور وں کی جنت ہے۔ یہاں آپ کو سٹے باز بندر روڈ پر کھڑے دور سے آنے والی گاڑیوں کے نمبر پر سٹہ کھیلتے نظر آئیں گے۔ اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیلنے والے ذرا اونچے قسم کے کھلاڑی ہیں ۔ سٹے نے آج ایشاء کی اس بڑی مارکیٹ کو تباہ کردیا۔ اربوں روپے کی سٹے بازی ہوئی۔ لیکن کمانے والے کما کر عیش کررہے ہیں، اور تباہ ہونے والے اپنی قسمتوں کو کوس رہے ہیں۔ پاکستان میں افواہ سازی کی فیکٹریاں لگی ہیں۔ آپ کوئی بھی جھوٹی سچی خبر ایس ایم ایس پر بھیج دیں۔ شام تک یہ خبر چینلوں سے نشر ہونے لگے گی۔ بریکنگ نیوز میں نمبر ون ہونے کی دوڑ میں سب کچھ جائز ہے۔ بعد میں وضاحت، تردید، ہوتی رہے گی۔ رمضان سے تین ہفتے قبل جب قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا۔ تو ہم نے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا تھا۔ لیکن یہاں ایسا کون سا ادارہ یا اتھارٹی ہے جو قیمتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ مارکیٹ میں مختلف افواہیں پھیلا کر چینی کی قیمتیں بڑھانے والے کامیاب ہیں۔ اور بڑے پیمانے پر منافع کما رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب تو ۰۵ روپے کلو کی سرکاری قیمت کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ حیرت انگیز ہے۔ لیکن ان قیمتوں پر حکومت کی جانب سے مہر تصدیق ثبت کرنا۔ اس حیرت کا دوچند کردیتا ہے۔ تین ماہ قبل ریٹیل میں چینی کی قیمت 28 روپے کلو تھی۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر جا پہنچی ہے۔

نومبر سے مارچ کا عرصہ چینی کی پیداوار کا عرصہ ہوتا ہے اور اس عرصے میں چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا۔ اس وقت سارے ادارے سو رہے تھے۔ اور متعلقہ وزارتیں اور حکام انتظار کررہے تھے۔ کہ عوام چیخیں چلائیں۔ تو بڑھی ہوئی قیمتوں میں کچھ کمی کر کے اشک سوئی کردیں گے۔ جیسے بجلی کی قیمتوں، یا ٹرانسپورٹ کرائے، یا تیل کی قیمتوں میں کیا گیا، تو کیا مطمئین ہیں کہ اب ایسی کوئی چیٹینگ نہیں ہوگی۔ جی نہیں یہ مافیا پھر کسی اور سیکٹر میں سر اٹھائے گی۔ اور آپ کو حیران کردے گی۔ خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں نہ جانے کن کن چیزوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومتیں کس لئے ہوتی ہیں۔ کیا انہیں مارکیٹ کے ایسے منافع خوروں اور سٹے بازوں کے خلاف فوری ایکشن لینا نہیں چاہئے تھا۔ اگر اسکے ذمہ دار شوگرمل تھے۔ تو چینی بڑھتی ہوئی قیمت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرتے ہوئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پاس موجود چینی کے اسٹاک کو کیوں ریلیز نہیں کیا گیا۔ چینی کی قیمت میں اضافے کے باعث شوگر ملوں نے تقریباً ۰۵ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔ چینی کے عوض بینکوں کے قرضوں کی فوری واپسی سے قیمتوں میں فوری کمی ہوسکتی تھی۔ لیکن اس آپشن کو بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ بینکاری زرائع کہنا ہے کہ کہ شوگر ملوں نے گنے کی کریشنگ کے وقت بینکوں سے52 ارب روپے قرض لیا تھا اور جولائی کے اختتام تک انہوں نے23 ارب روپے کی رقم واپس کردی تھی۔ دوسری جانب شوگر ملوں کے پاس تقریباً12 لاکھ ٹن چینی موجود تھی۔ جس کی کرشنگ سیزن میں قیمت 33 ارب40کروڑ روپے تھی مگر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اب اس چینی کی قیمت60 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح ملوں کو بغیر کسی محنت کے26 ارب40کروڑ روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستان شوگر ملرز کا کہنا ہے کہ ملوں کے پاس7 لاکھ ٹن چینی موجود ہے، اگر ان اعداد وشمار کو درست مان لیا جائے تو بھی19 ارب60کروڑ روپے مالیت کی چینی کی قیمت35 ارب روپے سے زائد ہوگئی ہے اور اس طرح شوگر ملوں کو ان کے اسٹاک پر15 ارب40 کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے۔ بینکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے شوگر ملوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ چینی کے اسٹاکس کے عوض لئے گئے قرضوں کو واپس کردیں مگر بعد میں اس فیصلے کو تبدیل کردیا گیا اور شوگر ملوں کو آئندہ تین ماہ تک قرضے واپس کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کو کم کرنے کے لئے شوگر ملوں کے چینی کے عوض لئے گئے قرضوں کی فوری واپسی ضروری تھی۔ شوگر ملیں پنجاب کی ہوں یا سندھ۔ ان کے مالکان بہت طاقت ور ہیں۔ وہ بنکوں سے قرضہ لے کر، ٹی سی پی سے ایڈوانس لے کر بھی مارکیٹ میں سپلائی نہ دیں تو آپ ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔ کہا گیا کہ سندھ شوگر ملز کی جانب سے طلب کے مقابلے میں مقررہ سپلائی میں کمی کے باعث چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شوگر ملوں کے پاس چینی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن ڈلیوری آرڈرز جاری ہونے کے باوجود شوگر ملوں کی جانب سے چینی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ یہ ایک مافیا ہے۔ جس میں سب شریک ہیں۔ اور عوام بے حس ہیں۔ جو اپنے حق کے لئے لڑنے سے محروم ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 394052 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More