گدا گری ایک لعنت ہے جو انسان کو
انسانیت کے درجے سے گرا دیتی ہے لیکن افسوس کہ گدا گری کی یہ لعنت ہمارے
معاشرے میں ایک وسیع تر پیشے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے گدا گروں کی
باقاعدہ ایک برادری ہے جو جماعت در جماعت گلی، محلوں، سڑکوں اور بازاروں
میں مختلف ٹولیاں بنا کر خانادن کے خاندان جا بجا مورچے لگا کر پھیلے
دکھائی دیتے ہیں جو آتے جاتے لوگوں کے پیچھے للکارتے ہوئے اس انداز میں
سوال کرتے ہیں کہ راہگیروں کو بادل ناخواستہ سوالی کے کشکول یا ہاتھ پہ کچھ
نہ کچھ رکھنا ہی پڑتا ہے
بعض رحم دل افراد تو سوالیوں پر نظر کرم کر دیتے ہیں لیکن انہی میں ایسے
بھی ہیں کہ جو مانگنے والے کو بری طرح جھڑک دیتے ہیں حالانکہ اسلام میں
سوال کرنے والے کو جھڑکنے کی ممانعت ہے جبکہ بیشتر سادہ دل انسان اسی بات
کے پیش نظر پیشہ ور گدا گروں کے ہاتھوں اپنی سادگی کے سبب بیوقوف بنتے رہتے
ہیں
اگرچہ اسلام میں سوالی کو جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ
اگر آپ کسی کی مدد نہیں کر سکتے تو اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے کے بھی
روا دار نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ توہین آمیز
سلوک کا حق رکھتا ہے کہ یہ طرز عمل انسانیت کے منافی ہے
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کے راستے میں آنے والے ہر سوالی کا دامن
کشکول بھرتے چلے جائیں کہ سادہ دل انسان اپنی اسی کم فہمی و سادگی کے باعث
گدا گری کے کاروبار میں گدا گروں کے معاون رہے ہیں گدا گروں کو اپنا
کاروبار چمکانے میں ایسے ہی سادہ دل انسانوں کی حمایت و معاونت حاصل رہی ہے
اور اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیشتر موقعہ شناس اور پیشہ ور گداگر
اخلاقی و نفسیاتی ‘بلیک میلنگ‘ سے سادہ اور بالحاظ انسانوں کو لوٹتے رہتے
ہیں جو کہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے بلکہ یہ ایک قابل مذمت اور غیر اخلاقی
فعل ہے گدا گری پیشہ نہیں بلکہ اخلاقی کمزوری ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں
گدا گدا گری کوئی پیشہ نہیں بلکہ اخلاقی کمزوری ہے جو دن بدن پھیلتی ہی جا
رہی ہے
آج کل ماہ رمضان میں تو جیسے گداگروں کی چاندی ہے ان دنوں گلی محلوں اور
بازاروں میں نئے سے نئے گدا گروں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو اللہ کے
نام پر دل کھول کر صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کے خود کو حقدار ثابت کرنے کے
حیلے تراشتے ہوئے دعائیں دیتے گزرنے والوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں کبھی یہ
دعا کہ غریب کو کچھ دیتے جاؤ اللہ تمہاری نمازیں روزے قبول کرے گا، آج ایک
دو اللہ تمہیں ایک کے بدلے سو دے گا انہی لوگوں میں کہیں جیب کترے اور بچوں
کو اغوا کرنے والے بھی ہوتے ہیں یہ چیخ چیخ کر اپنی غربت و تنگدستی کا
سرعام کرنے والے واقعتاً نادار و مستحق نہیں بلکہ لٹیرے ہوتے ہیں
جنہیں مفت خوری کی عادت ہے خیرات کھا کھا کر ان کی عزت نفس بالکل مسخ ہو
چکی ہے اور انہیں شے دینے والے وہ لوگ ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ان کی دعاؤں
سے متاثر ہو کر ان کی جھولیاں نذرانوں سے بھر دیتے ہیں |