تاریخی پس منظر:
ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟اور یہ کس طرح سے رواج پایا؟اس کے بارے میں کوئی مستند
اور حتمی رائے موجود نہیں ہیں۔۔۔۔کچھ واقعات ہیں جو اس واقعہ کے ساتھ منسوب
کیے جاتے ہیں۔۔۔ذیل میں ان واقعات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا کہ
ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟
انساٰئیکلوپیڈیا آف بریٹینیکا کے مطابق :
"اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے"
انسائیکلوپیڈیا بک آف نالج کے مطابق:
"وینٹائن ڈے جو (چودہ فروری)کو منایا جاتا ہے محبوبوں کے لیے خاص دن ہے"
بک آف نالج اس واقعہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار
لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع
پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔
بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار
کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو
برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا
رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات
منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے
ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے
والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز
کا سلسلہ شروع کردیا۔“
( ’ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص ۳)
اس کے علاوہ ایک اور معروف واقعہ جو ویلنٹائن نامی شخص کے ساتھ منسوب کیا
جاتا ہے اس کے بارے میں بھی عطاءاللہ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی
داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے
جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں
اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی
معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری
کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے
گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں
یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی
ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں
نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں
دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے
راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی
پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی
پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن
کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔
یہ تھے وہ واقعات جو عام طور پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
دین اسلام اور تہوار:
ہر مذہب اپنے اندر کچھ تہوار رکھتا ہے۔دین اسلام میں بھی نبی کریم ﷺ نے
اپنی قوم کو دو تہوار دیئے۔
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو
تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے)
فرمایا:
وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار
عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“
(صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
غیر مسلموں کے رسم و رواج اور تہواروں کے بارے میں آپ کس قدر سجیدو اور
دورس نگاہ رکھنے والے تھے کہ ۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا
ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ’بوانہ‘
نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) آپ نے
فرمایا: کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟ اس
نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا
(هل کان فيها عيد من أعيادهم؟) ” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے
کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا
کہ ”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر
پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔“ (ابوداوٴد:۳۳۱۳)
اس واقعہ سے اندازہ ہوا کہ ایسی جگہوں پہ جانا بھی ممنوع جہاں اس طرح کے
کام سرانجام پاتے۔
ثقافت اور مذہب کے درمیان فرق:
اب یہاں پہ آکر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو بہت بلغ اور دقیق بھی ہے۔وہ
یہ کہ ترقی پسند طبقہ کا خیال ہے کہ وہ رسم ورواج جو معاشرے میں پھل پھول
جائے ان کو منا لینے میں کیا حرج ہے؟
تو اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ ثقافت حالات کے مطابق نموپزیر ہوتی رہتی جبکہ
مذہب کے احکامات اٹل ہوتے،ان میں اگر تغیروتبدل کر دیا جائے تو اپنی اصل
شکل میں برقرار نہیں رہتے۔اگرچہ مذاہب میں بھی اتنی نرمی ہوتی مگر اتنی
نہیں کہ اس کے بنیادی احکامات کو ہی توڑ مروڑ دیا جائے۔مذہب اور ثقافت اپنی
اصل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں،اور ان میں کشمکش چلتی رہتی جیسا
کہ ویلنٹائین ہی کی مثال لے لیں تو خود عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔لہذا
ثابت ہوا کہ ہر لچر پن کو ثقافت کا لبادہ اوڑھا کر حلال نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ "ویلنٹائن ڈے"کے ممنوع ہونے کی اخلاقی اور سماجی وجوہات بھی
ہیں جو اس تہوار کو منانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتیں۔۔
فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل:
فحاشی اور عریانی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے۔دین اسلام تو ہے ہی
پاکیزہ اور صالح لوگوں کا دین،قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
إنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أنْ تَشييْعَ الْفَاحِشَةُ فِيْ الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِيْ الدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ
(النور:۱۹)
”یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے
حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“
جبکہ ویلنٹائن تو ہے ہی بے حیائی اور فحاشی دن۔لہذا اسے کسی صورت بھی ایک
صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔
دین اسلام مین غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے طورطریقوں سے بچنے کا درس
دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ ہے
من تشبه بقوم فهو منهم
”جس نے غیرمسلموں کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“ (ابوداوٴد:۴۰۳۱)
خلاصہ کلام:
ویلنٹائن ڈے کو منانا مذہبی ،اخلاقی اور مواشرتی سطح پر غلط اور ممنوع
ہے۔اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر
راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ویلنٹائن ڈے فحاشی کا دوسرا نام ہے۔اسے معاشرے
میں رواج دینا فحاشی کا دروازہ کھولنا ہے۔مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے
ہے جہاں بن بیاہی مائیں اور بغیر باپ کے بچے فروغ پا رہے ہیں۔
اللہ ہمیں سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق دے۔۔۔آمین
|